پاکستان میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ضم کرنے کی ’لابنگ‘


آزاد کشمیر میں اس بات کا خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ انڈیا کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کو مدغم کرنے کے جارحانہ اقدام کے بعد آزاد کشمیر کے خطے کو ملحقہ پاکستانی علاقوں میں مدغم کیا جا سکتا ہے۔ اس خطرے کا اظہار عوامی سطح پر ہی نہیں بلکہ حکومتی سطح سے بھی اسی طرح کے خطرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے آزاد کشمیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے حلف کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ ”مجھے کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ آخری وزیراعظم ہو“۔

انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ تحریک آزاد ی کشمیر کی کامیابی اور تقسیم کشمیر کی سازش کوناکام بنانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ کچھ لوگ اس حوالے سے میری باتوں پر اپنے سیاسی مفادات کے لئے تاک لگائے بیٹھے ہیں۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اقوام عالم کو ہندوستانی مظالم سے آگاہ کرنے اور کشمیر کی آواز بین الاقوامی سطح تک پہنچانے کے لئے آزاد کشمیر حکومت اور حریت کانفرنس کو کردار تفویض کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ ختم نہیں کیا جانا چاہیے تھا، ہمارا تعلق ریاست پاکستان سے ہے، ہم وفاقی اکائی نہیں ہیں۔

وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ ہم نے آزاد کشمیر میں 12 ویں اور 13 ویں آئینی ترامیم لائیں جس سے آزاد کشمیر کے کئی دہائیوں سے زیر التوا آئینی مسائل کو حل کیا گیا۔ 13 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر اسمبلی کو با اختیار بنایا اور مالیاتی مسائل کے حل کے لئے اقدامات کیے۔ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ آزادکشمیر کی عزت و وقار پر نہ حرف پہلے آنے دی نہ آئندہ آنے دوں گا۔ اپنی ذمہ داری کو امانت سمجھ کر فرض ادا کیا۔ سردار عبدالقیوم خان کہا کرتے تھے کہ تحریک آزادی کشمیر کی وجہ سے ہی آزاد خطے کی اور ہماری عزت ہے اور یہ سیٹ اپ موجود ہے ورنہ ہماری آبادی اور رقبہ تو بہت کم ہے۔

پاکستان کے سابق آمر حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں وفاقی حکومت کی سطح پر آزاد کشمیر کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے امکانات پر غور کے دوران اس بات کا جائزہ بھی لیا گیا تھا کہ آزاد کشمیر کو پاکستان کے ملحقہ علاقوں کے ساتھ ملا دیا جائے۔ اس حوالے سے ایک دلیل یہ بھی دی گئی کہ مظفر آباد کا کلچر، قبیلے وغیرہ پاکستانی علاقے ہزارہ کے مماثل ہیں اور اسی طرح باغ وغیرہ مری اور میرپور جہلم و گجرات کے ساتھ۔ آج تین عشرے گزرنے کے بعد ایک بار پھر اسی طرح کے امکانات ظاہر ہو رہے ہیں۔

اس سے پہلے سوشل میڈیا پہ اس حوالے سے ایک مہم بھی دیکھنے میں آئی جس میں کہا گیا تھا کہ آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع کو ملحقہ پاکستانی علاقوں کے اضلاع میں مدغم کیا جائے گا۔ دریں اثناء وفاقی حکومت آزاد کشمیر حکومت کی 13 ویں ترامیم کے بعض نکات سے خوش نہیں ہے اور اس میں کئی تبدیلیاں چاہتی ہے۔ اس کے لئے وفاقی حکومت آزاد کشمیر کے آئین میں 14 ویں آئینی ترامیم کی کوشش کر رہی ہے۔ 14 ویں ترمیم کے حوالے سے وفاقی حکومت کے پانچ چھ اعلی سطحی اجلاس بھی ہو چکے ہیں۔

