بھٹو، مجیب، اور اندرا کی سیاست۔ دوسرا حصہ


قارئین کے لیے یہ بات یقیناً دلچسپی کا باعث ہوگی کہ جب مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کو بنگلا دیشی افواج کے کچھ جونیئر فوجی افسروں نے قتل کیا تو بنگلا دیش کے فوجی سربراہ میجر جنرل شفیع اللہ تھے جن کو نئے صدر مشتاق خوندکر نے برطرف کرکے ضیاءالرحمان کو نیا فوجی سربراہ مقرر کردیا۔

شفیع اللہ کو بعد میں کئی سفارتی ذمہ داریاں سونپی گئیں اور وہ 2019 میں پچاسی سال کے تھے۔ صدر مشتاق خوندکر صرف تین ماہ اقتدار میں رہ سکے کیونکہ نومبر 1975 میں ایک اور فوجی بغاوت کرنے والے فوجی افسر خالد مشرف نے چیف جسٹس ابوصائم کو ملک کا نیا صدر بنادیا اور خود کو فوج کانیا سربراہ مقرر کرلیا مگر صرف تین دن بعد ان کی یہ کوشش ناکام ہوگئی اور فوج کے سربراہ جنرل ضیاءالرحمان کے حامی فوجیوں نے جنرل خالدمشرف کو قتل کرکے ضیاءالرحمان کو بحال کردیا۔ یہ واقعہ 7 نومبر 1975 ءکو پیش آیا۔

اس کے بعد جنرل ضیاءالرحمان نے جسٹس ابو صائم کو صدر کے عہدے پر برقرار رکھا اور اس سارے عمل کا فائدہ جنرل ضیاءکو ہی ہوا۔ تین ماہ صدر رہنے والے مشتاق خوندکر 1978 ءتک جیل میں رہے اور اپنی رہائی کے بعد مزید اٹھارہ سال زندہ رہ کر 1996 ءمیں اٹھہتر سال کی عمر میں فوت ہوئے۔

اگر اس دوران بنگلا دیش اور پاکستان کی عدلیہ کے کرداروں کا موازنہ کریں تو کچھ دلچسپ نکات سامنے آتے ہیں۔

ایک تو یہ کہ بنگلا دیش میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ایک جج ابو صائم نے نومبر 1975 میں صدر کا عہدہ قبول کیا وہ بھی جو انہیں ایک باغی فوجی جنرل نے عطا کیا تھا۔ پھر جب یہ فوجی بغاوت ناکام ہوگئی تو جنرل ضیاءالرحمان نے ابو صائم کو نہ صرف صدر برقرار رکھا بل کہ چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بھی بنا دیا۔

جب کہ پاکستان میں ہم نے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کے روپ میں دیکھا تھا جنہوں نے دسمبر 1971 ءمیں صدر اور چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر دونوں عہدے قبول کیے تھے۔ گوکہ پاکستان میں عدلیہ نے کئی فوجی بغاوتوں کو کام یاب انقلاب قرار دے کرجائز ہونے کی سند عطا کی پھر بھی اب تک کوئی عہدے پر موجود چیف جسٹس صدر یا چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر نہیں بنا ہے۔

بنگلا دیش میں ایک سال تک یعنی نومبر 1976 تک ابو صائم صدر اور مارشل لاءکے سربراہ رہے جبکہ فوج کے سربراہ جنرل ضیاءالرحمان مارشل کے نائب سربراہ یا ڈپٹی چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر رہے اور اس دوران اقتدار جنرل ضیاءکے ہاتھ میں ہی رہا۔

نومبر 1976 ءمیں ابو صائم نے استعفیٰ دے دیا یا ان سے استعفیٰ لے لیا گیا اور وہ مارشل لاءکے سربراہ نہیں رہے، چھ ماہ بعد اپریل 1977 ءمیں جنرل ضیاءالرحمان نے صدارت کا عہدہ بھی سنبھال لیا اور اس طرح تین ٹوپیاں پہن لیں یعنی صدر، فوج کے سربراہ اور مارشل لاءکے سربراہ بھی۔ یہی وہ نمونہ یا ماڈل تھا جس کی تقلید چند ماہ بعد پاکستان میں جنرل ضیاءکرنے والے تھے۔ بنگلا دیش میں ابو صائم مزید بیس سال زندہ رہے اور اکیاسی برس کی عمر میں 1997 ءمیں فوت ہوئے۔ جنرل ضیاءالرحمان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مجیب کی پالیسی برقرار رکھی اور سیاسی جماعتوں پر نافذ پابندیاں ختم نہیں کیں۔ ان کی اصل طاقت سول اور فوجی افسر شاہی تھی جیسا کہ اکثر آمروں کی ہوتی ہے۔

گوکہ جنرل ضیاءالرحمان نے 1978 ءمیں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا مگر اس پر عمل نہیں کیا جیسا کہ پاکستان میں جنرل ضیاءالحق نے بھی نہیں کیا تھا۔ بنگلا دیش میں جنرل ضیاءالرحمان نے ہاں یا نہیں پر مبنی ایک ریفرنڈم کرایا اور 1978 ءمیں خود کو بنگلا دیش کا صدر منتخب کرالیا۔

اس دوران اگر پاکستان کی طرف دیکھیں تو بڑی حزب مخالف کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی جو نیپ کہلاتی تھی اس پر ذوالفقار علی بھٹو نے پابندی لگادی تھی۔ راقم پاس کے پاکستان سپریم کورٹ کا وہ اصل فیصلہ موجود ہے جس میں نیپ پر پابندی اور تحلیل کے بارے میں حکم جاری کیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ تیس اکتوبر 1975 کو راول پنڈی سے شائع ہوا۔ اس چھ رکنی بینچ میں چیف جسٹس حمود الرحمان کے ساتھ جسٹس یعقوب علی (جو بعد میں چیف جسٹس بنے ) جسٹس انوارلحق (جنہوں نے بعد میں بھٹو کو پھانسی تک پہنچایا) اور جسٹس افضل چیمہ شامل تھے جو سابق وفاقی سیکرٹری قانون تھے اور جو بعد میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ بن کر جنرل ضیاءالحق کے اسلامی قوانین کو عملی جامہ پہناتے رہے۔ حکومت کی طرف سے وکلاءکی قیادت اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے کی۔ یحییٰ بختیار 1973 ءکا آئین بنانے والی ٹیم میں شامل رہ چکے تھے۔ نیپ کے رہنماؤں کی نمائندگی محمود علی قصوری نے کی جو نیپ کے بانیوں میں سے تھے اور جن کے صاحبزادے خورشید محمود قصوری 2002 سے 2007 تک جنرل مشرف کے وزیر خارجہ رہے۔

نیپ کے وکیلوں میں محمود علی قصوری کے ساتھ عزیز اللہ شیخ اور دیگر بھی شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیپ کے خلاف اس مقدمے میں عدالت عالیہ نے شریف الدین پیرزادہ کو مشیر عدالت مقرر کیا گیا۔ شریف الدین پیرزادہ جنرل ایوب خان کے دور میں اس وقت وزیر خارجہ بنے تھے جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1966 ءمیں استعفیٰ دے دیا تھا۔ پھر جنرل یحییٰ خان کی آمریت میں بھی شریف الدین پیرزادہ اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز رہے تھے۔

چیف جسٹس حمود الرحمان کو جنرل ایوب خان نے نومبر 1968 میں عدالت عالیہ کا سربراہ مقرر کیا تھا اور وہ جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں بھی چیف جسٹس رہے تھے۔ ان ہی کے دور میں مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی گئی جو 1971 ءکے آخر تک جاری رہی۔ مگر جسٹس حمود الرحمان نے اس وقت اس ظلم وبربریت کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔ حتیٰ کہ جب جنرل یحییٰ نے انتخابی نتائج تک منسوخ کردیے اس وقت بھی جسٹس حمود الرحمان خاموش رہے۔ لیکن جب بالآخر جنرل یحییٰ کو اقتدار چھوڑنا پڑا تو جسٹس حمود الرحمان نے مشہور عاصمہ جیلانی کیس میں جنرل یحییٰ کے اقتدار پر قبضے کو غیر قانونی قرار دے کر اپنی عزت بحال کرنے کی کوشش کی۔

اور پھر مشرقی پاکستان کے سانحے پر حمود الرحمان کمیشن رپورٹ بھی اچھی لکھی۔ لیکن 1975 ءمیں چیف جسٹس حمود الرحمان نے نیپ کے خلاف مقدمے میں اخباری خبروں اور جاسوس افسروں کے بیانات کو بھی قابل قبول قرار دے کر ایک غلط مثال قائم کی۔

حمود الرحمان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ پاکستان صرف ایک قوم پر مبنی ہے اس میں کوئی قومیتیں نہیں ہیں۔ عدالت کے اس بیان سے مرکز پسندی کی بو آتی ہے اور ریاست کے لیے انصاف اور سیاست کا تیاپانچہ کیا گیا۔ تمام ججوں نے مشترکہ فیصلہ دیا کہ نیپ یقیناً ایک ملک دشمن جماعت تھی۔

نہ صرف یہ بل کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اسی دوران آئین میں چوتھی ترمیم کرائی جس سے ہائی کورٹ کے اختیارات کم کیے گئے اور آئین کی شق 199 کے تحت حراست میں رکھنے کا دائرہ بڑھا دیا گیا۔ اب عدالتوں کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ کسی شخص کو حفاظتی ضمانت دے سکیں یا کسی حراست کو روک سکیں۔

ایک صدارتی حکم جاری کیا گیا جس کے تحت نیپ کے عہدے داروں کو تمام قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت سے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ایک اور حکم کے ذریعے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں تاکہ ”ملک دشمن“ سرگرمیوں کے خلاف مقدمات چلائے جاسکیں۔

ان تبدیلیوں کے بعد کوئی بھی ہائی کورٹ اس قابل نہیں رہا تھا کہ وہ متاثرہ سیاسی کارکنوں کی مدد کرسکے یا مظالم کے شکار لوگوں کو حراست کے دوران ضمانت پر رہا کرسکے۔ جسٹس حمود الرحمان اکتوبر 1975 میں ریٹائر ہوگئے کیوں کہ وہ 65 سال کے ہوچکے تھے۔ اب جسٹس یعقوب علی نئے چیف جسٹس بن گئے جن کی عمر 63 سال تھی۔

مارچ 1976 میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل ٹکا خان سبک دوش ہوئے اور ذوالفقار علی بھٹو نے سب سے جونیئر لیفٹیننٹ جنرل ضیا الحق کو نیا فوجی سربراہ بنادیا۔ کہا جاتا ہے کہ ٹکا خان نے وزیر اعظم بھٹو کو مشورہ دیا تھا کہ سات سینئر جنرلوں پر ضیاءالحق کو ترقی نہ دی جائے۔ خاص طور پر جنرل محمد شریف سب سے سینئر تھے مگر جنرل ضیاءکی طرح بھٹو کی چاپلوسی نہیں کرتے تھے۔ انہیں بھٹو نے فوج کا سربراہ تو نہ بنایا البتہ انہیں جوائنٹ چیفس آف کمیٹی کا سربراہ ضرور بنادیا جو کسی کمانڈ کی حامل نہیں تھی اور ایک رسمی سا عہدہ تھا۔

اس عہدے پر رہتے ہوئے جنرل شریف اگر چاہتے بھی تو جنرل ضیاءالحق سے دشمنی مول نہیں لے سکتے تھے اور نہ ہی آنے والی بغاوت کو روک سکتے تھے۔

ستمبر 1976 میں پانچویں آئینی ترمیم لائی گئی جس کے ذریعے سولہ شقوں میں تبدیلی کی گئی اور فرسٹ شیڈول کو بھی بدل دیا گیا۔ اس ترمیم کے ذریعے ہائی کورٹ کے اختیارات دفعہ 199 کے تحت مزید کم کردیے گئے۔ اب پہلی مرتبہ خود جج اس ترمیم سے متاثر ہوئے تھے۔ اب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی مدت ملازمت صرف عمر نہیں بلکہ مقرر کردہ دورانیے سے بھی گنی جاسکتی تھی۔ اب حکومت کو یہ اختیار بھی تھا کہ وہ کسی جج کو اس کی مرضی کے بغیر ایک ہائی کورٹ سے دوسرے میں بھیج سکتی تھی۔

پھردسمبر 1976 میں پاکستانی آئین میں چھٹی ترمیم منظور کی گئی جو کہ عام انتخابات سے پہلے اسمبلی کا آخری سیشن ثابت ہوا۔ اس ترمیم کے بعد چیف جسٹس یعقوب علی کو 65 سال کی عمر ہونے کے بعد بھی اپنے عہدے پر قائم کرنے کی اجازت مل گئی کیونکہ انہیں چیف جسٹس بننے کے بعد بھٹو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔

کچھ عرصہ پہلے ہی بھٹو نے کچھ ججوں کو اس لیے عہدے سے ہٹادیا تھا کہ وہ چارسالہ مدت مکمل کرچکے تھے جبکہ ابھی کم عمر تھے۔ حتیٰ کہ جو جج صرف 55 سال کے تھے اور جو چار سالہ مدت پوری کرچکے تھے انہیں بھی ہٹا دیا گیا۔ اور اب بھٹو خود جسٹس یعقوب کو 65 سال کے بعد بھی عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ بالآخر جنوری 1977 میں بھٹو نے عام انتخابات کا اعلان کردیا جو مارچ 1977 میں ہوئے۔

اب ہم ایک نظر بھارت پر ڈالتے ہیں جہاں اندرا گاندھی نے جون 1975 میں ہنگامی حالت نافذ کردی تھی جس کے بعد صرف دو سال میں انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2