کیا ہمیں دشمنوں کی ضرورت ہے؟


تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی شکست ہوئی یا جب بھی مسلمانوں نے نقصان اُٹھایا اپنوں ہی کے ہاتھوں سے اُٹھایا۔ کل رات تمام ٹیلیوژن چینلز صرف ایک ہی بات کو لے کر چیخ رہے تھے کہ کالے کوٹ والے قانون کے رکھوالوں نے پاکستان اِنسٹیوٹ آف کارڈیولوجی یعنی اَمراض قلب جس کو عام زبان میں دِل کی بیماری کا ہسپتال کہا جاتا ہے پر دھاوا بول دیا۔ فوٹیجز دیکھ کر دِل دہل گیا ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی جہالت کے دور پر بنی فلم کا سین چل رہا ہو، اور جنگلیوں کے کسی قبیلے نے دوسرے قبیلے والوں پر دھاوا بول دیا ہو۔

مگر جناب یہ کوئی جنگلیوں کا قبیلہ نہیں تھا بلکہ ہمارے معاشرے کے دو بہت ہی معزز پیشے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے معززین کے درمیان اپنی اپنی جہالت کا ثبوت دینے کا مقابلہ تھا، جو اُنہوں نے بخوبی دیا اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ کوئی بھی ملک ہمیں تباہ نہیں کر سکتا کیونکہ اُن کے سوچنے سے پہہلے ہم خود اپنے آپ کو تباہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ واقعی اَگر سوچا جائے تو جو کچھ ہم بحیثیت قوم کر رہے ہیں کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم پر اپنا اصلحہ ضائع کرے، ہم تو خود ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں۔

کسی کالے کوٹ والے کو یا کسی ڈاکٹر کو، کسی سیاست دان کو، یا اِس ملک میں رہنے والے کسی بھی اِنسان کو کوئی فرق پڑتا ہے کہ اِس اَنا کی لڑائی میں کئی مریض اپنی جان سے چلے گئے، جو زندگی کی اُمید لے کراپنا علاج کروانے آئے تھے اور ملا کیا اُن کو صرف موت۔

وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے بیان دیا کہ ہسپتالوں پر تو جنگ کے دوران بھی حملہ نہیں کیا جاتا، بالکل صحیح کہا اُنہوں نے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنگ ہوتی کس سے ہے، ہم پاکستانیوں کی جنگ یا یوں کہہ لے کہ ہم مسلمانوں کی جنگ ہمیشہ غیر مسلموں سے ہی ہوئی ہے تو سوال یہ کہ ہم کیسے مسلمان ہے جو غیر مسلموں سے بھی زیادہ گِر چکے ہیں۔  ہسپتال پر بلوے کا تو شاید کبھی کسی نے بھی نہ سوچا ہوگا۔ مگر افسوس کہ یہ گھٹیا کارنامہ ہمارے ملک کے پڑھے لکھے باشعور طبقے نے کر دکھایا۔

اَب سوال یہ ہے کہ کیا عام اِنسان اِس ملک میں کوئی حیثیت رکھتا بھی ہے یا نہیں؟ روایت کچھ ایسی چل پڑی ہے کہ اَگر آپ کو اِس ملک میں جینا ہے تو پھر آپ کو کسی نہ کسی طرح طاقتور بننا پڑے گا یا پھر کسی طاقتور کا دم چھلا بن کر رہنا ہوگا۔ شرافت اور عزت سے رہنا چاہتے ہیں تو پھر رہنے دیجئیے اور خود ہی زہر کھا کر مر جائیے۔ بات اَگر سخت ہو تو معافی چاہتا ہوں، مگر ذرا سوچئیے، کالے کوٹ والوں نے اپنے ساتھیوں کی گرفتاری پر احتجاجی ہڑتال کر دی ہے اور کرنی بھی چاہیے تھی اُن معصوموں کا کیا قصور ہی کیا تھا صرف توڑ پھوڑ ہی تو کی تھی، گاڑیوں کو آگ لگائی تھی، ہاتھوں میں اسلحہ لے کر صرف ہوائی فائر کیے تھے کیا ہوا اَگر اِس سارے عمل میں کئی لوگ ہسپتال کے اندر طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے اپنی جانوں سے گئے۔

اَب ہڑتال تو بنتی ہے، اِس ہڑتال سے کیا ہوگا اُن غریبوں کے مقدمے اور لیٹ ہو جائیں گے، جس نے آج آزاد ہونا ہوگا وہ نہیں ہوگا۔ بے گناہ کچھ دن اور جیل میں گزارے گا۔ تو اِس سے کیا ہوتا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ ڈاکٹرز نے بھی ہڑتال کر دی، علاج بند کردیا۔ ہوگا اِس سے بھی کچھ نہیں صرف غریب اور بیمار مریض ہی رُل جائیں گے، باقی تو راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔

نہیں جناب یہ ملک یہ معاشرہ ایسے کبھی نہیں چل سکتا اور نہ ہی یہ ملک ایسے ترقی کر سکتا ہے۔ جب تک حقیقت میں قانون سب کے لئے برابر نہیں ہوگا۔ ہمیں اِس وقت کسی کی چیز کی ضرورت نہیں ہے، اِس ملک کی ترقی کا راز صرف اور صرف دو چیزوں میں چھپا ہوا ہے، ایک اچھی تعلیم و تربیت اور دوسری قانون کی بالادستی۔ کاش ہم اِس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اپنی تحری کا اِختتام احمد ندیم قاسمی صاحب کے اِن دعائیہ اشعار سے کرتا ہوں۔

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).