”غیرت کے نام پر قتل“ کانعرہ لگانے والوں کے نام


پیٹرسن ایک یہودی تھا۔ اس کی سارہ کے ساتھ بڑی دوستی تھی۔ پیٹرسن اس دوستی کے حوالے سے بڑا حساس واقع ہوا تھا۔ وہ سارہ کا ملاپ کسی بھی دوسرے انسان کے ساتھ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ پھر ان کی زندگی میں ایک نازک موڑ آیا جب سارہ اپنے ایک ہمسائے تھامسن کے ساتھ انوالو ہو گئی۔ جب پیٹرسن کو پتا چلا تو اس سے یہ بات برداشت نہ ہوئی۔ اس نے سارہ کو ڈنر پر اپنے گھر بلایامگر کسی مشروب کی بجائے اسے موت کا جام پلا دیا۔ اس کی لاش کا قیمہ بنایا اور واشنگ مشین میں ڈال کر اس قیمے کو واش کرتا رہا اور ساتھ ساتھ ڈرنکنگ کرتے ہوئے قہقہے لگاتارہا۔ سارہ کی بوڑھی ماں اولڈ ہاؤس چلی گئی کیونکہ سارہ گھر کی واحد کفیل تھی، جو اب اس دنیا کو چھوڑ چکی تھی۔ یہ خبر میڈیا میں یوں رپورٹ ہوئی کہ ایک عاشق نے جذبات کی رومیں بہہ کر اپنی گرل فرینڈکا خون کردیا۔

دوسرا واقعہ پاکستان میں پیش آیا۔ سلمیٰ یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ تھی۔ وہیں اس کی ملاقات عابد سے ہوئی۔ بعد ازاں ملاقاتیں محبت کا روپ دھار گئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی حدود پامال ہو گئیں۔ بات کلاس سے نکل کر یونیورسٹی اور گھر سے نکل کر محلے میں پھیل گئی۔ ایک دن سلمیٰ کے بھائی شہزاد کو کسی نے بھرے چوک میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنا ڈالا۔ وہ غصے میں بھرا گھر میں داخل ہوا، پستول نکالا اور اپنی بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

بات میڈیا تک پہنچی اور شام جو خبریں نشر ہوئیں ان کا حاصل یہ تھاکہ ایک مسلمان نے غیرت کے نام پر اپنی بہن کا قتل کردیا۔ خبر نشر ہونے کی دیر تھی کہ خواتین کے ”حقوق“ سے متعلق تنظیمیں میدان میں کود پڑیں۔ میڈیا ہاؤس پر سرکس لگ گیا۔ طرح طرح کے بھاشن دیے جانے لگے کہ یہ قتل اس لیے ہوا ہے کہ مولوی اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں، پاکستان میں عورتوں کو آزادی حاصل نہیں ہے، غیرت کی تعریف ہونے چاہیے اور مسجد مدرسہ کی تشکیل نو کرنی چاہیے۔

ان دونوں واقعات میں ایک واضح فرق یہ تھا کہ پہلا قتل انتہائی سفاکانہ تھا، لاش کا نہ صرف مثلہ کیا گیا بلکہ اس کی بے حرمتی بھی کی گئی لیکن قاتل کا نام پیٹرسن بتایاگیا۔ یہ نہ بتایا گیا کہ اس کا مذہب یہودی تھا۔ لیکن دوسرے قتل میں قاتل کے نام کے ساتھ ساتھ اس کا مذہب بھی بتایا گیا کہ وہ مسلمان تھا۔ پہلے واقعہ میں میڈیا یہ بتاتاہے کہ یہ قتل صرف جذبات کی برانگیختگی کا نتیجہ تھا لیکن دوسرے واقعہ میں بتایا گیا کہ قتل کی وجہ جذبات نہیں بلکہ اسلام ہے۔

پہلے واقعہ میں کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا کہ یہودی مذہب، کتب، تبلیغ اور عبادتگاہوں کی تشکیل نو کی جائے لیکن دوسرے واقعہ میں اسلام سے متعلق ہر چیز کو ہدف تنقید بنایا اور معاشرے کی ہر خرابی کا ذمہ دار اسے قراردیا گیا۔ وہاں کوئی تنظیم حرکت میں آئی اور نہ ہی کوئی احتجاج ہوابلکہ چراغ تلے اندھیرا ہی رہا۔ پہلے واقعہ میں سارہ کا گھر کسی ”حقوقی“ کی آمد کا اعزاز حاصل نہ کرسکا لیکن دوسرے واقعہ میں سات سمندر دور کی ”حقوقی“ تنظیمیں بھی کودپڑیں، احتجاج بھی ہوا، متاثرہ گھر تک بھی پہنچاگیا اور ”امداد“ کی پیشکش بھی کی گئی۔

