بچپن کے کھرنڈ


تحریر: جیسمین جیک مین  ترجمہ ڈاکٹر شہنازشورو

ہم انگلستان سے کینیڈا پہنچنے والے وہ امیگرنٹس تھے جو کینیڈا کی ”نسلی تفاوت کے بغیر“ یعنی ”ریس فری امیگریشن پالیسی“ کے پہلے ہلّے میں آئے تھے۔ میرے والدین نے مڈل کلاس کے علاقے میں گھر ڈھونڈا۔ رئیل سٹیٹ ایجنٹ کی تمام تر کوششوں کے باوجود جو اس نے میرے والدین کو یہ سمجھانے میں صرف کیں کہ انہیں اس علاقے میں گھر لینا چاہیے جہاں کی آبادی ان ہی کی طرح کی ہو جہاں وہ زیادہ اطمینان محسوس کریں گے اور جہاں کرایہ بھی نسبتاً کم ہو گا مگرمیرے والدین چاہتے تھے کہ ان کے بچے مختلف النسل بچوں کے ساتھ پروان چڑھیں۔

جیسے ہی ہم نے اپنے نئے گھر میں رہنا شروع کیا، مجھے یاد ہے۔ میں اپنے گھر کی بالکنی سے ایک کے بعد ایک اپنے پڑوسیوں کو جاتا دیکھتی تھی۔ ایک 4 سالہ متحیر بچی کی ساری معصومیت کے ساتھ میں نے وہاں سے جانے والی ایک فیملی کے مرد سے پوچھا کہ وہ یہاں سے کیوں جا رہے ہیں۔ اس نے ایک لمحے کے لیے اپنے کام سے توجہ ہٹائی، اپنے ہاتھ میں اُٹھایا ہوا بکسہ نیچے رکھا، نہایت غور سے میرے چہرے کو دیکھا اور بغیر کسی ڈھکی چھپی نفرت کے بولا ”ہم کسی ایسی جگہ نہیں رہ سکتے جہاں برابر کے گھر میں “نگرز” رہتے ہوں۔ “

میں نے یہ لفظ ”نگرز“ پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ جو کچھ میری سمجھ میں آیا وہ صرف اتنا تھا کہ یہ جملہ بہرحال تعریفی نہیں تھا۔ میں نے بس خالی آنکھوں سے اپنے پڑوسی کو دیکھا۔ اپنی کودنے والی رسی اُٹھائی اور کھیلنے کے لیے اپنے دوستوں کی طرف دوڑ گئی۔

ہم بلورویسٹ کے علاقے مالٹیز میں تھے جہاں سے ٹرائی اینگل جنکشن بہت دُور تھا۔ مالٹیز محلے داروں کے علاوہ پولش، برطانوی، ولندیزی اور رشین آبادی کے علاوہ ایک چائینز فیملی بھی ہمارے برابر میں رہتی تھی۔ وہ بہت اچھے محلے دار تھے۔ ہر گھر کا ہر شخص دوسرے کے بچے کا خیال رکھتا تھا کہ کہیں کوئی مسئلہ نہ ہو جائے۔ آپ وہاں کچھ چھپا نہیں سکتے تھے۔ بہت سی آنکھیں ہمہ وقت آپ کو دیکھتی رہتی تھیں۔ واقعی ایسا لگتا تھا گویا کہ ہر شخص دوسرے شخص کے لیے فکرمند رہتا تھا۔

ایک دن نجانے کیسے، میری ہی عمر کے ایک بچے کو ہمارے گھر کے پورچ کی سامنے والی سیڑھیوں یعنی مرکزی دالان کے بالکل سامنے اپنا معدہ خالی کرنے کا خیال آیا۔ وہ یقیناً بہت زیادہ ذہین نہیں تھا۔ اسی لیے اس نے یہ حرکت بھرپور دن کی روشنی میں بہت سے بچوں کے سامنے کی، جنہوں نے میرے والدین کو یہ اِطلاع دینے میں قطعاً کوئی تکلف نہ کیا کہ کون ان کے گھر کے سامنے تازہ انسانی فضلہ چھوڑ کر گیا ہے جو اب مکھیوں کے نرغے میں ہے۔

میری ماں نے بھی لمحہ نہ لگایا اس بچے کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر اس کی ماں کو یہ بات بتانے میں اور دوسرے ہی لمحے اس کی ماں اپنے بچے کا کان مروڑتے ہوئے اسے ہمارے گھر لائی اور وہ گندگی صاف کی۔ میں اب تک سوچتی ہوں کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ کیا اسے کسی نے اُکسایا تھا؟ وہ کیا کہنا چاہتا تھا؟ مگر اس کی یہ حماقت جلد ہی فراموش کر دی گئی اور ہم دونوں بہت اچھے دوست بن گئے۔ اتنے قریبی کہ ہمارے والدین مذاقاً ہمیں میاں بیوی کی جوڑی کہنے لگے۔

ہمارے اسکول میں میرے علاوہ کوئی دوسرا بچہ ”کلرفل“ یعنی مختلف رنگت کا حامل نہ تھا۔ میں ہمیشہ اپنی کلاس میں واحد کالی بچی ہوا کرتی تھی۔ چونکہ میں سپورٹس میں بہت اچھی تھی لہٰذا دوست بنانا میرے لیے کبھی کوئی مسئلہ نہ تھا۔ میرے تین بہترین دوست تھے جنہیں عرفِ عام میں Bffsکہتے ہیں جبکہ دیگر لوگ ہمیں ”فورمسکیٹرز“ کہا کرتے تھے۔ ہم چاروں کورس کے سے دلچسپ انداز میں اپنی ٹیچرز کو گڈ مارننگ اور گڈ بائے کہا کرتے تھے۔ ہم ایک ساتھ اسکول سے واپس آتے بلکہ بعض اوقات تو صبح اسکول جاتے ہوئے بھی ایک ساتھ واک کرتے جاتے۔ ایک جیسا نظر آنے کے لئے ہم چاروں رات کو پلان کرتے کہ کل صبح اسکول میں کس رنگ کے کپڑے پہن کر جائیں گے مثلاً جینز کے ساتھ پنک ٹاپ یا بلیک پینٹ کے ساتھ سفید ٹاپ۔

پھر ہم پانچویں جماعت میں آ گئے جو کچھ زیادہ اچھا تجربہ نہ تھا کیونکہ ایک عجیب سا، عمر میں خاصا بڑا دکھنے والے ایک لڑکا میرا پیچھا کرنے اور مجھ پرآوازے کسنے لگا۔ اسکول کے لان میں۔ ہاف ٹائم میں نگر۔ نگر۔ کی آوازیں لگانے کے ساتھ ساتھ باآوازِبلند مجھے جسمانی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں بھی دیتا تھا۔ اسکول کے لان میں ڈیوٹی پر مامور ٹیچر سے میں نے کئی بار اس کی شکایت کی، مگر ٹیچر کا ہر بار ایک ہی جواب ہوتا تھا۔ ”پتھر اورلکڑیاں تمہاری ہڈیاں توڑ دیتی ہیں۔ “

ٹیچر کا اس محاورے کو استعمال کرنے کا مقصد یقینی طور پر یہی تھا کہ میں اس لڑکے کی ہر بدمعاشی کو برداشت کروں۔ وہ لڑکا مجھے ان بے رحم لفظوں سے کئی سال زخمی کرتا رہا۔

چھٹی جماعت میں آتے آتے۔ اپنی جلد کی رنگت کو لے کر منفرد ہونے کا جورومانوی تصور میرے پاس تھا، وہ اپنا حسن کھو بیٹھا۔ کیوٹ اور معصوم ہونے کی وارنٹی اپنی معیاد کھو چکی تھی۔ مجھے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ میں ایک ”انٹرلوپر“ ہوں اور کلاس میں صرف تین میسکٹرز ہیں۔ میری ایک بیسٹ فرینڈ جس کے ساتھ میں کنڈرگارٹن سے لے کر گریڈ سکس تک ہر کلاس میں ساتھ رہی تھی، اپنی سالگرہ کے سلسلے میں اپنے گھر پر سلیپ اوور کا پروگرام بنا رہی تھی۔

میں نے کلاس کے دیگر ساتھیوں سے اس پارٹی کے متعلق سنا مگر ایک لمحے کے لیے بھی میرے ذہن میں یہ شائبہ تک نہ آیا کہ وہ مجھے اس پارٹی میں نہیں بلا رہی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے اتنے اہم تھے جیسے ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے جڑواں بچے۔ اچانک میرے وجدان نے مجھے اس سارے منظرنامے میں اپنے موجود نہ ہونے کا احساس دلایا۔ جم کے بعد والی کلاس میں دیگر دوستوں کے سامنے ایک فیصلہ کُن انداز میں وہ بولی ”مجھے اندازہ ہے کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں اپنی سالگرہ کے سلسلے میں گھر میں پارٹی رکھ رہی ہوں۔

میں ذہنی طور پر اگلے جملے کے لیے مکمل طورپر تیار تھی کہ اب وہ کہے گی ”اور تم اس پارٹی میں آ رہی ہو۔ “ مگر بجائے اس جملے کے وہ بولی ”میرے والدین قطعاً نہیں چاہتے کہ کوئی بلیک ان کے گھر آئے لہٰذا تم نہیں آ سکتیں۔ “ یہ کہہ کر وہ اپنی ایڑی پر گھومی اور جاکر ان لڑکیوں کے گروپ میں شامل ہو گئی جو اس کے گھر ہونے والی پارٹی کو تصور میں لا کر ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ وہ لمحہ بالکل ایسا تھا جیسے مجھ پر بجلی گرپڑی ہو۔ گلابی رنگ کے شیشے معدوم ہو چکے تھے اور زندگی میں پہلی بار۔ میں مکمل سچائی سے اس حقیقت کو جان سکی کہ ”کالا“ اور ”نگر“ ہونا کسے کہتے ہیں۔

مجھے یاد نہیں کہ میں نے کچھ کہا ہو یا میں روئی ہوں کیونکہ یہ بات سن کر میں ہکابکا رہ گئی تھی۔ تو جو اتنے سال ہم نے ساتھ گزارے وہ کیا تھے؟ جب میں بچی تھی تو اس کی ماں میرے بالوں کو سہلا کر مسکرا کر یوکرنین بولی میں کچھ کہتی تھی۔ جو مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آیا تھا مگر میں نے اسے ہمیشہ اپنی تعریف کے طور پر لیا۔ اب میں حیران تھی اورغصے میں بھی۔ اس کے والدین پر نہیں بلکہ اپنی زندگی بھر کی دوست پر جو کہ اپنے والدین کے اس غلط فیصلے پر میرے ساتھ کھڑی نہ ہو سکی؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3