حقانی نیٹ ورک کے ’’دہشت گردوں‘‘ سے اب مذاکرات ؟


انگریزی کا ایک محاورہ وقت بدلنے کے ساتھ اقدار بدل جانے کی حقیقت پر توجہ دلاتا ہے۔ سیاست میں نام نہاد ’’اصول‘‘ ویسے بھی مستقل نہیں ہوتے۔ اپنی سہولت کے لئے سیاست دان جو لچک دکھاتے ہیں ہم عاجزوبے بس لوگ اسے ’’یوٹرن‘‘ پکارتے ہوئے جی کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اتوار کی رات سے میرا ذہن مگر ایک حیران کن ’’یوٹرن‘‘ پر اٹکا ہوا ہے جو دورِ حاضر کے واحد سپرطاقت تصورہوتے ملک امریکہ نے ان دنوں لیا ہے۔لطیفہ یہ بھی ہے کہ اس یوٹرن پر کماحقہ توجہ نہیں دی جارہی۔

2007کے بعد سے واشنگٹن نے مسلسل الزام لگانا شروع کیا کہ پاکستان افغانستان کے حوالے سے اس کے ساتھ ’’ڈبل گیم‘‘ کھیل رہا ہے۔ ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف برپا جنگ میں امریکہ کا ’’اتحادی‘‘ ہوتے ہوئے بھی طالبان کی کسی نہ کسی انداز میں ’’سرپرستی‘‘ کررہا ہے۔’’دہشت گردوں‘‘ کو پاکستان میں ایسی ’’پناہ گاہیں‘‘ میسر ہیں جہاں سے افغانستان میں ’’دہشت گردی‘‘ کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ ان منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے رقوم اور اسلحہ جمع ہوتا ہے۔پاکستان پر شدید دبائو رہا کہ وہ مبینہ پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے۔اپنی سرزمین پرموجود ’’دہشت گردوں‘‘ کو افغانستان میں دھکیلے اور اگر وہ اپنا وجود برقرار رکھنے پر بضد رہیں تو ریاست بھرپور قوت کے استعمال سے انہیں مارڈالے۔

افغانستان میں ’’ڈبل گیم‘‘ کے الزامات کے حوالے سے جو کہانیاں مشہور ہوئیں ان میں ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کاتواتر سے ذکر ہوتا رہا۔آئی ایس آئی میں کئی برس تک کام کرنے والے میرے بھائی اسد منیر غیر ملکی صحافیوں کو نجی ملاقاتوں، اخبارات میں لکھے مضامین اور ٹویٹر پیغامات کے ذریعے مستقل سمجھاتے رہے کہ ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ نامی کوئی تنظیم اپنے تئیں موجود نہیں ہے۔ہمارے قبائلی علاقوں خاص طورپر شمالی وزیرستان میں جلال الدین حقانی کے بے شمار پیروکار ہیں۔انہیں طالبان سے الگ شمار نہ کیا جائے ۔

1980کی دہائی میں نام نہاد عالمی میڈیا میں حقانی کو ہیرو کے طورپر پیش کیا جاتا رہا۔امریکی صدر ریگن نے حقانی سمیت دیگر افغان’’مجاہدین‘‘ کی ’’آزادی‘‘ کے لئے جدوجہد کو اس جدوجہد کے برابر ٹھہرایا جو امریکہ کے ’’بانی‘‘ رہ نمائوںنے برطانیہ کی غلامی سے نجات پانے کے لئے اختیار کی تھی۔ان مجاہدین کو بڑے چائو سے وائٹ ہائوس بلایا گیا۔ان کے ساتھ بڑے مان سے تصویریں اُتاریں گئیں۔ افغان جہاد کے دوران جو بھی غیر ملکی صحافی اسلام آباد آتا اس کی پہلی ترجیح ہمیشہ کسی نہ کسی صورت جلال الدین حقانی سے رابطہ قائم کرنا ہوتی۔

