ریاست مدینہ اور کاشانہ کی ستاون بچیاں


گذشتہ دنوں سے کاشانہ ویلفیئر ہوم کا سکینڈل منظر پر ہے لیکن کچھ اس طرح سے ہے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ بچیوں کے حفاظتی سنٹر کا دروازہ رات گئے غیر متعلقہ اشخاص کے لئے کھولا جاتا ہے اس بات پر بھی کوئی عوامی ہلچل دیکھنے میں نہیں آئی، جیسی آنی چاہیے تھی۔ وجہ کیا ہے؟ کیا ہم بے حس ہو گئے؟ عادی ہوگئے؟ یا پھر طاقتور سے ڈر گئے ہیں؟ اگر ہم طاقتور سے ڈر گئے ہیں تو پھر تف ہے ہم پر کہ وہ عورت ہو کر تو نہ ڈری ظالموں سے، وہ تو ٹکرا گئی، کر گئی بے نقاب انھیں، سخت طوفان میں اپنے حصہ کی شمع تو جلاگئی وہ کمزور عورت۔

محترمہ افشاں لطیف کا ایک اور ویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے کہ جس میں انھوں نے مایوس ہو کر یونائیٹڈ نیشن اور ایمینسٹی انٹرنیشنل سے بچیوں کی حفاظت کی اپیل کی ہے۔ اس مایوس ویڈیو کو دیکھ کر دکھ ہوا اور اس سے زیادہ دکھ یہ ہوا کہ عوام نے اس کو زیادہ سے زیادہ ویڈیو شیئر کرنے ہی کو مدد سمجھا۔ کیا اخلاقی طور پر اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ اپنے ملک کے یتیم بچیوں کے ادارے میں رہنے والی بچیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔

کیا ہم اتنی پستی میں گر چکے ہیں کہ خود اٹھنے کے قابل ہی نہیں رہے؟ اٹھنے کے لئے غیروں سے مدد مانگ رہے ہیں۔ غیر بھی وہ جن کا اسلام سے تعلق نہیں اور جو اسی تاک میں ہیں کہ مسلمانوں کو برا کہنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ہم بحثیت مسلمان اسلام کا جھنڈا لہرانے میں تو آگے ہوتے ہیں، کھوکھلے نعرے لگانے میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ہم یہ بیان تو آسانی سے دے لیتے ہیں کہ مسلمان سیسہ پلائی دیوار ہیں اور اسلام نے عورت کو تحفظ دیا ہے لیکن اخلاقی طور پہ اتنے پست ہیں کہ اپنی یتیم بچیوں کی عصمت کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ ہر وقت دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے نشے مں تو ہر وقت چور رہتے ہیں لیکن بے بس اتنے ہیں کہ چند درندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

محترمہ افشاں کے اس ویڈیو لنک جس میں انھوں نے یونائیٹڈ نیشن سے مدد مانگی شیئر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کو بتا سکیں ہم کتنے ظالم ہیں کہ اپنی معصوم بے سہارا بچیوں کو گدھوں کی طرح نوچ ڈالتے ہیں سو ہم پر کوئی بھروسا نہ کرے اور دنیا کو یہ بتانا ہے کہ ہم کاہل لوگ اپنی بچیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔

سو ادھر جو چاہے لوٹنے کے لئے آجائے ہم افیمیوں کی طرح پڑے رہیں گے۔ کوئی مزاحمت نہیں کریں گے۔ چلو مان لیا اس ایک کیس میں یونائیٹڈ نیشن انوالو ہو جاتی ہے۔ اس سنٹر مں بچیوں کو تحفظ دینے آجاتی ہے تو ملک کے باقی کے اداروں میں رہنے والی بچیوں کی حفاظت کس کے ذمہ کی جائے گی ؟ اگر وہ باقی اداروں کو بھی تحویل میں لیتے ہیں اور پھر اگر ان اداروں کو چلانے والوں کی نیت بھی خراب ہوگئی تو پھر اس کے لئے ہم کس کے آگے فریاد کرنے جائیں گے۔ ہم تو اپنے وطن کی کالی بھیڑوں پر ہاتھ نہیں ڈال رہے تو ان سپر پاور والوں سے کیسے نجات پائیں گے کہ گند ہر جگہ ہے، گندی ذہنیت رکھنے والے گنے چنے افراد ہر محکمہ میں چمٹے ہیں۔ ضرورت اس گند کو ختم کرنے کی ہے۔

ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار تو سوئے پڑے ہیں ان کو اتنا بھی علم نہیں کہ ریاست مدینہ کے امیر سوتے نہیں تھے وہ راتوں کو جاگ کر عوام کی خبر رکھتے تھے۔ موجودہ ریاست مدینہ کے امیر بننے کی کوشش کرنے والے ریپلیکا کو تو اتنا بھی نہیں پتہ کہ کاشانہ کی ایڈمنسٹریٹر کتنے ماہ سے بچیوں کی حفاظت کے حوالے سے پریشان ہے۔ اور بالآخر اس نے غیروں سے مدد مانگی ہے۔ کیا موجودہ وزیراعظم اتنا بے بس کے کہ وہ بچیوں کی حفاظت کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا اور اگر وہ بے بس ہے تو کیا دوسری سیاسی جماعتیں، انسانی فلاح کے لئے کام کر نے والی تنظیمیں اور عوام بھی اس قابل نہیں رہی کہ بچیوں کی حفاظت کے لئے کام کر سکیں، آواز اٹھا سکیں۔

اگر یہ سب لوگ بے بس ہیں تو پھر ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ جو ایٹم بم ہم دشمن کو ڈرانے کے لئے رکھے پھرتے ہیں ہمیں اس کو خود پر ہی چلا کر مر جانا چاہیے۔ ہم جو غیرت کے نام پر بے قصور لڑکی کو تو سنگسار کر دیتے ہیں لیکن عزت کے نام پر لڑکیاں محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ صرف اس لئے کہ سامنے والا طاقتور ہے۔ خدا کے لئے ہوش میں آؤ، آسمان سے من و سلویٰ کے اترنے کا انتظار کیوں کر رہے ہیں۔ ہمار بیچ کوئی پیغمبر نہیں ہے جس کی وجہ سے فرشتے آسمان سے ہماری مدد کو اتریں گے۔ ہمیں اپنی مدد خود کرنی ہے ظلم کے خلاف خود آواز اٹھانی ہے۔ ظالم سے ڈر کر ظلم سہنے کی روایئت اپنانی ہے تو پھر غاروں میں جا بسیں۔ چوڑیاں پہن لیں۔

خدا کے لئے ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ دو سال پہلے جیسے عاصمہ قتل کیس میں عاصمہ کے لئے نکلے تھے۔ تب ایک عاصمہ تھی آج کاشانہ کی ستاون عاصمہ ہیں جن کی عصمت محفوظ نہیں اور وہ بڑی آس سے ہمیں دیکھ رہی ہیں۔ ہمیں ان سب کو محفوظ کرنا ہے۔ صرف اس ڈر کی وجہ سے خاموش نہیں رہنا کہ سامنے والا طاقتور ہے۔ وہ اکیلا کوئی طاقت نہیں رکھتا، ہم عوام ہیں، ہمارے پاس عوام کی طاقت ہے۔ حکومت کی طرف مت دیکھیں یہ کچھ نہیں کرے گی، جب تک ہم نہیں نکلیں گے۔

جب ہم عوام ظلم کے خلاف نکلیں گے تو حکومت کے ایوان ہل جائیں گے اور پھر بھی طاقت کے نشے میں چور ایوانوں میں قید رہیں گے تو پھر یہی حکومت قارون کیطرح محل سمیت زمین میں دھنس جائے گی۔ ہمیں اس وقت دانشمدوں والی ہوش کی ضرورت نہیں، کہ ہم بیٹھ کر دانشوری جھاڑتے رہیں۔ ٹاک شوز میں برا کہتے رہیں اور سوشل میڈیا پر ویڈیو فارورڈ کرنے کا مسج کرتے رہیں بلکہ اس کے لئے جنون اور جنونیوں کی ضرورت ہے جو آتش نمرود میں کود پڑیں اور طاقتوروں سے ٹکرا جائیں۔ تبھی ہم اپنی بچیوں کو محفوظ رکھ سکیں گے۔ ورنہ کل کسی اور کاشانہ میں یہی کچھ ہوگا اور ظلم کا سلسلہ دراز ہوتا رہے گا۔ سو بڑھیں آگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).