عقیدہ پہلے، قابلیت بعد میں: تاہم برطانیہ پہنچتے ہی یہ اصول بدل جاتا ہے


پچھلے دنوں، باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے کچھ شدّت پسندوں کے احتجاج کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں مطالبہ کیا جارہا تھا کہ وہاں کے نئے وائس چانسلر ڈاکٹر ثقلین نقوی کو ہٹایا جائے کیونکہ ان کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ اسی طرح ایک اور ویڈیو میں ایک سہمی ہوئی اسسٹنٹ کمشنر خاتون سے چند بظاہر راسخ عقیدہ مسلمان، ان کے عقیدے کی تصدیق کررہے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک تقریرمیں تمام قومو ں، مذاہب اور مسالک کو متحد ہو کر پاکستان مخالف قوتوں کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

اور چونکہ اس تقریر میں انہوں نے احمدیوں کا بھی ذکر کر دیا تھا لہذا، راسخ العقیدہ مسلمانوں کے بقول وہ نہ صرف کافر ہیں بلکہ دیگر کافروں سے منفرد کافر ہیں۔ لہذا احمدیوں کا ذکر کے اس خاتون نے نہ صرف اپنی نوکری، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنا ایمان اور جان بھی خطرے میں ڈال لی تھی۔ جساکہ بقول وسعت اللہ خان کہ کسی علاقے میں ایک مولوی صاحب کسی سرکاری افسر کے خلاف تقریر کر کے مجمعے کو ابھارنے کی کوشش کررہے تھے مگر مجمع ٹس سے مس نہ ہورہا تھا تو ان مولوی صاحب نے اپنی بات میں وزن پیدا کرتے ہوئے کہا کہ ”مسلمانو یہ افسر ایک تو شیعہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ قادیانی مرزائی بھی“

مجھے یاد ہے کہ ہمارے ایک سینئیر ساتھی استاد جو کہ عیسائی تھے ایک موقع پر سنیارٹی کی بنیاد پر کالج کا پرنسپل بن گئے تو اس ان کی بات چپڑاسی بھی بات نہ سنتا تھا۔ کہتا تھا ”چوھڑا“ ہے۔ حالانکہ وہ بطور استاد، بطور انسان، بے حد حلیم طبع اور اپنے مضمون میں ماہر تھے مگر شومئی قسمت کہ مسلمان نہ تھے۔ لہذا ان سے چپڑاسی سے لے کر عام اساتذہ بھی بہت بُرا برتاؤ کرتے تھے۔ اور تو اور ان کے عام اسٹاف سے برتن بھی الگ تھے۔ میں جب ان کے ساتھ کبھی کبھار ایک ہی برتن میں کھانا کھاتا تو مجھے بھی طعنے سننے کو ملتے کہ نجس کے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔

جبکہ یہی راسخ العقیدہ مسلمان جب یورپ میں ہوتے ہیں تو نجس گورے گوریاں، بقول حسن نثار، حلال ہوجاتے ہیں۔ ابھی حال میں برطانیہ میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد عثمان خان کے قائد انجم چوھدری جو برطانیہ کے عوامی بہبود فنڈز یا سوشل سیکورٹی پر گزارہ کرتے ہیں ان کے بقول حکومت برطانیہ کی زکوٰۃ نما امداد، دراصل جہادی فنڈ ہے جو کفار کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی جن کفار کی بھیک لیتا ہے اسی پلیٹ میں کھا کر اس میں سوراخ بھی کرتا ہے۔

اسی طرح ہندوؤں کے ساتھ سلوک، وہ تو چھوڑیں کسی دیہات میں جاکر کمّی کمین کہلانے والے جولاھے، کمہار، مسلّی، ماچھی یا نائی وغیرہ کی حالت زار دیکھیں، کہ ان بیچاروں کی جرأت نہیں کہ کسی نام نہاد اونچی ذات کے چوھدری، سید کے مقابل بھی بیٹھ سکے۔ بس زمین پر یا کسی اسٹول پر بیٹھنے کہ اجازت ہوتی ہے اور ان کے برتن بھی الگ ہوتے ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ جب کوئی آپ سے عقیدہ واضح کرنے کا پوچھتا ہے تو وہ کس حثیت سے پوچھتا ہے؟ ایک بندہ اپنی قابلیت کی وجہ سے کسی بھی عام یا کلیدی عہدے پر فائز ہوتا ہے تو اس میں عقیدہ کہاں سے آ گیا؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک وہابی، بریلوی سے زیادہ قابل ہوتا ہے یا بریلوی، شیعہ سے زیاہ عالم فاضل ہوتا ہے یا اس کے الٹ، یا پھر ہندو سکھ انسان نہیں ہوتے یا احمدی چونکہ خاص قسم کا کافر ہے لہذا وہ یا تو پاکستان چھوڑ دے یا وہ پھر جزیہ دے اور کسی پاکستانی نوکری کا اہل نہیں ہے۔ ”دین میں جبر نہیں“ یا ”پھر“ لَکُمْ دِینُکُمْ وَلِىَ دِینِ ”کا کیا مطلب لیں۔ جنگ بدر میں کافر، مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا پڑھاتے تھے؟

اس ضمن میں انسانی حقوق کے متحرک کارکن محترم جبران ناصر میں مجھے وہ حوصلہ نظر آیا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کا مسلک کیا ہے تو انہوں نے فوراً جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسلک میرا ذاتی مسئلہ ہے اس کا میرے پیشے، کردار، بطور پاکستانی ہونے سے کیا تعلق ہے؟ اور پھر یہ کہ وہ کون ہوتے ہیں یہ سوال پوچھنے والے کہ ان کا مسلک کیا ہے؟

ورنہ حالت تو یہ ہے کہ ایک اہم شخصیت پر احمدی ہونے کا الزام لگتا ہے تو وہ بھی اپنے گھر میں محفلِ میلاد کروا کر اپنے آپ کو سچا اور خالص مسلمان ثابت کروانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

اور پتہ نہیں اسلام کو صرف پاکستان میں ہی خطرہ ہے، باقی کسی مسلمان ملک میں تو اسلام کو کبھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ اگر کہا جائے کہ احمدیوں کی وجہ سے خطرہ ہے تو ان کو آپ نے کافر قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کا خون بھی اپنے اوپر مباح کررکھا ہے تو پھر اور کیا چاھتے ہیں؟ ہم نے احمدیوں پر پاکستان کی سرزمین تنگ کر دی لیکن وہ یورپ سے لے کر امریکہ تک میں دھڑلے سے مساجد اور مدرسے بناتے ہیں وہاں تو کسی پاکستانی کا ایمان خطرے میں نہیں پڑتا کہ کئی احمدیوں نے اپنی دکانوں میں ”مرزا غلام احمد“ کی تصاویر بھی لگا رکھی ہوتی ہیں۔ ان مساجد کو ڈھانا تو دور کی بات، کسی دکان پر لگی مرزا کی تصویر پھاڑ کر دکھا دیں۔ دوسری بات یہ کہ کیا ہم شمشیر کے علاوہ کردار اخلاق سے بھی اپنے مذہب کی تبلیغ کرنا کبھی پسند کریں گے یابندوق کی نوک پر ہندو لڑکیوں کو اغواء کرکے ہی اسلام کا بول بالا کریں گے؟

برطانیہ میں تو مسلمانوں نے یہودیوں کے ساتھ مل کر ریڈیو اسٹیشن کھولے ہوئے ہیں اور مسلمان رہنما، باقی مذاہب اور مسالک کے بارے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مختلف مذاہب، نسلیں برطانیہ میں، پھولوں کے گلدستے کی مانند ہیں جن کی اپنی اپنی منفرد خوشبو بھی ہے اور ان سب خوشبوؤں کا ملاپ، پورا برطانیہ کو معطر کررہا ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد ہے یا ایک دوسرے کو برداشت اور قبول کرکے ہنسی خوشی رہنے کا جذبہ! آخر کب تک مذہبی انتہا پسند، ایثار و قربانی والے مذہب کو نفرت و عدم برداشت میں تبدیل کرکے معاشرے کو جہنم بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے رہیں گے؟

تو پتہ چلا کہ ہمارا ایمان، غیرت، عشق صرف غریب مسکین پر ہی چلتا ہے جسے ہم مذہب، مسلک کے نام پر سادہ عوام کو بآسانی بلیک میل کرلیتے ہیں کیونکہ مسجد میں ایک اعلان کی ضرورت ہوتی ہے اور سارا علاقہ شارٹ کٹ جنت لینے کے لیے کسی بھی بے گناہ اور معصوم کی جان اذیت ناک طریقے سے لینے چل پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).