یہ اس سلوک اور رویے کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جو اقوام عالم اور کچھ ”اپنوں“ نے ملک پاکستان اور مذہب اسلام کے ساتھ اپنا رکھا ہے۔ ان اپنوں کا سب سے بڑا ہتھیار ”حقوق نسواں“ کا نعرہ ہے۔ یہ سلوک ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ اس رویے میں میڈیا برابر کا ذمہ دار ہے۔ آپ کسی بھی ملک کے میڈیا چینل کو فالو کریں، ایک دن کی خبروں کا ڈیٹا اکٹھا کریں تو آپ کو وہاں قتل، چوری اور اس طرح کی دیگر کئی وارداتیں نظر آئیں گی لیکن آپ دیکھیں گے کہ ان ممالک میں جرم کا تعلق صرف مجرم کے ساتھ جوڑاجاتا ہے، ان کے نزدیک مجرم صرف مجرم ہوتا ہے وہ یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ یا بدھ مت نہیں ہوتا۔

وہاں قتل یا کسی بھی واردات کے محرکات جذبات، احساسات، حسد، معیشت، غربت، رقابت یا کوئی چپقلش وغیرہ کوبتایا جاتا ہے۔ یعنی اس میں مذہب کو انوالو نہیں کیا جاتا۔ لیکن جونہی پاکستان کا کوئی مسلمان جرم کرتا ہے تو وہ مجرم نہیں بلکہ ”مسلمان“ ہوتا ہے۔ دنیا اور ”اپنے“ قتل کی وجوہات میں باقی تمام اصل اور اصولی وجوہات کو چھوڑ کر صرف ایک وجہ بتاتے ہیں اور وہ ہے اسلام۔ کیا یہ انصاف ہے؟ اس منطق پر عقل پر تو عقل بھی ماتم کرتی ہے۔

اسی طرح یہ بات بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلمان وقت کے اعتبار سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دور دور تک ان کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ لیکن اس بات کا بھی ہمیشہ منفی رخ پیش کیا جاتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اسلام پرانا مذہب ہے، جدید دنیا کا ساتھ نہیں دے سکتا، وقت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتا اور اس تمدن یافتہ دنیا میں اسلام کے ساتھ گزارہ کرنا مشکل ہے۔ لیکن اس پروپیگنڈے میں بھی ہمیشہ کی طرح ڈنڈی مارہ جاتی ہے۔

اگر مسلمان ترقی میں پیچھے رہ گئے ہیں تو اس میں اسلام کا کیا قصور ہے؟ اس کے ذمہ دار مسلمان تو ہو سکتے ہیں لیکن اسلام کا ذمہ دار ہر گز نہیں ہے۔ اسلام کسی بھی طرح کی تعمیری اوراصلاحی کوشش اور دریافت سے منع نہیں کرتا۔ ویسے بھی یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ کسی کے ذاتی فعل کی آڑ میں اس کے مذہب کو دشنام طرازی شروع کردیں، اس کی سستی کا ذمہ دار اس کے مذہب کو بنا تے پھریں یا اس کی ناکامی کی وجہ اس کے مذہب کو قراردیں؟

مگر ضرورت اب اس امر کی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اس مکروہ کن رویے کا تدارک کیا جائے اورمیڈیا بھی اس سلسلے میں اپنی منطق کی غلطی کی اصلاح کرے کہ قتل کی وجہ غیرت نہیں بلکہ بے غیرتی ہے۔ پہلے سلمیٰ اور عابد کی بے غیرتی تھی۔ اس کے بعد شہزاد کی غیرت میدان میں آئی۔ بے غیرتیAction تھی اور غیرت Reaction تھی۔ اب کوئی بتائے کہ ایکشن پہلے ہوتا ہے یا ری ایکشن؟ جب ایکشن پہلے ہے تو کہاں کا انصاف ہے کہ قتل کا سبب غیرت کو قراردیاجائے؟ تمام ”حقوقی سیکولرز“ کو یہ یاد کرلینا چاہیے کہ قتل کی وجہ غیرت نہیں بلکہ بے غیرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).