افغانستان میں ’’آزادی‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کی بحالی میں مبتلا مجاہدین کے بارے میں جو گرم جوشی غیر ملکی صحافیو ں اور سفارت کاروں کے دلوں میں جاگزیں نظر آتی مجھ جیسے صحافیوں کو بہت پریشان کرتی۔1980کی دہائی میں ہمارے ہاں مارشل لاء کا جبرمسلط تھا۔اخبارات پریس میں جانے سے قبل پری سنسرشپ کے لئے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ بھیجے جاتے۔وہاں سے ’’ایہہ منظور تے ایہہ نامنظور‘‘ والے اقدامات کے بعدجو اخبار چھپتا وہ ہرگز ’’ایڈیٹر‘‘کا مرتب کردہ نہ ہوتا۔

ہمارے سیاست دانوںکو ان دنوں راولپنڈی یا اسلام آباد کے کسی ہوٹل میں ’’پریس کانفرنس‘‘ کی اجازت بھی نہیںتھی۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے بیانات اخبار میں شائع ہی نہیں ہوسکیںگے۔ ہمارے سیاستدانوں کے مقابلے میں تقریباََ ہر مہینے میں کم از کم ایک بار گل بدین حکمت یار جیسے افغان مجاہدین اسلام آباد کے پنج ستاری ہوٹلوں میں پُرہجوم پریس کانفرنسوں سے خطاب فرماتے۔ جدید اسلحہ سے لیس کارکن ان مجاہدین کے رہ نمائوں کی ’’سکیورٹی‘‘ کے فرائض سرانجام دیتے۔پریس کانفرنس کے دوران مجھ جیسے صحافی ’’اُلٹے سیدھے‘‘ سوالات کرنے کی جرأت سے ہمیشہ محروم رہے۔

بالآخرافغانستان ’’آزاد‘‘ ہوگیا۔ اس پر قابض افواج وطن لوٹیں تو سوویت یونین تحلیل ہوگیا۔فقط روس باقی رہ گیا۔ سوویت یونین کو پاکستان کی معاونت سے افغانستان میں گھیر کر شکست سے دو چارکرنے کے بعد امریکہ افغانستان اور پاکستان دونوں کو بھول گیا۔افغانستان میں اس کی وجہ سے جو افراتفری پھیلی اس نے طالبان کو نمودار ہونے کے مواقع فراہم کئے۔غیر ملکی اخبارات میں لیکن کہانی یہ پھیلائی گی کہ طالبان فقط پاکستان کے کارندے(Proxies)ہیں۔ان کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

بعدازاں نائن الیون ہوگیا۔ جنرل ضیاء کی جگہ جنرل مشرف آگئے اور ان کی متعارف کردہ ’’روشن خیالی‘‘ اور طاقت ور وخودمختار‘‘ بلدیاتی اداروں پر مبنی ’’اصل جمہوریت‘‘ ۔ نائن الیون کے بعد ’’جہاد‘‘ جہاد نہ رہا ’’دہشت گردی‘‘ شمار ہونے لگا۔ پاکستان سے تقاضہ ہوا کہ وہ ریاستی قوت کو اس کے قلع قمع کے لئے استعمال کرے۔جنرل مشرف دل وجان سے یہ فریضہ انجام دینے کو راضی ہوگئے۔امریکی صدر بش بہت فخر سے انہیں اپنا ’’جگری‘‘ (Tight Buddy)پکارنا شروع ہوگیا۔ افغانستان پر مسلط جنگ میں لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی۔اپنی ناکامی کے اسباب کا کھلے ذہن کے ساتھ جائزہ لینے کے بجائے امریکہ نے پاکستان کو ’’ڈبل گیم‘‘ کے طعنے دینا شروع کردئیے۔ ہم پرطالبان کی ’’منافقانہ‘‘ سرپرستی کا الزام لگا۔ ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کو خاص طورپر ہماری ’’منافقت‘‘ کی بدترین مثال کے طورپرپیش کیا گیا۔

بھائی اسدمنیر کی بدولت جانے حقائق کی مزید چھان بین کے بعد میں تواتر سے غیرملکی صحافیوں اور سفارت کاروں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ طالبان کا جزولاینفک ہے۔ جلال الدین حقانی نے ملاعمر کو امیر المومنین تسلیم کررکھا ہے۔’’بعیت‘‘ کے تصور کو سمجھانے میں کئی گھنٹے صرف کئے۔مجھ جیسے رپوٹروں کی ایماندارانہ گفتگو کو مگر حقارت سے سنا جاتا تھا۔چند امریکی اور یورپی سفارت کاروں نے بلکہ میری نیت کے بارے میں سوالات اٹھائے۔مجھے پاکستان کی Deep Stateکا کارندہ تصور کیا۔

مسلسل کئی برسوںتک ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کی مستقل مذمت کے بعد اب یہ عالم ہے کہ زلمے خلیل زاد نے اس نیٹ ورک کے اہم ترین رہ نما ’انس حقانی‘ کو دہشت گردی کے سنگین الزامات کے باوجود افغان حکومت سے رہائی دلوائی۔اس رہائی کے بعد طالبان سے مذاکرات کا احیاء ہوگیا ہے۔ زلمے خلیل زاد سے دوحہ میں مذاکرات کرنیوالوں میں انس حقانی نمایاں نظرآرہا ہے۔

ہم صحافیوں کو مگر یہ سوالات اٹھانے کی فرصت ہی نہیں کہ طالبان یاحقانی نیٹ ورک کے ’’دہشت گردوں‘‘ سے اب مذاکرات کیوں ہورہے ہیں۔امریکی حکومت سے یہ مذاکرات طالبان بطور ایک گروہ نہیں بلکہ ’’امارتِ اسلامی‘‘ کی حیثیت میں کررہے ہیں۔ٹھوس سفارتی تناظر میں امریکہ اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات دوخودمختار ریاستوں کے درمیان صلح کیلئے ہوئی گفتگو ہے۔

اس گفتگو پرتوجہ دیتے ہوئے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ اربوں ڈالر اور جدید ترین اسلحہ کے استعمال کے باوجود دُنیا کی واحد سپرطاقت طالبان سے بالآخر صلح کی درخواست کرنے کو مجبور ہوئی۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے فرض کریں کہ آپ پاکستان کے یا کسی بھی اسلامی ملک کے ایک عام نوجوان ہیں۔زندگی سے بیزار ہیں۔اسے تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔

تبدیلی کے خواہش مند ان نوجوانوں کو مجھ جیسے لکھاری اگر جمہوری جدوجہد والا راستہ دکھانے کی کوشش کریں گے تووہ میری بات کیوں سنیں گے۔ ان کے ’’ہیرو‘‘ تو انس حقانی جیسے افراد ہوں گے۔وہ ان کے اتباع میں ’’جہاد‘‘ کی راہ اپنا نا چاہیں گے اور میرے دلائل کو یہ حقیقت یاد دلاتے ہوئے کھوکھلا ثابت کردیں گے کہ امریکہ جیسی سپرطاقت کو بھی بالآخر ’’مجاہدین‘‘ کے روبرو سرنگوں کرنا پڑتا ہے۔ جمہوریت مغرب کا متعارف کردہ نظام حکومت ہے۔یہ اشرافیہ کو طاغوتی قوت فراہم کرتا ہے اور دورِ حاضرکے طاغوت واشنگٹن کے اشاروں کے منتظر رہتے ہیں۔ ’’جہاد‘‘ ہی لہذا نجات کا واحد راستہ ہے۔وقت کے ساتھ ’’اقدار‘‘ نہیں بدلتیں۔ حکمرانوں کے پینترے ہوتے ہیں۔ جو چاہتے ہو سو آپ کرو۔ ہم کو عبث بدنام کیا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).