چارپائی اور کلچر


ایک فرانسیسی مفکر کہتا ہے کہ موسیقی میں مجھے جوبات پسند ہے وہ دراصل وہ حسین خواتین ہیں جواپنی ننھی ننھی ہتھیلیوں پر ٹھوڑیاں رکھ کر اسے سنتی ہیں۔ یہ قول میں نے اپنی بریّت میں اس لیے نقل نہیں کیا کہ میں جو قوّالی سے بیزار ہوں تو اس کی اصل وجہ وہ بزرگ ہیں جو محفلِ سماع کو رونق بخشتے ہیں۔ اور نہ میرا یہ دعویٰ کہ میں نے پیانو اور پلنگ کے درمیان کوئی ثقافتی رشتہ دریافت کر لیا ہے۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ پہلی باربان کی کھّری چارپائی کی چرچراہٹ اور ادوان کا تناؤ دیکھ کر بعض نووارد سیّاح اسے سارنگی کے قبیل کا ایشیائی سازسمجھتے ہیں۔

کہنا یہ تھا کہ میرے نزدیک چارپائی کی دِلکشی کا سبب وہ خوش باش لوگ ہیں جو اس پر اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہیں۔ اس کے مطالعہ سے شخصی اور قومی مزاج کے پرکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس لیے کہ کسی شخص کی شائستگی و شرافت کا اندازہ آپ صرف سے لگا سکتے ہیں کہ وہ فرصت کے لمحات میں کیا کرتا ہے اور رات کو کِس قِسم کے خواب دیکھتا ہے۔

چارپائی ایک ایسی خودکفیل تہذیب کی آخری نشانی ہے جو نئے تقاضوں اور ضرور تو ں سے عہدہ برا ہونے کے لیے نِت نئی چیزیں ایجاد کرنے کی قائل نہ تھی۔ بلکہ ایسے نازک مواقع پر پُرانی میں نئی خوبیاں دریافت کر کے مس کرا دیتی تھی۔ اس عہد کی رنگارنگ مجلسی زندگی کا تصّور چارپائی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کا خیال آتے ہی ذہن کے افق پر پہت سے سہانے منظر اُبھر آتے ہیں۔ اُجلی اُجلی ٹھنڈی چادریں، خس کے پنکھی، کچّی مٹّی کی سن سن کرتی کوری صُراحیاں، چھڑکاؤ سے بھیگی زمین کی سوندھی سوندھی لپٹ اور آم کے لدے پھندے درخت جن میں آموں کے بجائے لڑکے لٹکے رہتے ہیں۔

اور اُن کی چھاؤں میں جوان جسم کی طرح کسی کسائی ایک چارپائی جس پر دِن بھر شطرنج کی بساط یا رمی کی پھڑ جمی اور جو شام کو دسترخوان بچھا کر کھانے کی میز بنالی گئی۔ ذرا غور سے دیکھئے تو یہ وہی چارپائی ہے جس کی سیڑھی بنا کر سُگھڑ بیویاں مکڑی کے جالے اور چلبلے لڑکے چڑیوں کے گھونسلے اتارتے ہیں۔ اسی چارپائی کو وقتِ ضرورت پٹیوں سے بانس باندھ کر اسٹیریچر بنا لیتے ہیں اور بجوگ پڑجائے تو انھیں بانسوں سے ایک دُوسرے کو اسٹریچر کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔

اسی طرح مریض جب گھاٹ سے لگ جائے تو تیمادار مؤخرالذِکر کے وسط میں بڑا سا سوراخ کر کے اوّل الذِکر کی مشکل آسان کر دیتے ہیں۔ اور جب ساون میں اُودی اُودی گھٹائیں اُٹھتی ہیں تو ادوان کھول کر لڑکیاں دروازے کی چوکھٹ اور والدین چارپائیوں میں جُھولتے ہیں۔ اسی پر بیٹھ کر مولوی صاحب قمچی کے ذریعہ اخلاقیات کے بنیادی اُصول ذہن نشین کر اتے ہیں۔ اسی پر نومولود بچّے غاؤں غاؤں کرتی، چُندھیائی ہُوئی آنکھیں کھول کر اپنے والدین کو دیکھتے ہیں اور روتے ہیں اور اسی پر دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پیاروں کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔

اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ بعض حضرات اس مضمون کو چارپائی کا پرچہ ترکیب ِ استعمال سمجھ لیں گے تو اس ضمن میں کچھ اور تفصیلات پیش کرتا۔ لیکن جیسا کہ پہلے اشارہ کر چکا ہُوں، یہ مضمون اس تہذیبی علاقت کا قصیدہ نہیں، مرثیہ ہے۔ تاہم بہ نظرِ احتیاط اِتنی وضاحت ضروری ہے کہ:

ہم اس نعمت کے مُنکر ہیں نہ عادی

نام کی مناسبت سے پائے اگر چار ہوں تو مناسب ہے ورنہ اس سے کم ہوں، تب بھی خلقِ خداکے کا م بندنہیں ہوتے۔ اسی طرح پایوں کے حجم اور شکل کی بھی تخصیص نہیں۔ انھیں سامنے رکھ کر آپ غبی سے غبی لڑکے کو اقلیدس کی تمام شکلیں سمجھاسکتے ہیں۔ اور اس مہم کو سر کرنے کے بعدآپ کو احساس ہو گا کہ ابھی کچھ شکلیں ایسی رہ گئی ہیں جن کا صرف اقلیدس بلکہ تجریدی مصّوری میں بھی کوئی ذ کر نہیں۔ دیہات میں ایسے پائے بہت عام ہیں جو آدھے پٹُیوں سے نیچے اور آدھے اُوپر نِکلے ہوتے ہیں۔

ایسی چارپائی کا اُلٹا سیدھا دریافت کرنے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ جس طرف بان صاف ہووہ ہمیشہ ”اُلٹا“ ہوگا۔ راقم الحروف نے ایسے ان گھڑپائے دیکھے ہین جن کی ساخت میں بڑھئی نے محض یہ اصول مدنظر رکھا ہو گا کہ بسولہ چلائے بغیر پیڑ کو اپنی قدرتی حالت میں جوں کا توں پٹیوں سے وصل کر دیا جائے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہماری نظر سے خراد کے بنے ایسے سڈول پائے بھی گزرے ہیں جنھیں چوڑی دار پاجامہ پہنانے کو جی چاہتا ہے۔ اس قسم کے پایوں سے منٹو مرحوم کو جو والہانہ عشق رہاہو گا اس کا اظہارانھوں نے اپنے ایک دوست سے ایک میم کی حسین ٹانگیں دیکھ کر اپنے مخصوص اندازمیں کیا۔ کہنے لگے :

”اگر مجھے ایسی چارٹانگیں مل جائیں تو انھیں کٹوا کر اپنے پلنگ کے پائے بنوا لوں۔ “

غورکیجئے تو مباحثے اور مناظرے کے لیے چارپائی سے بہترکوئی جگہ نہیں۔ اس کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ فریقین آمنے سامنے نہیں بلکہ عموماً اپنے حریف کی پیٹھ کا سہارا لے کر آرام سے بیٹھتے ہیں۔ اور بحث و تکرار کے لیے اس سے بہتر طرزِ نشست ممکن نہیں، کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ فریقین کو ایک دوسرے کی صورت نظرنہ آئے تو کبھی آپے سے باہرنہیں ہوتے۔ اسی بنا پر میرا عرصے سے یہ خیال ہے کہ اگر بین الاقوامی مذ کر ات گول میز پر نہ ہوئے ہوتے تو لاکھوں جانیں تلف ہونے سے بچ جاتیں۔ آپ نے خود دیکھا ہو گا کہ لدی پھندی چارپائیوں پر لوگ پیٹ بھر کے اپنوں کے غیبت کرتے ہیں مگر دل برے نہیں ہوتے۔ اس لیے کہ سبھی جانتے ہیں کہ غیبت اسی کی ہوتی ہے جسے اپنا سمجھتے ہیں۔ اور کچھ یوں بھی ہے کہ ہمارے ہاں غیبت سے مقصود قطع محبت ہے نہ گزارش احوال واقعہ بلکہ محفل میں

لہوگرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ

لوگ گھنٹوں چارپائی پر کسمساتے رہتے ہیں مگر کوئی اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ اس لیے کہ ہرشخص اپنی جگہ بخوبی جانتا ہے کہ اگر وہ چلا گیا تو فوراً اس کی غیبت شروع ہوجائے گی۔ چنانچہ پچھلے پہر تک مرد ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈالے بحث کرتے ہیں اور عورتیں گال سے گال بھڑائے کچرکچر لڑتی رہتی ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ مرد پہلے بحث کرتے ہیں، پھر لڑتے ہیں۔ عورتیں پہلے لڑتی ہیں اور بعد میں بحث کرتی ہیں۔ مجھے ثانی الذ کر طریقہ زیادہ معقول نظرآتا ہے، اس لیے کہ اس میں آئندہ سمجھوتے اور میل ملاپ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔

رہا یہ سوال کہ ایک چارپائی پر بیک وقت کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں تو گزارش ہے کہ چارپائی کی موجودگی میں ہم نے کسی کو کھڑا نہیں دیکھا۔ لیکن اس نوع کے نظریاتی مسائل میں اعداد و شمار پر بے جا زور دینے سے بعض اوقات عجیب وغریب نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ آپ نے ضرور سنا ہو گا کہ جس وقت مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تو وہاں کے بڑے گرجا میں چوٹی کے مسیحی علما و فقہا اس مسئلہ پر کمال سنجیدگی سے بحث کر ر ہے تھے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3