اب میں گندی لڑکی ہوگئی تھی


دیویا آریا

بی بی سی نیوز

انڈیا میں ہر سال لاکھوں خواتین کبھی کام کے جھوٹے وعدوں اور کبھی اپنے ہی شوہر کے جھانسے کا شکار ہو کر جسم فروشی کے کاروبار میں پھنس جاتی ہیں۔ ایک بار جسم فروشی کے کاروبار میں پھنس جانے کے بعد اگر وہ باہر نکل بھی آئیں تو ان خواتین کے لیے عزت کی زندگی گزارنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔

انڈیا کے شہر کولکتہ میں ایک سماجی تنظیم ایسی خواتین کو اپنا گھر بسانے کے لیے پیسے دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی زندگی کس حد تک بدلی ہے؟

انسانی سمگلنگ اور جسم فروشی سے بچ کر نکلنے والی ایک خاتون کی کہانی، انھی کی زبانی۔

’میں جسم فروشی کا کام کرنا نہیں چاہتی تھی، اس لیے میرا شوہر مجھے کبھی لکڑی، چھڑی یا بیلٹ سے مارتا تھا۔ میرے پاؤں اور کمر پر ابھی تک تشدد کے نشان ہیں۔ اس تشدد کی وجہ سے میں بیمار بھی ہو گئی تھی یہاں تک کہ مجھے ہسپتال جانا پڑا۔‘

آخر کار ایک رات میں اپنے شوہر کے گھر سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئی۔

’جب میں اپنے گاؤں پہنچی تو لوگوں نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دی۔ ان کی نظر میں اب میں گندی لڑکی ہو گئی تھی۔ میں بہت روتی اور سوچتی تھی کہ میں مر جاؤں۔ میرا دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔‘

’انسانی سمگلنگ سے پہلے میں سکول میں پڑھائی کے ساتھ سٹار اندو نام کے چینل میں تھوڑا بہت کام کر رہی تھی لیکن وہ سب ختم ہو گیا۔ 16 سال کی عمر میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب میں اپنی زندگی میں کچھ بن سکتی تھی، تب یہ سب کچھ میرے ساتھ ہو گیا۔‘

اب کیا خواب دیکھتی؟ کیا نوکری کرتی؟

پھر ایک سماجی تنظیم نے مجھے دکان لگانے کی ٹریننگ اور پیسہ دیا۔ دکان کے ذریعے سے ہی گاؤں والوں سے بھی بات چیت شروع ہوئی۔ جب وہ میری دکان پر کچھ لینے آتے تو انھیں مجھ سے بات کرنی پڑتی تھی اور اس طرح میں پیسے بھی کمانے لگی۔

اسی عرصے کے دوران میرے سکول کے ایک لڑکے کو میں پسند آ گئی اور وہ مجھ سے محبت کرنے لگا۔

’جب میں نہ مانتی تو وہ اپنا ہاتھ جلا لیتا، رگ کاٹ لیتا لیکن میں نے اسے کہا کہ میں جھوٹ کے سہارے یہ رشتہ نہیں بناؤں گی۔ جب میرے بارے میں سب کچھ جان کر مجھے پسند کرو گے تب میں تم سے محبت کروں گی۔‘

اس کے بعد ہم نے شادی کر لی لیکن گھر والوں کو آج تک ہم نے یہ سچ نہیں بتایا۔

’اب میری ڈیڑھ سال کی بیٹی ہے، میرے شوہر اور میرا یہی خواب ہے کہ ہم اپنی بیٹی کو پڑھائیں اور اسے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل بنائیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp