شہریت کا قانون: انڈین وزیر داخلہ امت شاہ کی مہاجر یا درانداز کی تشریح کتنی درست ہے؟


امت شاہ

امت شاہ کا کہنا ہے کہ وہ غیر مسلمانوں کو ہی پناہ دیں گے

انڈیا میں شہریت (ترمیمی) بل، 2019 کو نو دسمبر کو لوک سبھا میں منظور کیا گیا۔ اس بل پر بحث کے دوران، 48 اراکین نے اس بل کے حق اور مخالفت میں تقاریر کیں، جس کے بعد رات تقریباً دس بجے وزیر داخلہ امت شاہ نے تمام سوالات کے جواب دینا شروع کر دیے۔ انھوں نے ایک گھنٹہ سے زائد تقریر کی۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ ’آج جہنم کی زندگی بسر کرنے والے لاکھوں مہاجرین کی پریشانیوں کے خاتمے کا دن ہے۔‘

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی سنہ 2016 کی رپورٹ کے مطابق انڈیا میں دو لاکھ سے زیادہ مہاجرین ہیں۔

ان میں تبت، سری لنکا، افغانستان، میانمار، پاکستان اور صومالیہ سے آئے مہاجرین شامل ہیں۔ سنہ 2015 میں 39 شامی مہاجرین بھی انڈیا آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

مختلف ممالک اپنا پاسپورٹ کیوں فروخت کر رہے ہیں؟

انڈیا میں مسلمان این آرسی سے خوفزدہ کیوں ہیں؟

’24 گھنٹے میں مزید 35 ہزار روہنگیاؤں کی بنگلہ دیش آمد‘

فوٹو

امت شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں اقلیتوں کو انصاف نہیں ملتا

افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش مسلم ممالک ہیں

تاہم، نیا شہریت بل صرف پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتی برادریوں کو انڈیا میں شہریت دینے کے بارے میں بات کرتا ہے۔ ان اقلیتوں میں ہندو، سکھ، مسیحی، بدھ مت، جین اور پارسی شامل ہیں۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے لوک سبھا میں کہا کہ ’افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے آئین میں ریاست کے مذہب کو اسلام سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہاں اقلیتوں کو انصاف ملنے کی امید کم ہو جاتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ سنہ 1971 میں آئین میں بنگلہ دیش ایک سیکولر قوم سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے بعد 1977 میں ریاست کے مذہب کو اسلام میں تبدیل کر دیا گیا۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھاردواج کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تینوں مسلمان قومیں ہیں لیکن بنگلہ دیش مسلمان ہونے کے باوجود خود کو سیکولر مانتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان تینوں ممالک میں سب سے نرم اسلامی ملک‘ بنگلہ دیش ہے ، لیکن اس ملک کے آئین میں 1977 میں لفظ سیکولر کو ختم کر کے اسلام کو شامل کیا گیا تھا۔

سنہ 2011 میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ 1971 کے آئین کی روح کو محفوظ رکھا جانا چاہئے جس کے بعد سیکولرازم کو دوبارہ اس میں شامل کیا گیا، لیکن وہ خود کو ایک اسلامی ملک سمجھتے تھے۔

انڈین وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ 1950 میں دہلی میں نہرو لیاقت معاہدہ ہوا تھا اور اس معاہدے کے تحت فیصلہ کیا گیا تھا کہ انڈیا اور پاکستان اپنی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔ پاکستان نے انڈیا کو یقین دلایا تھا کہ وہ ہندوؤں، سکھوں، بودھوں، جینوں، مسیحی اور زرتشتیوں کا خیال رکھے گا۔

اس کے بعد انھوں نے کہا کہ سنہ 1947 میں پاکستان میں اقلیتوں کی تعداد 23 فیصد تھی اور 2011 میں یہ کم ہو کر تین اعشاریہ سات فیصد رہ گئی تھی۔

امت شاہ نے کہا کہ سنہ 1947 میں بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی تعداد 22 فیصد تھی اور 2011 میں یہ کم ہو کر 7.8 فیصد ہو گئی جبکہ بنگلہ دیش 1971 میں تشکیل پایا تھا اور یہ 1947 اور 1971 کے درمیان مشرقی پاکستان تھا۔

پروفیسر سنجے بھاردواج کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے شاید یہ اعداد وشمار جلد بازی میں یا مجموعی طور پر پیش کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 1947 سے 1971 کے پورے دور کے دوران مشرقی پاکستان میں صرف 15 فیصد اقلیتی آبادی تھی، بنگلہ دیش بننے کے بعد یہ تعداد کم ہوتی رہی اور 1991 میں صرف 10 فیصد اقلیت وہاں رہی جبکہ 2011 میں وہاں صرف 8 فیصد اقلیتیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے اب ایک فیصد تک رہ گئی ہے۔

پروفیسر بھاردواج کہتے ہیں کہ پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں اقلیتی برادری کے لیے ترقی کا کوئی مسئلہ نہیں رہا کیونکہ وہ برطانوی دور سے ہی وہاں کے جاگیردار اور کاروباری برادری کا حصہ رہے ہیں۔ تقسیم کے بعد بھی ان کی معاشی حالت میں کمی واقع نہیں ہوئی لیکن ان کے ساتھ سیاست، ملازمت اور سلامتی میں یقینا ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ انڈیا میں 1951 میں 84 فیصد ہندو تھے اور 2011 میں وہ کم ہو کر 79 فیصد ہو گئے تھے، جبکہ باقی ممالک میں وہاں کی اکثریت کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد بھی بتائی۔ امت شاہ نے کہا کہ 1951 میں انڈیا میں مسلمانوں کی تعداد 9.8 فیصد تھی اور آج مسلمانوں کی تعداد 14.23 فیصد ہے۔

فوٹو

امت شاہ کا کہنا ہے کہ جو غیر قانونی طور پر ملک میں بغیر اجازت داخل ہوا ہے وہ گھس بیٹھیا یا در انداز ہے

مہاجر یا درانداز کون؟

وزیر داخلہ امت شاہ نے ایوان میں بحث کے دوران کئی بار یہی بات دہرائی۔ انھوں نے کہا کہ جو اپنے ملک میں ظلم و ستم کا شکار رہا ہے اور اپنے مذہب اور خواتین کی عزت بچانے کے لیے انڈیا آیا ہے وہ مہاجر ہے اور جو غیر قانونی طور پر ملک میں بغیر اجازت داخل ہوا ہے وہ گھس بیٹھیا یا درانداز ہے۔

مسلمان اس بل میں کیوں شامل نہیں ہیں؟ وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی اس سوال کا جواب دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان وہاں اقلیت نہیں ہیں، لہذا انھیں یہ سہولت فراہم نہیں کی جارہی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ میانمار سیکولر ملک ہے اور میانمار سے روہنگیا مسلمان انڈیا آتے ہیں اور ان روہنگیا مسلمانوں کو کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔

میانمار کے روہنگیا مسلمان اس ملک میں ایک اقلیت ہیں اور ان پر مظالم کی خبریں پوشیدہ نہیں ہیں۔ اس وقت 40 ہزار کے قریب روہنگیا مسلمانوں نے انڈیا میں پناہ لے رکھی ہے، تو پھر انھیں درانداز کیوں کہا جاتا ہے؟

اس سوال پر پروفیسر بھاردواج کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمان پناہ گزین ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے ملک میں مظالم برداشت کیے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماہجرین کے مطابق مہاجر وہ شخص ہے جس کو ظلم و ستم، جنگ یا تشدد کی وجہ سے اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا ہو اور مہاجروں کو خوف ہے کہ نسل، مذہب، سیاسی رائے یا کسی بھی معاشرتی گروہ کی وجہ سے ان پر ظلم کیا جائے گا۔

انڈین پارلیمان

آرٹیکل 14 کہتا ہے کہ جس میں مساوات کا حق نہیں ہے اس پر پارلیمان میں قانون نہیں بنایا جا سکتا

کیا شہریت بل ایک آئینی خلاف ورزی ہے؟

بحث کے دوران، کانگریس کے رکن پارلیمنٹ منیش تیواری سمیت متعدد اراکین نے آرٹیکل 14 کا حوالہ دیتے ہوئے اس بل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ اس پر وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ یہ بل کسی بھی طرح سے غیر آئینی نہیں ہے اور اس سے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی نہیں ہوتی اور یہ آئین کے نقطہ نظر سے درست ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’مساوات کا حق آرٹیکل 14 میں دیا گیا ہے اور اس قانون کو بنانے میں کوئی پابندی نہیں ہے، آرٹیکل 14 کہتا ہے کہ جس میں مساوات کا حق نہیں ہے اس پر پارلیمان میں قانون نہیں بنایا جا سکتا۔‘

نیلسار لا یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور قانون ماہر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ یہ بل آرٹیکل 14 کے معیار پر پورا نہیں اترتا ہے۔ امت شاہ کے بہت سے مذاہب کو شامل کرنے پر ان کا کہنا ہے کہ اس بل میں ایک مذہب چھوڑا گیا ہے جو مساوات کے حق کے خلاف ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آرٹیکل 14 کہتا ہے کہ وہ شہریوں کو یکساں سمجھے گا اور سب کے لیے یکساں قانون ہو گا۔ مساوی قانون کا مطلب یہ ہے کہ تمام قوانین سب کے لیے برابر ہیں۔‘

فیضان مصطفیٰ کا مزید کہنا ہے کہ آئین مذہب، ذات اور پیدائش کی جگہ کے مطابق قوانین بنانے کی اجازت نہیں دیتا ہے لیکن یہ بل اس قانون کو مذہب پر مبنی بنا دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ قانون آرٹیکل 14 کے میعار پر پورا نہیں اترتا ہے۔ اس میں تمام ہمسایہ ممالک شامل نہیں ہیں۔ میانمار، چین اور سری لنکا اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس قانون میں جو درجہ بندی کی گئی ہے وہ درست نہیں ہے۔‘

وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنی تقریر کے دوران دلائل دیے کہ آرٹیکل 14 کی بنیاد پر ایسے قوانین نہیں بن سکتے لہذا اقلیتی تعلیمی اداروں کے لیے یہ قانون کیسے بنایا گیا ہے؟

اس پر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ غلط فہمی میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 14 کے تحت اقلیتی تعلیمی ادارے بنائے گئے ہیں، یہ ادارے اصل میں آرٹیکل 30 کے تحت تشکیل دیے گئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آرٹیکل 30 کے تحت انڈیا میں بسنے والی اقلیتوں نے تعلیمی ادارے بنائے ہیں۔ غیر ملکی اقلیتوں کو اس طرح کے حقوق نہیں دیے گئے ہیں۔ اگر اتر پردیش سے تعلق رکھنے والا ایک برہمن تمل ناڈو میں ہندی انسٹی ٹیوٹ کھولنا چاہتا ہے تو وہ اقلیت ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کھول سکتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp