16 دسمبر۔ کاش ہم سبق سیکھیں


یہ دیس انتھک محنت اور بے مثال قربانیوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ اپنے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد 16 دسمبر اکہتر کو دنیائے اسلام کی یہ سب سے بڑی ریاست دولخت ہو گئی۔ اس منحوس دن کی یاد سے دل کے نہاں خانوں میں چنگاریاں بھر جاتی ہیں اور آنکھوں میں اشکوں کی برسات اتر آتی ہے۔ اس عظیم سانحے کا محرک بننی والی اپنی غلطیوں سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے اسے بنگالیوں کی بیوفائی اور اغیار کی سازش سمجھ کر آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ خطہ بنگال ہی تھا جس کے فرزندوں نے 1906 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی، اور بعدازاں اسی پلیٹ فارم سے حکیم الاُمت علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔ قائد ِاعظم کی قیادت میں اِسی جماعت نے منٹو پارک میں قراردادِ لاہور منظور کی اور بھولنا نہیں چاہیے یہ بنگال کے وزیرِاعظم مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔ 1945۔ 46 ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مرکز اور صوبوں میں 90 فیصد مسلم نشستیں جیت لیں۔

ان منتخب نمائندوں کا کنونشن اپریل 1946 ء میں دہلی میں طلب ہوا، جس میں بنگال کے وزیرِاعظم حسین شہید سہروردی نے ریاستوں کے بجائے صرف ریاست پاکستان کے قیام کی قرارداد منظور کی جس کی بنیاد پر برطانوی حکومت کو ہندوستان کی تقسیم کے منصوبے میں تشکیل ِپاکستان کا مطالبہ منظور کرنا پڑا۔ غور طلب امر ہے صرف ربع صدی میں اسی خطے میں متحدہ پاکستان کے خلاف بغاوت کیوں پنپی اور مسلم قومیت پر بنگلہ قومیت کیسے حاوی ہو گئی؟ اس میں شک نہیں دونوں بازوؤں کے درمیان کینہ پرور دشمن حائل تھا، جس کے دل میں اتحاد و یگانگت کانٹا بن کر چبھ رہی تھی۔ انصاف سے کام لیا جائے تو یہ واحد عامل نہیں گھر کے اندر اعتماد ہوتا تمام باسیوں کو یکسانیت محسوس ہوتی تو محظ لگائی بجھائی مقصد حاصل نہیں کر سکتی تھی۔

مشرقی پاکستان کے سقوط کی وجوہات میں مذہبی، علاقائی اور بین الاقوامی عناصر کا عمل دخل بیان کیا جاتا ہے۔ یہ وجوہات اپنی جگہ درست ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر ملک کے دونوں حصوں میں انصاف سے کام لیا گیا ہوتا تو نوبت بٹوارے تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ ملک کے دونوں حصوں میں بد اعتمادی کا آغاز قیام پاکستان کے فورا بعد قائداعظم کی زندگی میں ہی اس وقت ہو گیا تھا جب اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا۔

اس فیصلے پر احتجاج کو زیادہ اہمیت نہ دی گئی الٹا کچھ عرصہ بعد مشرقی حصے سے تعلق رکھنے والے سیاستدان خواجہ ناظم الدین کو بھی اقتدار سے علیحدہ کر کے ان کی جگہ ایک بیوروکریٹ کو بٹھا دیا گیا۔ سول و ملٹری بیوروکریسی میں پہلے ہی بنگالیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ نچلے درجے کی اسامیوں پر اکثر بنگالی تعینات تھے اور ہر وہ کام جو معیوب سمجھا جا سکتا ہے وہ ان سے لیا جاتا تھا۔ مشرقی پاکستان کے تقریبا تمام اضلاع میں بیوروکریٹس مغربی حصے سے تعلق رکھنے والے تھے۔ ان میں سے بیشتر افسران کا طرز عمل مقامی ماتحت عملے سے انتہائی حقارت پر مبنی تھا۔

 ملک کے مشرقی حصے کی آبادی اس وقت 56 % جبکہ مغربی حصے کی 54 % تھی۔ ون یونٹ کے قیام کا اعلان کر کے جب آبادی کے تناسب کے فرق کے باوجود دونوں حصوں کی نمائندگی یکساں کی گئی تو باہم اعتماد کی رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔ 1956 ء میں پہلا آئین بنا تو بنگالی بہت خوش ہوئے اور انہیں کسی قدر تحفظ کا احساس ہونا شروع ہوا، لیکن 1958 ء کے مارشل لاء نے سے وہاں ایک بار پھر شدت سے مایوسی کی لہر دوڑا دی۔

پھر 65 ء کی جنگ میں یہ جواز بتلا کر کہ مشرقی حصے کا دفاع مغرب سے جارحانہ حکمت عملی اپنا کر کیا جائے گا، بنگالیوں کے دلوں میں موجود بیگانگی کے احساس کو بالکل یقین میں بدل دیا۔ اس دوران معاشی سطح پر استحصال میں بھی کوئی کسر چھوڑی نہیں گئی تھی۔ کل ملکی آمدن کا بڑا حصہ مشرقی حصے کی پٹ سن سے حاصل ہوتا تھا لیکن خرچ مغربی حصے میں کیا جاتا رہا۔ ان حرکات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شکایات بتدریج بڑھتی گئیں جنہیں بنیاد بنا کر شیخ مجیب الرحمن نے چھ نکات پیش کر دیے اور مشرقی حصے کے عوام میں مقبولیت حاصل کر لی۔

بات چیت کے بجائے چھ نکات کا جواب غداری کے الزامات سے دیا گیا تو شیخ مجیب کی مقبولیت عصبیت میں بدل گئی۔ 1970 ء کے انتخابات میں اسی عصبیت کو بروئے کار لاکر مجیب کی جماعت عوامی لیگ نے مشرقی حصے میں تقریبا کلین سوئپ کرکے حکومت سازی کے لیے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ اصولی طور پر اکثریتی جماعت کو حکومت بنانے کا حق حاصل تھا لیکن مغربی پاکستان سے اکثریتی جماعت کے سربراہ ذوالفقار بھٹو نے اس وقت کی ہیئت مقتدرہ کی آشیرباد سے پہلے اجلاس میں شرکت سے انکار کیا، بعد ازاں پارلیمنٹ کا اجلاس ہی منسوخ کر دیا گیا۔

اسی پر بس نہیں بلکہ ڈھاکہ جانے والوں کو ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں تک دی گئیں۔ رد عمل میں ابھرنے والی تحریک کو تشدد سے دبانے کی سعی ہوئی اور حالات قابو سے باہر ہوئے تو پھر دشمنوں کو بھی مرضی کے رنگ بھرنے کا مل موقع مل گیا اور شیخ مجیب نے بھی علیحدگی کا مطالبہ کر دیا۔ اس کے بعد جو خونچکاں داستاں گزری، جس اذیت و قیامت سے گزرنا پڑا، جتنی جگ ہنسائی ہوئی، ذلت و رسوائی کے جو جو داغ لگے وہ دہرانے کی ہمت نہیں۔ ہر چیز تاریخ میں رقم ہے۔

تاریخ سبق سیکھنے کی خاطر محفوظ کی جاتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارا مجموعی المیہ یہ ہے کہ ہم تاریخ سے کوئی سبق سیکھتے ہیں نہ اصلاح کی کوشش۔ نہایت دکھ سے کہنا پڑتا ہے حالات آج بھی نہیں بدلے۔ وہی احساسات وہی شکایات اور وہی انداز برقرار ہیں۔ اتنی بڑی قیامت سے گزرنے کے بعد بھی سیاسی سماجی اور معاشی سطح پر نا انصافی اور دہرے معیار ہم کوئی کمی نہیں لائے۔ نظام مضبوط بنانے کے بجائے شخصیات پر انحصار میں کمی نہیں آئی۔

اچھی طرح علم رکھتے ہیں کہ وطن عزیز مختلف اکائیوں پر مشتمل ہے جمہوریت کے سوا جس کو کوئی دیگر بندوبست مستحکم و مربوط نہیں رکھ سکتا۔ لیکن جمہوریت کو اسی ڈھب پر چلانے پر اصرار اب بھی ہے جس کے ہولناک نتائج سے ہم نا آشنا نہیں۔ مخصوص سیاستدانوں کو عتاب کا نشانہ اور راندہ درگاہ بنانے کی ریت آج بھی نہیں بدلی۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی یہاں آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں ہو سکا کہ محب وطن کون ہے اور غداری کون۔ اختلاف کرنے والی زبانوں پر قفل ڈالنے اور بتائے گئے راستے سے ہٹ کر چلنے والوں کو پابہ زنجیر کرنے کی نت نئی ترکیبیں ایجاد ہو رہی ہیں۔

کابینہ کے اجلاسوں میں غور یہ ہوتا ہے کہ نا پسندیدہ آوازوں کا ابلاغ کیسے روکا جائے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی باتیں الزام نہیں حقیقت ہیں۔ شبہ نہیں کہ سقوط ڈھاکہ میں پڑوس میں بیٹھا دشمن ملوث تھا آج بھی وہ ہمیں نقصان پہنچانے کے درپے ہے اور ہمیشہ وہ اس تاک میں رہے گا۔ لیکن اگر ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر جمہوری اقدار کو مضبوط بنالیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈال کر معاشی میدان میں مضبوط ہو جائیں تو کسی دشمن کی سازش ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).