گزشتہ دنوں ہی پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل سے صحافی رانا مبشرکا پروگرام نشر کیا گیا جس میں انہوں نے پروگرام کے شرکاء مسلم لیگ (ن) کے رہنماریٹائرڈ لیفٹینٹ جنرل عبدالقیوم خان، پیپلز پارٹی کے چودھری منظور احمد، ریٹائرڈایئر وائس مارشل شہزاد چودھری اور ایک پاکستانی تھنک ٹینک کی نمائندہ ڈاکٹر طلعت فاروق سے خاص طور پر یہ سوال دریافت کیا کہ کیا پاکستان کے مفاد میں یہ بات ہے، کیا ہمیں یہ ’سوٹ‘ کرتا ہے یا نہیں ہے کہ آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان کو بھی آئینی ترامیم کر کے پاکستان کے اندر ضم کر لیں، جیسا کہ انڈیا نے کیا ہے مقبوضہ جموں و کشمیر میں، اور اگر یہ ہمیں ’سوٹ‘ نہیں کرتا تو اس کی وجوہات ہیں، جو کو جاننا اور ان پر بات کرنا ضروری ہے۔

اگر اسی قسم کو کئی ’سٹیپ‘ ہم لیں گے جیسے انڈیا نے انڈین مقبوضہ کشمیر کو آئینی ترامیم کے بعداپنے اندر مدغم کر لیا، اسی طرح اگر ہم گلگت بلتستان کو اور آزاد کشمیر کو اپنے اندر ضم کر لیں تواس میں ’ایل او سی‘ (لائین آف کنٹرول) لازمی طور پر مستقل لائین آف کنٹرول بن جائے گی۔ اس کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے؟ سیاسی اور مقامی جذبات ہیں لوگوں کے، ان کے اثرات کیا ہوں گے؟ اس کے کیا اثرات ہوں گے تمام صوتحال پہ، اگر یہ ’سٹیپ‘ لیا جاتا ہے تو۔

لداخ کی بات اس لئے نہیں کی کہ لداخ میں چین کی دلچسپی ہے، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ چین لداخ کو کیسے ’ہینڈل‘ کرناچاہتا ہے؟ لازمی طور پر انیس، بیس کے فرق سے ہم چین کی پیروی کریں گے۔ رانا مبشر نے اپنے پروگرام میں درج بالا جملے پانچ، چھ بار دہرائے کہ کیا پاکستان کو بھی انڈیا کے 5 اگست کے اقدام کی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنے اندر ضم کر لینا چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اس تجویز کی مخالفت کی جبکہ ایک تھنک ٹینک کی نمائندہ ڈاکٹر طلعت فاروق نے آزاد کشمیر کے عوام کے رائے کی بات کی۔ تاہم دفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈایئر وائس مارشل شہزاد چودھری نے گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے اور آزاد کشمیر کو موجودہ حالت میں برقرار رکھنے کی بات کی۔

اس پروگرام سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے حوالے سے ا س بات کو موضوع بنا رہے ہیں کہ انڈیا کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنے کے آئینی اقدام کے بعد پاکستان بھی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان آئینی ترامیم کے ذریعے اپنے اندر ضم کر لے۔ اس طرح کی بات کو موضوع بنانے سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ آئندہ اس بات پہ بھی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے یہ موضوع بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے کہ کیا انڈیا سے لڑائی جھگڑے ختم کرنے کے لئے کیا یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ ’اکھنڈ بھارت‘ قائم کر دیا جائے۔

یوں آزاد کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کی یہ تشویش بے جا نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر کو تقسیم کشمیر کی بنیاد پر حل کرنے کا فارمولہ عالمی سطح پر زیر کار ہے اور پاکستان کی انتظامیہ بھی اس میں ممد و معاون ہے۔ اس تمام صورتحال سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پاس کشمیر سے متعلق کوئی لائحہ عمل نہیں ہے، وہ خود عالمی طاقت کی ہدایات اور احکامات کے پابند ہیں۔ پاکستان کے وسیع تر مفادات، سلامتی اور بقاء کے حوالے سے درپیش خطرات اس ضرورت میں مزید اضافہ کرتے ہیں کہ ملک میں حقیقی آئینی بالا دستی کو یقینی بنایا جائے اور ملکی پالیسیوں کے حوالے سے بھی پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کی جائے۔ ایسا نہ کرنے سے پاکستان اور کشمیر کے خلاف خطرناک عزائم کی راہ ہموار ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).