تعلیم یافتہ وحشی اور ہمارے بچوں کا مستقبل


میں آج وقت پر دفتر سے واپس گھر نہیں پہنچ سکی، جان سولی پر ٹنگی رہی کہ میرے بچے آج سکول سے واپس کیسے آئیں گے؟ دفتر کی کھڑکیوں سے دکھائی دینے والے دھوئیں کے سیاہ بادل اور ٹی وی سکرین پر دل دہلا دینے والے مناظر… ایک ٹکر میں دکھائی دیا کہ حملہ آور گروہ میں سیاہ کوٹ پہنے نوجوانوں کے ساتھ سفید ریش بزرگ اور خواتین بھی شامل ہیں۔ خدا خیر کرے۔

آج لاہور میں اچھے خوش لباس ، تعلیم یافتہ اور قانون فہم ہجوم نے دل کے ایک اسپتال پر منظم حملہ کیا ۔ مغلظات بکتے، پتھر برساتے اور راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کرتے ہجوم کے خوف سے ڈاکٹر کام چھوڑ کر بھاگ گئے اور کئی مریض جان سے گئے ۔ معصوم زندگیوں کے ضیاع کا سن کر خود پہ افسوس ہوا کہ لوگوں کی جان چلی گئی اور مجھے دفتر سے گھر وقت پر نہ پہنچنے سکنے پر پریشانی ہے۔ میں نہیں جانتی کہ وکلاء کو اسپتال انتظامیہ سے کیا شکایت تھی، ڈاکٹروں نے کہاں پر کوئی ایسی زیادتی کی تھی کہ جس کے جواز میں یہ انتہائی اقدام ضروری ٹھہرا کہ بے گناہ لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔

ہم بظاہر ایک جمہوری معاشرہ ہیں جہاں کسی بھی زیادتی کے خلاف یا اپنے مطالبات کی حمایت احتجاج کو بجا طور ایک عوامی حق تسلیم کیا جاتا ہے ۔ دنیا بھر کے مہذب معاشروں میں مختلف طبقہ فکر کے لوگ اپنا یہ حق استعمال کرتے ہیں کہ حکومتیں دہل جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں احتجاج کرنے والے گروہ کا تعلق چاہے کسی بھی طبقہ فکر سے کیوں نہ ہو احتجاجی مظاہرے تب تک مکمل نہیں سمجھے جاتے جب تک شائستگی کی تمام حدود کو اپنے غصے اور زعم کی ٹھوکر تلے روند نہ ڈالا جائے۔

ایسے ہی مظاہرے چند ماہ قبل انتہائی تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کی طرف سے بھی دیکھنے میں آتے رہے ، کبھی طلباء اور کبھی مذہبی طبقہ جو خود کو اعلیٰ تربیت یافتہ سمجھتا ہے معاشرے میں تعلیم عام ہوتی جا رہی ہے، سکول کالج یونیورسٹیاں گلی محلوں میں بھی کھلنے لگی ہیں۔ خواندگی کی شرح بڑھانے کو حکومت بھی ہمہ وقت تیار لیکن اس تعلیم کی فراوانی میں تربیت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ آج کے واقعے کے بعد میں اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے واقعی فکر مند ہوں۔

میں انہیں ایک ایسے تعلیم یافتہ معاشرے کا فرد بنانے کی فکر میں غلطاں، جہاں وہ درست اور غلط کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں۔ جہاں وہ اجتماعی شعور کی سچائی کو اپنے علم کی کسوٹی پر پرکھ سکیں ۔ وہ علم جسے جہالت کے اندھیرے کو مٹانے والی شمع قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر تعلیم کا نتیجہ بھی یہی ہے تو پھر جہالت کیسی تھی؟

جس کی جگہ اس متوحش شعور نے لے لی ہے۔ قانون کی بالا دستی، انسانی حقوق، آزادی اور تحفظ کہاں ملیں گے ؟؟ قانون اور انسانی حقوق کی تشریح کا حق رکھنے والے تعلیم یافتہ لوگ جب قانون شکنی کو ہی اپنا کارنامہ سمجھنے لگیں تو پھر معاشرتی تنزل کی رفتار ماپنے کے لئے کیا کسی پیمانے کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ میں سچ مچ فکر مند ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).