لاہور کی اورنج لائن ٹرین عوام کے لیے کب چلائی جائے گی؟


اورنج لائن ٹرین

5 بوگیوں پر مشتمل ایک ٹرین میں 250 افراد کے بیٹھے کی گنجائش موجود ہے

سابق وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف کے دورِ حکومت میں اکتوبر 2015 میں شروع ہونے والا اورنج لائن ٹرین منصوبہ 4 سال بعد مکمل ہونے کو ہے۔

لاہور میں میٹرو بس کے بعد اورنج لائن ٹرین منصوبے کو لاہور شہر کے لیے ’ماس ٹرانزٹ‘ منصوبہ بھی کہا جاتا ہے۔ منگل کو پنجاب حکومت کی جانب سے اورنج لائن ٹرین کے الیکٹرک ٹرین ٹیسٹ رن کا افتتاح کیا گیا۔ یاد رہے اس سے قبل سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اورنج لائن ٹرین منصوبے کا ڈیرہ گجراں سے لکشمی چوک تک ڈیزل لوکوموٹیو کے ٹیسٹ رن کا افتتاح کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

لاہور کی اورنج لائن کے افتتاح کا اصل حقدار کون؟

اورنج لائن میٹرو: گاڑی پٹڑی پر چڑھ پائے گی؟

لاہور میں آمدورفت کے لیے کیبل کار منصوبہ زیرِ غور

اورنج ٹرین اور اس کے روٹس

پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب میں روزانہ 80 لاکھ افراد اپنے کام کاج کی غرض سے سفر کرتے ہیں۔ جبکہ لاہور شہر آبادی کے لحاظ سے صوبہ پنجاب کا سب سے بڑا شہر ہے۔ جس کی وجہ سے لاہور شہر میں ماس ٹرانزٹ پراجکیٹ متعارف کروانے کا منصوبہ بنایا گیا۔

اورنج لائن ٹرین

اس منصوبے کے تحت لاہور شہر میں 4 مختلف روٹس پر ماس ریپڈ ٹرانزٹ ٹریک بچھائے جانے تھے۔ میٹرو بس (گرین لائن) اور اورنج لائن ٹرین (اورنج لائن) ہی نہیں بلکہ مستقبل میں بلیو لائن اور پرپل لائن بنانے کا بھی منصوبہ ہے۔

اورنج ٹرین کن روٹس پر چلائی جائے گی اس بات کا فیصلہ تحقیق کے بعد کیا گیا تھا۔ اس منصوبے سے قبل چلنے والی میٹرو بس کا گزر لاہور شہر کے مختلف مقامات سے ہوتا ہے جس میں 27 سٹیشنز شامل ہیں۔ جبکہ اورنج ٹرین لائن منصوبے میں 26 سٹیشنز بنائے گئے ہیں۔

27.12 کلومیٹر کا ٹرین ٹریک لاہور ڈیرہ گجراں سے شروع ہو کر علی ٹاؤن سٹیشن پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹرین کا گزر ودھا، اسلام باغ، سلامت پورہ، محمود بوٹی، پاکستان منٹ، شالیمار گارڈنز، باغبان پورہ، یو ای ٹی، لاہور ریلوے سٹیشن، لکشمی چوک، جی پی او، انارکلی، چوبرجی، گلشن راوی، سمن آباد، بند روڈ، صلاح الدین روڈ، شاہ نور، سبزہ زار، اعوان ٹاؤن، واحدت روڈ، ہنجروال، کینال، ٹھوکر نیاز بیگ اور علی ٹاؤن سے ہو گا۔

تقریباً 25 کلومیٹر کا ٹریک زمین کے اوپر اور لکشمی سے چوبرجی تک کا 1.72 کلومیٹر کا ٹرین ٹریک زیر زمین تعمیر کیا گیا ہے۔ اس ٹریک پر چلانے کے لیے 27 ٹرینیں چین سے خریدی گئی ہیں۔ جبکہ ایک ٹرین کے پیچھے 5 بوگیاں لگائی جائیں گی۔

اورنج ٹرین سے کتنے لوگ مستفید ہوں گے

5 بوگیوں پر مشتمل ایک ٹرین میں 250 افراد کے بیٹھے کی گنجائش موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اورنج ٹرین میں روزانہ تقریباً ڈھائی لاکھ افراد سفر کریں گے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ حسان کے مطابق آنے والے برسوں میں اس منصوبے سے مستفید ہونے والے مسافروں کی تعداد میں دگنا اضافہ ہو جائے گا۔

ٹی وی سکرینز

اورنج ٹرین میں مسافروں کی رہنمائی کے لیے ٹرین کے اندر ٹی وی سکرینز نصب کی گئی ہیں

اورنج ٹرین میں مسافروں کی رہنمائی کے لیے ٹرین کے اندر سکرینز نصب کی گئی ہیں جس سے انھیں سٹیشنز سے متعلق معلومات مل سکیں گی۔ مسافر ڈیرہ گجراں سے 45 منٹ میں علی ٹاؤن تک پہنچ سکیں گے۔ اس کے علاوہ سٹیشنز پر ٹکٹ خریدنے کے لیے خودکار مشینیں بھی نصب کی گئی ہیں۔

پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے مطابق اس سے قبل لاہور شہر میں میٹرو بس پر روزانہ سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد تقریباً 1 لاکھ 79 ہزار کے قریب ہے۔

اورنج ٹرین عوام کے لیے کب چلائی جائے گی؟

اس منصوبے کو شروع کرنے سے پہلے سابق حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اورنج لائن ٹرین منصوے کو 27 ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔ جبکہ بیشتر اعتراضات کی وجہ سے یہ منصوبہ 22 ماہ کی تاخیر کا شکار رہا۔

اس منصوبے کو مکمل کر کے عوام کے لیے کھولنے کے لیے پاکستان سپریم کورٹ نے حکومت پنجاب کو یہ احکامات جاری کیے تھے کہ جنوری 2020 تک اس ٹرین کو چلایا جائے۔ جبکہ منگل کو پنجاب حکومت کی طرف سے اس کے ٹیسٹ رن کا افتتاح کیا گیا۔ انٹرنیشنل سٹینڈرڈز کے مطابق اورنج لائن ٹرین کا ٹیسٹ رن تین ماہ تک جاری رہے گا جس کے بعد اس منصوبے کے ڈیزائن پیرامیٹرز، آپریشن اور سکیورٹی چیک کا جائزہ لینے کے بعد اس منصوبے کو بین الاقوامی معیار پر اترنے کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا جائے گا۔ اس کو باقاعدہ طور پر اگلے سال فروری یا مارچ میں عوام کے لیے کھولا جائے گا۔

اورنج لائن ٹرین

یاد رہے اس سے قبل سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اورنج لائن ٹرین منصوبے کا ڈیرہ گجراں سے لکشمی چوک تک ڈیزل لوکوموٹیو کے ٹیسٹ رن کا افتتاح کر چکے ہیں

اس حوالے سے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر ٹرانسپورٹ پنجاب جہانزیب کھچی کا کہنا تھا کہ ’ابھی اس ٹرین کا ٹیسٹ کیا جا رہا ہے، اس کے بعد اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ یہ ٹرین پبلک سیفٹی کے معیار پر پوری اترتی ہے یا نہیں اور پھر ہم اسے بغیر کسی تاخیر کیے عوام کے لیے کھول دیں گے۔‘

اورنج ٹرین منصوبے کی مالیت

اورنج ٹرین منصوبے کے سول سٹرکچر پر کام کا آغاز 2015 میں کیا گیا جسے اب ایل ڈی اے نے مئی 2019 میں مکمل کیا۔ پہلے فیز میں اس منصوبے کو ڈیرہ گجراں سے چوبرجی تک مکمل کیا گیا جسے جبیب کنسٹرکشن کمپنی نے مکمل کیا۔ جبکہ دوسرے فیز میں اس پراجکیٹ کا کنٹریکٹ زیڈ کے بی کمپنی کو سونپ دیا گیا جس نے اسے چوبرجی سے علی ٹاؤن تک مکمل کیا۔

اس منصوبے کا سول کام مکمل ہونے کے بعد اس منصوبے کے سول سٹرکچر پر آنے والے خرچے کا تعین کیا گیا جس کی لاگت 48 ارب روپے بتائی گئی۔ مئی 2019 میں اس منصوبے کا سول کام مکمل ہونے کے بعد مکینکل اور الیکٹریکل کام کو مکمل کرنے کے لیے اسے ایک چینی کمپنی کے حوالے کر دیا گیا۔ اس دوران آنے والے خرچے کی لاگت کا اندازہ ابھی لگایا جائے گا۔

اورنج لائن ٹرین

اورنج لائن ٹرین کو مسافروں کے لیے استعمال کے لیے مارچ تک شروع کیا جا سکتا ہے

اورنج ٹرین پر تنقید

27 ماہ میں مکمل کیے جانے والا منصوبہ 22 ماہ کی تاخیر کے بعد مکمل کیا گیا۔ اس منصوبے کی تاخیر جن وجوہات کا شکار رہی اس میں ماحولیاتی مسئلہ، شفافیت اور ہیریٹیج عمارتوں کو نقصان جیسے مسائل شامل تھے۔

اگست 2016 میں لاہور ہائی کورٹ نے لاہور کے 11 تاریخی مقامات کے 200 فٹ کے اندر ہونے والے تعمیراتی کام کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم تاریخی عمارتوں کو نقصان سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنانے کے بعد اس منصوبے پر کام جاری کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

اگست 2018 میں چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے احکامات جاری کیے کہ اورنج لائن منصوبے میں ہونے والی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کی جائیں۔ نیب حکام کے مطابق اس منصوبے میں شفافیت سے کام نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے اس منصوبے میں مبینہ طور پر تقریباً 4 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما رانا مشہود کا کہنا تھا کہ ’یہ پراجکیٹ مسلم لیگ ن کا ہے، آج اس منصوبے کا دعوے دار بننے والی پی ٹی آئی کی حکومت اس منصوبے کو روکنے کے لیے عدالتوں اور ورلڈ ہیریٹیج کونسل میں گئی تھی۔ اس پراجیکٹ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہم نے ایک لمبی قانونی جنگ لڑی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp