#PakvsSL: کرکٹ میچ سٹیدیم میں، مگر شور سڑکوں پر


کہنے کو تو ملک میں خوشی کا سماں ہے کیونکہ پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ ایک دہائی کے بعد لوٹ رہی ہے۔ لیکن راولپنڈی سٹیڈیم کے گرد و نواح میں رہنے والے اور مری روڈ جیسی مرکزی شاہراہ استعمال کرنے والے ناخوش ہیں۔

منگل کو پاکستان اور سری لنکا کی ٹیموں کے درمیان پریکٹس میچ ہوا جبکہ بدھ سے ٹیسٹ میچ کا باقاعدہ آغاز ہو رہا ہے۔

عوام کی آسانی کے لیے سٹی ٹریفک پولیس راولپنڈی اور اسلام آباد ٹریفک پولیس نے ایک ٹریفک ڈائیورژن پلان تشکیل دیا ہے جس پر جڑواں شہروں کی عوام نے شدید ردِعمل دکھایا۔

پلان کے بارے میں راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر سیف اللہ ڈوگر کہتے ہیں کہ جب ایک غیر ملکی ٹیم ریاست کی مہمان قرار دے دی جائے تو اضافی سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے اور سکیورٹی اقدامات بڑھانے سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’پنڈی بوائز‘ کا گراؤنڈ جس کے کلائیو لائیڈ بھی مداح تھے

فواد عالم:’کرکٹ چھوڑ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘

‘اگر اظہر علی مجروح وقار بحال نہ کر پائے؟’

راولپنڈی ٹریفک ڈائیورژن پلان

دس سے 15 دسمبر 2019 تک پاکستان بمقابلہ سری لنکا میچ کے دوران ذیل ڈائیورژن پلان ترتیب دیا گیا ہے جس کا نفاذ صبح چھ سے شام چھ بجے تک ہو گا۔

  • سٹیڈیم روڈ کو نائنتھ ایونیو چوک سے ڈبل روڈ ٹرن مری روڈ تک صبح سے لے کر میچ کے اختتام تک تمام ٹریفک کے لیے بند رکھا جائے گا۔
  • راول ڈیم کی طرف سے راولپنڈی آنے والی ٹریفک کو ایکسپریس وے سلپ ٹرن نزد فیض آباد سے ایکسپریس وے پر ڈائیورٹ کیا جائے گا۔
  • راولپنڈی سے اسلام آباد جانے والی ٹریفک کو کڈنی سنٹر کے سامنے بنائے گئے یوٹرن سے مخالف سمت روڈ کے ذریعے اسلام آباد بھیجا جائے گا۔
  • آئی جے پی اور نائنتھ ایونیو چوک سے راولپنڈی آنے والی ٹریفک ڈبل روڈ کے بجائے پنڈورہ چونگی کٹاریاں، کیرج فیکٹری، پیرودھائی سے راولپنڈی میں داخل ہو گی۔
  • غوثیہ چوک سے شمس آباد ٹرن مری روڈ بند ہو گی اور ٹریفک فاروق اعظم روڈ سے کری روڈ پر جائے گی۔
  • ایکسپریس وے فیض آباد لوپ جانب راولپنڈی بند ہو گی اور اسلام آباد سے راولپنڈی آنے والی ٹریفک کو ایکسپریس لوپ سے روات بھیجا جائے گا۔
  • فیض آباد سے روات جانے والا سلپ ٹرن بند ہو گا لہذا راولپنڈی آنے والی ٹریفک آئی جے پی روڈ کا استعمال کرے۔

علاقہ مکین اور مسافرین مشکلات سے دوچار

سٹیڈیم کے ساتھ واقع نواز شریف پارک کے سامنے رہائش پذیر ہارون بلوچ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں اور ان کا دفتر اسلام آباد کے علاقے ای-11 میں واقع ہے۔ راستے بند ہونے کی وجہ سے 30 منٹ کے سفر کا دورانیہ گھنٹے سے زیادہ ہو گیا ہے۔

انھوں نے سوال اٹھایا کہ ‘کیا ہمارے ادارے اتنے نااہل ہیں کہ عوام کو پریشان کیے بغیر فول پروف سکیورٹی بھی مہیا نہیں کر سکتے؟ یہاں ایمبولنس نہیں آ سکتی، اس علاقے میں کسی کو ایمرجنسی پیش آ جائے تو وہ کیسے نکلے گا؟ سکیورٹی کی وجہ سے آپ لوگوں کی جانیں لیں گے؟’

علی شاہد راولپنڈی سٹیڈیم کے سامنے رہائشی علاقے میں رہتے ہیں اور ان کی کریانے کی دکان ویسے تو پانچ منٹ کی مسافت پر ہے مگر آج کل انھیں دکان پہنچنے میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔

علی کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوتیں۔ وہ میچ کے اوقات میں دکان کھول ہی نہیں سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ویسے تو دکان صبح نو سے رات ایک بجے تک کھلی رہتی تھی مگر اب شام چھ بجے دکان کھولتے ہیں اور 12 بجے بند کر دیتے ہیں۔’

بزنس کو ہونے والے نقصان کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ‘کاروبار بالکل بھی نہیں ہے۔ روزانہ 25 ہزار تک کا نقصان ہو رہا ہے۔’

خاص مہمانوں کے لیے خاص سکیورٹی

اس سوال کے جواب میں کہ کیا سڑکیں بند کرنے کے علاوہ کوئی متبادل تھا، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی سیف اللہ ڈوگر کا کہنا تھا کہ یا ہم راستے کھول کر سکیورٹی پر سمجھوتہ کرتے اور ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی پر رسک لیتے اور دوسری آپشن یہی تھی کہ ہم کوئی رسک نہ لیں اور لوگوں کو ذرا مصیبت کا سامنا کرنا پڑے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بطور قوم ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ملک میں کرکٹ کی تجدید کی اس قیمت کے لیے ہم تیار ہیں؟‘

سوشل میڈیا پر ردِعمل

جہاں ٹوئٹر پر صارفین بین الاقوامی کرکٹ کے راولپنڈی لوٹنے پر خوش نظر آئے، وہیں کچھ لوگوں نے ٹریفک جام کا گلہ شکوہ بھی کیا۔ ٹوئٹر صارف فاخر رضوی کہتے ہیں کہ ‘راولپنڈی سٹیڈیم میں کرکٹ میچ کی وجہ سے جو ٹریفک جام ہے اور کرفیو کا منظر ہے. دل سے دعا ہے رولپنڈی میں کبھی میچ نہ ہو۔’

https://twitter.com/FaakhirRizvi/status/1204285285187674113?s=20

حکام کی طرف سے صبح نو سے ساڑھے دس بجے تک اور میچ کے اوقات میں شام چار سے چھ بجے تک میٹرو بس بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

تجویز الرحمان نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا ‘اب راولپنڈی، اسلام آباد میں پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل پہلے سے زیادہ نمایاں ہوں گے۔ تقریباً دس لاکھ سفر کرنے والوں کے لیے ایک روٹ پر میٹرو بس سروس چلانا کوئی حل نہیں ہے۔’

https://twitter.com/tajveezRehman/status/1204036952762118145?s=20

سٹیڈیم کے اطراف کے حالات کے بارے میں صحافی ارسلان الطاف نے ٹویٹ کیا ‘کھلاڑیوں اور جگہ کے لیے ہمارا سکیورٹی فراہم کرنے کا طریقہ: سڑکیں بند، کاروبار بند اور گن اٹھا کر کھڑے افراد۔ لگتا ہے سٹیڈیم نہیں میدانِ جنگ ہے۔ ہم غیرملکی ٹیموں اور سیاحوں کو بلانا چاہتے ہیں یا ڈرانا چاہتے ہیں؟’

https://twitter.com/Arsalanet/status/1204149782299774977?s=20

کوئی موقع ہو اور پاکستانی اپنی حسِ مزاح کا استعمال نہ کریں، ایسا ہو نہیں سکتا۔ صارف احمد شاہ نے ٹویٹ کیا کہ ’12 سال کے وقفے کے بعد کچھ اصل انٹرٹینمنٹ آ رہی ہے ورنہ جڑواں شہروں نے صرف دھرنے ہی دیکھے ہیں۔’

https://twitter.com/TheAhmedShah1/status/1204299600338788352?s=20


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp