خیال کیجیے، پاکستان بکھر رہا ہے


میں اکثریتی معاملات میں اک غیرجذباتی شخص ہوں۔ زندگی میں اب شغل میلے پر یقین رکھتا ہوں۔ اپنی بساط اور اوقات سے بڑے معاملات پر سوچ بچار یا جاری شدہ کسی بھی بڑے بھنور میں، بھلے بھرپور خلوص کے ساتھ ہی، کود پڑنا شدید ترین حماقت تصور کرتا ہوں۔ مجھے اپنے اور پرائے اس طبیعت کی وجہ سے سناتے بھی رہتے ہیں۔ میں سنتا بھی رہتا ہوں مگر جاری شدہ کسی بھی ”ٹرینڈ“ کے گزر جانے کے بعد، سوشل میڈیا کی بنائی نفسیات کی برکات کی بدولت، احباب اب شرمندہ ہونے کو بھی کوئی شرعی عذر ہی گردانتے ہیں۔

کچھ ایسا ہی حال اور خیال کل وکلا کے لاہور میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملے کے حوالے سے ہے۔ مثلا یہ کہ میرا اس ہسپتال میں کوئی داخل نہیں تھا، نہ کوئی مرا، نہ کوئی زخمی ہوا۔ حملہ کرنے والوں میں میرا کوئی نہیں۔ جن پر حملہ ہوا ان میں میرا کوئی نہیں۔ ہونے والے اس سارے واقعے میں، میرا یا میرا ذات کا نہ تو کوئی تعلق بنتا ہے، اور نہ ہی میرا کوئی نفع نقصان ہے۔ میں بنیادی طور پر ایسے معاملات میں تقریبا 80 سے 90 فیصدی تماشبینی کی کیفیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوں اور تماشبیبنی کا سرور لیتا رہتا ہوں۔ اس سرور میں وہ سرور بھی شامل ہوتا ہے جو ”سوشل میڈیا ایکٹوسٹس“ کے سٹانسز اور تحاریرسے ملتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ جب فیس بک، ٹویٹر نہیں تھے تو بے چارہ سوشل ایکٹوزم کیسے ہوتا ہو گا؟

میرے خیال میں پاکستان بطور ریاست بکھر رہا ہے۔ اس میں ریاست کی ریڑھ کی مرکزی ہڈی اور اس سے جڑے ہوئے دوسرے اعضا، یعنی ڈیپارٹمنٹس، اک شدید اخلاقی، تخلیقی دیوالیہ پن، بے بسی اور انتظامی بددلی کے عفریتوں کا اک لمبے عرصے سے سامنا کر رہے ہیں۔ یہی اخلاقی، تخلیقی دیوالیہ پن، بے بسی اور معاشرتی بددلی پاکستان کے عوام بھی جھیل رہے ہیں تو لہذا، آپ کو تقریبا سارے پاکستان کے لوئر ٹو اپر مڈل کلاس گھرانوں میں پاکستان سے بھاگ نکلنے کی گفتگو عام ملتی ہے۔ اپر، جینٹری اور ایلیٹ کلاس کو تو مسئلہ ہی کوئی نہیں کہ ان کے بچے، پیارے پہلے ہی باہر ہیں اور یہ لوگ بھی بہت سکون سے کسی بھی وقت باہر جا سکتے ہیں۔

یہ گفتگو طویل ہے، پھر کبھی سہی۔ مگر کہنا یہ ہے کہ جب ادارے اک قبیلے اور گروہ کی شکل میں مرکزیت کے حوالے سے اپنی من مانیوں کا اک کلچر بناتے چلے جائیں اور صرف اور صرف اپنے مفاد کے حوالے سے ہی ریشنل ایکٹر ہوں تو یہی لعنت پہلے ریاست کے دوسرے اداروں میں گھستی ہے اور پھر ان اداروں سے جڑے ہوئے طبقات میں در آتی ہے اور ان طبقات سے ہوتی ہوئی عام لوگوں کی عام زندگیوں کی عام روٹینز کا حصہ بن جاتی ہے۔ وطن عزیز میں من مانی کرنے کا جو کھیل تماشا جناب سکندر مرزا صاحب نے شروع کیا اور جناب جنرل ضیا الحق صاحب نے بلندیوں تک پہنچایا، کل وکلا گردی میں عین اسی من مانی کی نشانیاں اور نتائج موجود ہیں۔

یاد دلاتا چلوں کہ وکلا گردی سے قبل، ڈاکٹر گردی، پراپرٹی گردی، پولیس گردی، سیاسی گردی اور ادارہ جاتی گردی کی مثالیں تو ذہن پر بہت معمولی زور دینے سے ہی یاد آ جائیں گی۔

جب یہ لعنت فرد تک پہنچ جاتی ہے تو یہ خیال جنم لیتا ہے کہ اک فرد، اپنے سر پر آپ ہی ہے، کیونکہ وہ اپنے آس پاس انفرادی اور گروہی مفادات کے حوالے سے اک خونخواری کو چلتے ہوئے مسلسل دیکھتا ہے۔ یہ فرد، اور ایسے افراد جب کسی گروہ کا حصہ بنتے ہیں تو یہی سوچ گروہ میں بھی آ جاتی ہے اور پھر گروہ یہی سوچ، دوبارہ معاشرے کو دان کر دیتا ہے۔ یہ دائروں کا سفر جاری رہتا ہے۔

مگر اس سفر کا آغاز ریاست اور معاشرت کی چوٹی سے ہوتا ہے جس پر بیٹھے افراد جب خود کو کسی بھی قانون، ضابطے اور آنرایبل کنڈکٹ کی کسی شِق کے تابع محسوس نہیں کرتے اور جب جی چاہے ڈیم بناتے پھرتے ہیں، شلواریں گیلی کرتے پھرتے ہیں، معیشت پر سیمینارز کرواتے پھرتے ہیں، مثبت خبروں پر اصرار کرتے پھرتے ہیں، ملازمتیں بانٹتے پھرتے ہیں، ملازمتوں میں توسیع کی خواہش لیے پھرتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے، اک منظم ریاست کے انتظام اور نظم کا مذاق اڑتے ہیں۔ اور منظم ریاست اپنا مذاق، تقریبا ہر بار ہی بنوا لیتی ہے، تو دوستو، ایسا کرنے سے اک عام شخص، یا گروہ کو کون روک سکتا ہے؟

پھر جب فرد یا گروہ کا جہاں زور چلتا ہے، وہ چلاتا ہے۔ کیوں نہ چلائے کہ اپنا رویہ بنانے کے حوالے سے اس کے پاس کوئی عمدہ مثال ہی موجود نہیں ہوتی۔ مچھلی، سر سے ہی تو سب سے پہلے سڑنا شروع ہوتی ہے۔ یہ نجانے کب سے سڑی ہوئی ہے۔

ایسے حالات میں معاشرے اور ریاستیں بکھر جاتی ہیں۔ بکھرنے کے لیے ٹوٹنا کوئی شرط نہیں ہوتی؛ بس بکھرے ہونے کا احساس اور منظر ہی کافی ہوتا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے، گو کہ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے، کہ میرے بے چارے وطن، اس کی بیوہ معاشرت اور یتیم شہریوں کو اک نارمل زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔ ریاستوں میں بھلے قوانین ہوں، مگر ریاستیں اخلاقی امثال پر چلتی ہیں۔ ریاست کی چوٹی پر بیٹھے کیسی اخلاقی مثالیں تخلیق کر رہے ہیں ؛ اس کے بارے میں جاننے کے لیے خود ہی تھوڑی تحقیق کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).