پاک ایران افواج کی مشترکہ پیٹرولنگ کی خبر کی تردید


ایرانی فوجی

مشترکہ آپریشنز کی ضرورت ہوئی تو دونوں فورسز اپنے اپنے علاقوں میں پیٹرولنگ اور آپریشنز خود کریں گی: ترجمان آئی ایس پی آر

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اس خبر کی تردید کی ہے کہ پاکستان اور ایران کی مسلح افواج نے مشترکہ پیٹرولنگ کی ہے اور کہا ہے کہ ان اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں میجر جنرل آصف غفور کا ڈان اخبار کا ذکر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاک ایران سرحد پر دونوں ممالک کی فورسز کی جانب سے کسی قسم کی مشترکہ پیٹرولنگ نہیں ہو رہی۔

انھوں نے واضح کیا کہ مشترکہ آپریشن کی ضرورت ہوئی تو دونوں فورسز اپنے اپنے علاقوں میں پیٹرولنگ اور آپریشنز خود کریں گی۔

پاکستانی فوج کےترجمان کی وضحات کے بعد سوشل میڈیا پر بحث شروع ہو گئی کہ مشترکہ پیٹرولنگ والی خبر تو میڈیا کے مختلف اداروں میں شائع ہوئی تو ڈی جی آئی ایس پی آر کی وضاحت میں صرف ڈان کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟

فوج کے ترجمان کی طرف سے اس خبر کی تردید کے بعد ڈان اخبار کی انتظامیہ کی طرف سے بھی ردعمل سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اُنھوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس پوائنٹ کو نوٹ کیا ہے۔

https://twitter.com/OfficialDGISPR/status/1203983021344460801

مزید پڑھیے

سرحدی محافظوں کی ہلاکت پر ایران کا احتجاج

ایران کی پاکستان میں شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی

’کچھ گروپ پاکستان سے ایران میں کارروائی کرتے رہے‘

ڈان اخبار کے ایڈیٹر ظفر عباس کی طرف سے جاری کی گئی ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ غلط فہمی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان یعنی اے پی پی کی طرف سے جاری کی گئی تصویر کی وجہ سے ہوئی ہے جس کے ساتھ پاکستان اور ایران کا مشترکہ پیٹرولنگ کیپشن لکھا ہوا تھا۔

ظفر عباس کی طرف سے لکھی گئی ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ریڈیو پاکستان کی طرف سے یہ ٹویٹ کی گئی تھی۔

ڈان اخبار کے ایڈیٹر نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے اس بیان کی روشنی میں ڈان اپنی خبر میں تصیح کررہا ہے۔ اس خبر سے متعلق جب اے پی پی کی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ خبر انھوں نے ریڈیو پاکستان سے لی تھی۔

ریڈیو پاکستان کی انتظامیہ کی طرف سے ابھی تک اس خبر سے متعلق کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

واضح رہے کہ ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ’ارنا‘ نے بھی اس خبر کو شائع کیا تھا لیکن اپنی خبر میں اُنھوں نے پاکستانی میڈیا کا حوالہ دیا تھا۔

سوشل میڈیا کے ایک صارف عمر علی نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ یہی خبر ایکپریس ٹربیون اور دی نیوز کے علاوہ سرکاری خبر رساں ادارے نے بھی شائع کی ہے تو پھر ڈان کو ہی کیوں نشانہ بنایا گیا ہے۔

سلیم نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو ڈان کے پیچھے پڑنے سے پہلے سرکاری خبر رساں ادارے اور ریڈیو پاکستان کو بند کردینا چاہیے اگر اُنھوں نے بھی یہ خبر شائع کی ہے۔

https://twitter.com/memzarma/status/1203999840558026752

واضح رہے کہ اس سے قبل برطانیہ میں لندن برج پر لوگوں کو چاقو کے حملے سے ہلاک اور زخمی کرنے والے ملزم عثمان خان کو پاکستانی نژاد لکھنے پر نامعلوم افراد نے اسلام آباد میں ڈان اخبار کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔

عثمان خان کو دو روز قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کوٹلی میں دفن کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp