انٹیگریٹی آئکن پاکستان: کیا اب صرف اپنا کام کرنے پر ایوارڈ ملے گا؟


کام

پاکستانی شہری لفظ ’کرپشن’ سے بخوبی واقف ہیں۔ ٹی وی چینلز ہوں یا دفاتر، کرپشن کا ذکر معمول کا حصہ ہے۔ لیکن کیا ہمارا معاشرہ اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ سرکاری ملازمین کو صرف اپنا کام کرنے پر انعام دیا جائے گا؟

ایک مکتبِ فکر کا خیال ہے کہ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ایماندار افسران کی روشن مثالیں دیکھ کر باقی لوگوں کو ترغیب ملے۔

حال ہی میں اکائونٹیبیلٹی لیب نامی بین الاقوامی ادارے نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اپنی طرز کے ’انٹیگریٹی آئکن پاکستان’ نامی ایوارڈز کا انعقاد کیا۔ پاکستان میں سنہ 2016 میں شروع ہونے والی اس مہم کے ذریعے سے ایماندار سرکاری ملازمین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

سرکاری ملازمین کو ان کے ماتحت ادارے یا وہ خود نامزد کر سکتے ہیں اور جانچ پڑتال کے بعد پانچ فاتحین کو ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ عمل کو شفاف بنانے کے لیے پاکستانی عوام کو بذریعہ ایس ایم ایس اپنے پسندیدہ ایماندار افسر کا انتخاب کرنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

نوکری چھوڑنے کے عجیب و غریب انداز

وہ ملازمتیں جہاں جھوٹ بولنا فائدہ مند ہو سکتا ہے!

انڈیا میں 51 فیصد لوگوں کا رشوت دینے کا اعتراف

پاکستان اور کرپشن کلچر

انٹیگریٹی آئکن پاکستان مہم کے مقصد کے بارے میں اکائونٹیبیلٹی لیب پاکستان کے ڈائریکٹر فیاض یاسین کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں کرپشن کو قبول کرنے کا کلچر آ گیا ہے اور لوگ اس کو عام سی چیز سمجھتے ہیں کہ چلتا ہے یار! یہ (مہم) ان ہیروز کو نمایاں کرنے کو کوشش ہے جو سسٹم میں موجود چیلینجز اور ترغیبات کے باوجود بہت ایماندار ہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ عموماً ایماندار لوگ دفاتر میں گمنام ہوتے ہیں تو ہم ان کو سامنے لا کر معاشرے کو امید دینا چاہتے ہیں۔

اس سال کے فاتحین صوبہ بلوچستان میں سیکرٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے فرائض سرانجام دینے والی روحانہ کاکڑ، صوبہ سندھ کے ضلع خیرپور کے ایس ایس پی عمر طفیل، صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن رضوان اکرم شیروانی، صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں ڈسٹرکٹ مونیٹرنگ افسر عمران ضیا اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع منگلہ میں واپڈا ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ زاہد علی خان خٹک ہیں۔

نیمنگ اور شیمنگ کے بجائے نیمنگ اور فیمنگ

ایماندار افسر کا اعزاز جیتنے کے بارے میں میں ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن رضوان شیروانی کہتے ہیں کہ ’پبلک سروس میں نیمنگ اور شیمنگ تو بہت ہے مگر نیمنگ اور فیمنگ کم ہی ہوتی ہے۔ پبلک سیکٹر میں ہمیں کوئی اضافی مالی مراعات نہیں ملتیں تو کم از کم توثیق تو ملنی چاہیے کیونکہ تنخواہ تو سب کو ایک ہی جیسی ملتی ہے۔’

وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کے اس ایوارڈ جیتنے کے بعد ان کے جونیئرز میں ولولہ پیدا ہوا ہے کہ مستقبل میں ان کی بھی اس قسم کی حوصلہ افزائی ہو۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی روحانہ کاکڑ بھی فاتحین میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سول سروسز میں بہت کم فورم ایسے ہیں جو ایمانداری پر آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ روحانہ کو بطور سیکرٹری کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اس ایوارڈ کی وجہ سے لوگ مجھے جاننے لگے ہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ بچے کہیں نہ کہیں متاثر ہوتے ہیں کہ اگر ہم نے پبلک سروس میں آنا ہے اور اپنا نام بنانا ہے تو ہمارے طور طریقے ایسے ہوں کہ لوگ تعریف کریں۔

صرف ڈیوٹی کرنے پر ایوارڈ دیں گے؟’

کام کی جگہ پر ایمانداری دکھانے کے لیے ایوارڈ کے بارے میں ماہرِ نفسیات حمیر ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’آپ سے ایمانداری کی توقع کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ آپ سرکاری ملازم ہیں اور عوام کے پیسے سے آپ کی تنخواہ آتی ہے۔’

اس سوال کے جواب میں کہ دفتر میں ایک شخص ایوارڈ جیتے تو باقی ساتھیوں پر اس کا کیا اثر پڑتا ہو گا، حمیر نے جواب دیا کہ ’لوگ حیران ہوتے ہوں گے کہ ڈیوٹی کرنے پر ایوارڈ مل رہا ہے۔ اگر ایک ٹیچر پڑھا رہا ہے، سرجن آپریشن کر رہا ہے یا ڈرائیور گاڑی چلا رہا ہے تو کیا ایسا کرنے پر آپ اس کو ایوارڈ دیں گے؟ یہ ان کا فرض ہے۔‘

’انعام ڈیوٹی کرنے پر نہیں بلکہ ڈیوٹی سے کچھ زیادہ کرنے پر ملنا چاہیے۔ اگر آپ کام کے علاوہ کچھ اضافی کر رہے ہیں تو آپ انعام یا ایوارڈ کے مستحق ہیں۔‘

ملازمین کو اچھی کارکردگی کے بدلے اضافی مراعات دینے کے حوالے سے حمیر کا خیال ہے کہ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ پھر آپ لوگوں کے لیے کام نہیں کر رہے بلکہ صرف مراعات حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp