غربت ہے تو کیا ہوا، سڑکیں تو ہیں


\"sidra\"کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ لگانا ہو تو سب سے پہلے اس ملک کا قانون دیکھو یا پھر یہ دیکھو کہ اس ملک کا نظام کس طرح سے چل رہا ہے۔ لیکن افسوس پاکستان میں جہاں قانون کی بالا دستی کا راگ تو الاپا جاتا ہے وہیں عدالتوں کا چکر لگانے والے لوگوں نے کئی دہائیاں نکال لیں لیکن انہیں انصاف نہ مل سکا۔ اگر صرف سندھ کی عدالتوں کی بات کی جائے تو یہیں پر لاکھوں کیسز ابھی تک التواکا شکار ہیں جس پر چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی ہی مختلف مواقع پر ذکر کر چکے ہیں۔ لیکن اس کو یہی چھوڑتے ہوئے دوسرے نکتے کی جانب چلتے ہیں، اور وہ ہے نظام میں رخنہ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کنونشن سینٹر میں مسلم لیگیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے بڑی دھواں دھار تقریر کی۔ بتایا کہ ملک کا نظام بہترین ہے، کئی اہم منصوبے پایہ تکمیل پر پہنچنے والے ہیں، کئی شروع ہونے والے ہیں، جس بات کو بنیاد بنا کر کے ووٹ حاصل کئے گئے اور حکومت بنائی گئی وہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تھا اس کی تاریخ بھی نواز شریف صاحب نے2018 دے ڈالی۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ پچھلی حکومتوں نے کوئی کام نہ کیا صرف ڈگڈی بجائی اور رادھا کو ناچنے کے لئے کئی من تیل بھی دیا یہی تیل اگر وہ کہیں اور دیتے تو آج لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ کئی اور مسائل بھی حل ہوچکے ہوتے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن نے اپنی باری لینے کے لئے پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنا دوستانہ مضبوط رکھا۔ وہی رویہ آج پیپلز پارٹی بھی تاریخ دہرا رہی ہیں۔ جب سر سے پانی اونچا ہونے لگتا ہے تو شیر کو للکارتے بلا اٹھائے عمران خان میدان میں آجاتے ہیں تو کبھی کمان میں تیر لگائے نوجوان بلاول آجاتے ہیں۔ دو دن رادھا ناچتی ہے کئی من تیل جلتا ہے اور پھر شیر آ کر دھاڑ کر چلا جاتا ہے۔

اس سارے معاملے میں عوام کو انٹر ٹینمنٹ اور میڈیا کو بیچنے کے لئے منجن تو مل رہا ہے لیکن اصل مسئلہ جو اس ملک کو درپیش ہے اس سے سب نظریں چرائے بیٹھے ہیں۔ وہ مسئلہ ہے غربت کا۔ حالت یہ ہے کہ ملک کی آبادی کا 40 فیصد غربت کا شکار ہے چاہے وہ تعلیم ہو، صحت یا کم تر معیار زندگی۔ لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی آبادی کا چالیس فیصد طبقہ ان تینوں مسائل کا شکار ہے۔ شہر ہو یا دیہات ان میں بسنے والے غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان اس کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ گو یہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور معدنی وسائل سے مالا مال بھی ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے اگر بات کی جائے تو پسماندگی میں یہ صوبہ سب پر بازی لے جاتا ہے۔ بلوچستان میں غر بت کا تناسب 71.2 فیصد، فاٹا میں 73.7  فیصد، خیبر پختونخواہ میں 49.2 فیصد، سندھ میں 43 فیصد، پنجاب میں31.4  فیصد ہے۔ یوں شہری آبادی میں ہر دسواں اور دیہات میں ہر دوسرا آدمی غربت کا شکار ہے۔ ایک جانب ہم پاک چین اقتصادی راہداری کے بننے کا ڈھول پیٹتے ہیں، گوادر بندرگار کو سونے کی چڑیا قرار دیتے ہیں، بتاتے پھرتے ہیں کہ اس راہداری کے مکمل ہونے تک ملک کی سڑکیں چاندی کی اور لوگوں کی قسمت سونے کے بھاؤ جیسی ہوجائے گی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بلوچستان کے حالات اب بھی نہ بدلے۔ ابھی بھی وہاں کے مقامی لوگوں کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ راہداری کی تعمیر چین کی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان کی آبادی کو سہولیات پہنچانا حکومت پاکستان کا کام ہے نہ کہ چین کی۔ اگر دوسرے بڑے معدنی وسائل رکھنے والے صوبے، صوبہ سندھ کی بات کی جائے تو سندھ کا وہ علاقہ جو حقیقت میں سونا اگلتا ہے، جہاں دنیا کے سب سے بڑے کوئلے کے ذخائر موجود ہیں وہ علاقہ ہے تھر پارکر کا جس میں غربت کا تناسب 87 فیصد ہے۔ سندھ کے دیگر علاقوں کے اعداد و شمار بھی بہت ہی خوفناک ہیں۔ اسی طرح عمر کوٹ میں غربت کا تناسب 85 فیصد،سجاول میں 82، ٹھٹھہ میں 78 جب کہ کراچی میں 4.5 فیصد ہے۔

 سندھ کی حالت بدلنے کے لئے پیپلز پارٹی کو کئی مواقع میسر آئے لیکن ان علاقوں کی حالت نہ بدل کسی۔ لیکن اگر صرف کراچی کی بات کر لی جائے تو یہاں کے حالات بھی کچھ کم نہیں۔ ابھی تک صرف اندازوں پر بات کی جاتی ہے کہ یہ شہر پونے دو کروڑ کی آبادی کا شہر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر سال بجٹ تو بنایا جاتا ہے لیکن مردم شماری آخری بار 1998  میں کروائی گئی۔ اس کے بعد سے ہم نے چودہ کروڑ آبادی کے بڑھنے کا اندازہ اپنی انگلیوں پر لگانا شروع کردیا کہ 2016 تک ملک کی آبادی اب لگ بھگ اٹھارہ کروڑ تک جا پہنچی ہوگی۔ قربان جائیں ہم اپنی حکومتوں اور بجٹ بنانے والوں پر جو اسمبلی میں بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ اس سال کا بجٹ عوام دوست بجٹ ہے۔ کوئی وزیر خزانہ سے یہ تو دریافت کرے کہ آپ کس آبادی کے لئے یہ بجٹ پیش کرتے ہیں، اس کے درست اعداد و شمار بھی آپ کے پاس موجود ہیں یا نہیں؟ کیا اس ملک کی آبادی اٹھارہ برسوں میں صرف چار کروڑ ہی بڑھی ہے؟ اور اگر اس مضحکہ خیز حقیقت کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو کیا ملک کو درپیش تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے مسائل کو حل کرلیا گیا؟ جس طرح ملک میں روز کسی نہ کسی بہانے سے موٹر وے بناکر دینے کا احسان قوم کو جتایا جاتا ہے کیا ملک کی آبادی کے چالیس فیصد طبقے کو جو بنیادی سہولیات سے محروم ہے ان کے لئے کوئی احسان عظیم کرنے کا سوچا گیا؟

میں صرف اگر کراچی کی ہی بات کروں تو یہاں پر تین بڑے سرکاری اسپتال کئی دہائیوں سے عوام کی ضروریات بہت مشکل سے پوری کر رہے ہیں۔ شہر میں کوئی بڑا واقعہ ہوجائے یا کسی حادثے سے دوچار شخص کو ایمبولینس میں ٹوٹی پھوٹی اور گڑہوں والی سڑک پر سے گزر کر اسپتال پہنچنا ہو تو اسے گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ لیکن سول، جناح، اور عباسی شہید اسپتال کے علاوہ آج تک جدید سہولیات کا حامل کوئی اور سرکاری اسپتال نہ بنایا جاسکا جو پونے دو کروڑ کی آبادی کے شہر میں بسنے والے متوسط اور غریب مریضوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکے، انہیں بہتر علاج فراہم کر سکے۔ اس شہر میں کئی ایسے سرکاری اسکول بھی ہیں جو کاغذ پر تو ہیں لیکن زمین پر نہیں اور جو ہیں وہ تالا بند ہیں یا وہاں اساتذہ نہیں۔ اسی طرح شہر کے بیچوں بیچ کئی کچی آبادیاں قائم ہیں جہاں لوگ غربت کی لکیر سے بھی کم پر زندگی گزار رہے ہیں۔ بہتر علاج اور تعلیم تو دور، ان کے پاس دو وقت کھانے کو بھی کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ ہمارے پاس موٹر وے ہے، سڑکوں کا نیا جال ہے، سی پیک بننے جارہا ہے اور لوڈ شیڈنگ کو 2018 میں ختم کرنے کا سب سے بڑا دعوی ہے۔ یہ سب اتنا خوبصورت اور سہانا خواب ہے جس میں غربت کی یہ خوفناک حقیقت دیکھنے سے بھی دکھائی نہیں دیتی۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments