غُنـــڈہ ایکـٹ


انگریز سرکار کے دور میں ٹھگوں اور اجرتی قاتلوں نے لوگوں کا جینا بھی حرام کر رکھا تھا اور حکومت کی بھی نیندیں اڑا رکھی تھیں۔ انگریز سرکار نے ایسے لوگوں کو ”غنڈہ“ کا نام دے کر ایک قانون منظور کیا اور ریاست کو متحرک کیا گیا لیکن یہ غنڈے توقابو میں نہ آسکے البتہ انگریز سرکار ہی وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئی۔ برصغیر کے ہر کونے میں ان غنڈوں نے اپنا نیٹ ورک مضبوط کیا اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے معصوم شہری بے دردی سے مارے جاتے رہے یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح قائم ودائم ہے۔ وطن عزیز میں اس مافیا نے اب نئی شکل اختیار کرلی ہے۔ ڈاکٹرز کا مافیا بھی بہت مضبوط ہے یہ مافیا سرکاری اور غیر سرکاری طور پر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا ہے۔

سب سے خطرناک غنڈوں کا گروہ اب قانون کی وردی میں پایا جاتا ہے۔ راؤ انوار کے کارنامے اس گروہ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ چھوٹے موٹے چور تو تھانوں کے اندر ہی خالق حقیقی سے ملوا دیے جاتے ہیں اور جو ذرا خطرناک ہوتے ہیں اور پولیس کے کام کے نہیں ہوتے یا کام کے نہیں رہتے انہیں اجتماعی طور پر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ بھتہ وصول کرنے والوں میں پولیس کے باوردی غنڈے شامل ہیں۔ ڈاکٹروں اور پولیس کی دیکھا دیکھی اب وکلاء نے بھی یہی راستہ اپنا لیا ہے۔ کالاکوٹ انصاف کی رسائی کا علمبردار تھا لیکن اب کالاکوٹ ٹھکائی اور دھنائی کا نام بن چکا ہے۔

وکلاء کا طرزِ عمل بتاتا ہے کہ وہ عدالتوں اور انصاف کی فراہمی کے نظام کو قریب سے دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وطنِ عزیز میں وہی زیادہ ”عزیز“ اور طاقتور ہے جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں وکلاء نے کئی ججوں کو تختہء مشق بنا کر یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وکلاء کی مرضی کے بغیر فیصلے بھی نہیں ہوں گے۔ وکلاء کو پہلے آئینی فورس قرار دیا جاتا تھا لیکن اب ملک بھر کے وکلاء ”انّی فورس“ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ہر معاملے میں ”انّی“ ڈال دینا اب وکلاء طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔

وکلاء کا یہ طرزِ عمل بننے میں ایک دو ہفتے نہیں لگے بلکہ اس کے پیچھے ظلم اور نا انصافیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ عدالتوں میں جو مارکٹائی کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وکلاء جج کے ترازو کا جھکاؤ ”چمک“ کی وجہ سمجھتے ہوئے قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سب سے زیادہ جھوٹ عدالتو ں میں بولا جاتا ہے اور اس ”کارِبد“ میں پولیس، وکلاء، عوام اور جج سبھی شامل ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ غنڈہ ایکٹ کو بہتر اور مؤثر بنانے کی بجائے معاشرے کے ہر طبقے نے اس قانون کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا ہے اور غنڈہ ایکٹ مکمل غیر مؤثر ہو چکا ہے البتہ ہرغنڈہ اب بہت مؤثر بن چکا ہے۔

چونکہ ہر سینہ زوری کے بعد ہر حکومت یہی اعلان کرتی رہی ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی لہٰذا وکلاء اس باریک نکتے کو باآسانی سمجھ گئے کہ جو بھی شخص قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت مانگے گا حکومت فوری انکار کر دے گی، لہٰذا اب وکلاء برادری نے غیر اعلانیہ طور پرقانون کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ عدالتوں کے بعد کالے کوٹ والوں نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ڈاکٹروں پر بھی خوب ہاتھ سیدھا کیا ہے۔ پی آئی سی میں زیرعلاج مریض اور مسیحائی کرنے والے ڈاکٹروں کے لئے گزشتہ روز وکلاء کا ہلہ موت کے ایسے فرشتے کی شکل میں تھا جس نے انسانی شکل اختیار کرکے کالا کوٹ پہن رکھا ہو۔

وکلاء کے اس دھاوے میں جو مریض جان سے چلے گئے اگر انہیں چند سانسیں اور مل جاتیں تو و ہ اپنے لواحقین کو اپنی وصیت اور نصیحت میں یہ ضرور بتاتے کہ موت کا فرشتہ کالا کوٹ پہن کرآتا ہے اور شکل سے بالکل وکیل لگتا ہے۔ اب چونکہ وہ دنیا سے چلے گئے ہیں اس لئے وکلاء اور مرحومین کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کافیصلہ یقیناً اللہ کی عدالت کرے گی اور وکلاء اس عدالت سے اس وقت تک ہی التواء لے سکتے ہیں جب تک خود خاک کی ڈھیری نہ بن جائیں۔

بہرحال حملہ کرنے والے وکلاء نے پی آئی سی میں حملہ کرنے سے پہلے نیوزی لینڈ کی مسجد میں معصوم نمازیوں پر گولیاں برسانے والے کی نقالی بھی کی۔ حملہ آور وکلاء مریض اور ڈاکٹروں کو نشانہ بنانے سے پہلے براہ راست ویڈیو بھی بناتے گئے اور پھر جاکر پی آئی سی میں انہوں نے اپنی عدالت لگائی اور اپنے فیصلے کیے اور چند ”منصف طبعیت“ وکلاء نے تو اپنے تقریری آرڈر میں یہ بھی کہا کہ ڈاکٹرو تمہیں گھس کر ماریں گے۔

پولیس اگر بروقت کارروائی کرتی تو وینٹی لیٹر پر لگے ہوئے قانون کی اس طرح جگ ہنسائی نہ ہوتی چونکہ پولیس کی تربیت بلوے پر قابو پانے کی بجائے بلوے کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ”مطلوبہ سہولت“ فراہم کرنے کی ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے بیسیوں مظالم کی ایسی داستانیں کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرکے لوگوں کو دکھائی ہیں جن میں ظلم کی آگ اس لئے زیادہ بھڑکتی دکھائی دی کیونکہ بجھانے والے قانون کے رکھوالے بے شرمی کا مظاہرہ کرتے دیکھے گئے۔

علاج کی سہولتیں میسر نہ ہونے کے باعث لوگ پہلے ہی ”گورکنوں“ سے رابطے میں ہیں اور اگر کسی کو علاج کی سہولت میسر آجائے تو اکثر و بیشتر ڈاکٹر حضرات ہڑتال پر ہوتے ہیں اور اگر ڈاکٹر کام کرنے پر آمادہ دکھائی دیں تو وکلاء حملہ کرکے فرشتہ اجل کا ”کوٹہ“ پورا کر دیتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں عوام کا بُرا حال ہے۔ وکلاء کو چاہیے تھا کہ اگر طاقت کے زور پر ہی طبی سہولیات حاصل کرنی ہیں تو پرائیویٹ ہسپتالوں سے سودا کریں۔سرکاری ہسپتالوں میں تو پہلے ہی بہت زیادہ رش ہے۔

وفاقی حکومت کے لئے وکلاء جیسی کالی آندھی کو قابو کرنے کے لئے بہت مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں کیونکہ اس کو ہوا دینے کے لئے سیاسی جماعتیں بھی اپنا اُلّو سیدھا کریں گی اور اس کے نتیجے میں پورے ملک میں غدر جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ کیونکہ وکلاء نے قانون شکنی کرنے والے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لئے شاہراہیں بند کرنا شروع کر رکھی ہیں اور یہ سلسلہ جب بڑھے گا تو عوام اور وکلاء دست وگریبان ہوں گے اور یہی صورتحال غدرپیدا کرے گی۔

قانون ہاتھ میں لینے کے حوالے سے وکلاء کو اس لئے بھی چھوٹ دی جاسکتی ہے کیونکہ وہ بھی قائد اعظم محمد علی جناح کے جانشین کہلاتے ہیں اور میاں نواز شریف کے مداح انہیں قائد اعظم ثانی کا خطاب دے چکے ہیں لہٰذا وکلاء کے اندر ایک ایسا طبقہ ضرور موجود ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ جب قائد اعظم ثانی میاں نواز شریف پاکستان کے ہر قانون پر بھاری ہے تو وکلاء کا حق تو ان سے بھی زیادہ ہے۔ میاں نواز شریف کو عدالت عظمیٰ نے سسلین مافیا سے تشبیہ دی تھی اور وکلاء کی بدمعاشی کو وکلاء گردی کہا جاتا ہے۔ حکومت کو اس کارروائی کے پیچھے تمام کردار بے نقاب کرنا ہوں گے۔ صرف وکلاء کا قصور نہیں ہے ڈاکٹر بھی غنڈہ گردی میں کسی سے کم نہیں ہیں۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat