میڈیا اور حکومت کی دوستی: شرائط کیا ہوں گی؟


وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے میڈیا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور اعلان کیا ہے کہ حکومت میڈیا اور صحافیوں کو درپیش مسائل حل کرنے میں معاونت کے لئے تیار ہے۔ البتہ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ حکومت کے ساتھ اس دوستی کی میڈیا اور ملک کے صحافیوں کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ گو رپورٹروں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے اس طرف واضح اشارے ضرور دیے ہیں۔

فردوس عاشق کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق وزیر اعظم نے میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کو درپیش مسائل حل کرنے کے لئے ایک خصوصی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی قیادت وزیر اعظم خود کریں گے جبکہ اطلاعات کی معاون خصوصی کمیٹی کی رابطہ کار کا کردار ادا کریں گی۔ اس کمیٹی میں صحافی تنظیموں ، مدیران و مالکان کے نمائیندے اور الیکٹرانک میڈیا کے لوگوں کے علاوہ دیگر اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے گا۔ فردوس عاشق اعوان کے بقول اس کمیٹی کا مقصد اگرچہ میڈیا ہاؤسز کو درپیش مالی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا لیکن اسی گفتگو میں فردوس عاشق اعوان نے یہ بھی واضح کردیاہے کہ میڈیا کو زیادہ اشتہارات چونکہ نجی شعبہ سے ملتے ہیں اور ملک میں نجی شعبہ اس وقت کساد بازاری کا شکار ہے ، اس لئے اس حوالے سے حکومت بھی میڈیا مالکان کی طرح بے بس ہے۔

جس بات پر البتہ حکومت کے نمائندوں کا زور چلتا ہے وہ اپنی ناقص کارکردگی کا بوجھ سابقہ حکومتوں کی بدعنوانی پر ڈالنا ہے۔ معاون خصوصی نے اس معاملہ میں بھی نجی شعبہ کی زبوں حالی کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو قرار دے کر گویا میڈیا مالکان اور صحافیوں کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ بھی حکومت کے ساتھ مل کر کورس میں گانا شروع کریں کہ سابقہ حکومتوں نے کس طرح ملک کو برباد کردیا ۔ اس خواہش کے تحت میڈیا ، حکومت کی معاشی ناکامیوں کا ذکرکرنا بند کر دے اور کرپشن کے اس نعرے کا حصہ دار بن جائے جس کے سہارے عمران خان اپنے عہدے کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

موجودہ حکومت کے ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ حکومت کے پاس کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی ایسے معاونین میسر ہیں جو ملک کو درپیش مالی مشکلات کا خاتمہ کرنے میں معاون ہوسکیں۔ اس کی بنیادی وجہ حکومت کی شروع کی ہوئی سیاسی محاذ آرائی ہے جو وہ ہر قیمت پر جاری رکھنا چاہتی ہے۔

اب وزیر اعظم کی معاون خصوصی ، میڈیا کے ساتھ دوستی کے لئے پہلی شرط کے طور پر اس ناکام ایجنڈے کی کامیابی کے لئے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کا غیر مشروط تعاون حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ وزیر اعظم کی قیادت میں بننے والی کمیٹی میں میڈیا مالکان اور صحافی نمائیندوں سے دراصل یہی کہا جائے گا کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں تو حکومت بھی ان کی ضروریات اور مشکلات کا خیال رکھے گی۔ اسی لئے میڈیا میں بے روزگار ہونے والے صحافیوں کے مسائل اور اخبارات و ٹیلی ویژن اداروں کو اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی کو اہم مسئلہ بتانے کے بعد مجوزہ میڈیا کمیٹی کا ایجنڈا کچھ یوں بیان کیا گیا ہے:

1)غلط معلومات پھیلانے کا تدارک

2)قومی مفاد کو نقصان پہنچانے والے ایک خاص ذہن و مزاج کے لوگوں سے نمٹنے کا طریقہ تلاش کرنا جو کسی نام نہاد عالمی ایجنڈے کے لئے کام کررہے ہیں

3) ایسے لوگوں کی بیخ کنی جو میڈیا کی آزادی کا نعرہ بلند کرکے دراصل ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں

فردوس عاشق اعوان نے ان تین ’مسائل‘ کو وزیر اعظم کی نگرانی میں بننے والی میڈیا کمیٹی کے ایجنڈے کے اہم ترین نکات قرار دیا ہے۔ اس کے بعد یہ کمیٹی اس بات پر بھی غور کرے گی کہ حکومت میڈیا ہاؤسز کے بقایا جات کی ادائیگی کے لئے کیا طریقہ اختیا ر کرسکتی ہے۔ اور میڈیا مالکان کو کون سی سہولتیں فراہم کی جائیں کہ وہ اپنے عملہ میں تخفیف کے منصوبے بند کردیں تاکہ یہ تاثر ختم کیا جاسکے کہ ملک میں میڈیا ورکر اور صحافی بے روز گار ہورہے ہیں اور مطبوعات بند ہورہی ہیں۔

سب سے پہلے تو ان صحافی تنظیموں اور مدیران کو ان شرائط پر غور کرنے کی ضرورت ہوگی جنہیں وزیر اعظم کی معاون خصوصی کی اطلاعات کے مطابق اس کمیٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے گی۔ انہیں سوچنا چاہئے کی کیا وہ حکومت کی سرپرستی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سرکاری ایجنڈے پر عمل کرنے پر آمادہ ہیں۔ بعض حلقوں میں ضرور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا جائے گا کہ وزیر اعظم نے میڈیا کو اتنی اہمیت دی ہے کہ وہ خود میڈیا کمیٹی کی نگرانی کریں گے۔ لیکن اس اقدام کو فردوس عاشق اعوان کے پیش کردہ ایجنڈے کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ حکومت ملک کے میڈیا کی رہی سہی ہیکڑی نکالنے کے لئے اب اپنا پورا اختیار اور طاقت استعمال کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔ اسی لئے وزیر اعظم خود میڈیا مالکان اور نمائندگان کے ساتھ بیٹھ کر انہیں قومی مفاد اور میڈیا کے کردار کے بارے میں آگاہ کریں گے۔

مالی مفاد کے لئے اخبارات نکالنے اور ٹیلی ویژن اسٹیشن چلانے والے میڈیا مالکان سے آزادی اظہار اور صحافی کی خود مختاری کے معاملات پر کسی نیکی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ حکومت کے ساتھ میڈیا مالکان کی ساز باز ہی کی وجہ سے دراصل ملک میں آزادی صحافت پر تاریخ کا سب سے کاری وار کیا گیا ہے۔ خبر، تبصرے اور انٹرویو کی اشاعت یا نشریات رکوانے کے لئے حکومت اور اس کے طاقتور ادارے دراصل مالکان کو ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ صحافت کو پابند کرنے کے اس عمل کو خود ساختہ سنسر شپ کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی اخبار یا ٹیلی ویژن و ریڈیو کوئی ایسی خبر یا تبصرہ شائع و نشر کرنے سے گریز کرے جو مزاج حاکم پر ناگوار گزرنے کا اندیشہ ہو۔

 ملک کے متعدد میڈیا مالکان چونکہ خود ہی اپنی مطبوعات و نشریات کے ’ایڈیٹر‘ بھی ہوتے ہیں ، اس لئے خبر کا گلا گھونٹنے اور رائے کو سامنے آنے سے روکنے کا کام سہل ہو چکا ہے۔ اگر کوئی میڈیا ہاؤس سرکاری ہدایت و مرضی کے مطابق کام کرنے پر آمادہ نہ ہو تو حالیہ برسوں میں سرکاری اشتہارات کے علاوہ نجی شعبہ سے اس کا مالی بائیکاٹ کرواکے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کا کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے۔

وزیر اعظم کی نگرانی میں بننے والی میڈیا کمیٹی کا اصل مقصد البتہ اب صحافی تنظیموں اور مدیران کو پوری طرح قابو میں کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے صحافی تنظیموں کو صحافیوں کے روزگار کی ضمانت فراہم کرنے کا لالچ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن اس مجوزہ کمیٹی کا اصل مقصد سرکاری پالیسیوں کے لئے میڈیا اور صحافیوں کی غیرمشروط حمایت حاصل کرنا ہی ہے۔ معاون خصوصی نے اپنی گفتگو میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ کچھ صحافی آزادی صحافت کی آڑ میں قومی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو بلا کر پوچھا جائے گا کہ وہ بتائیں کہ آزادی صحافت کیا ہے۔ البتہ انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ ایسے ناپسندیدہ عناصر کی یہ طلبی وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے میڈیا کمیٹی اجلاس میں ہوگی یا انہیں کسی دوسرے طریقے سے بلا کر ’اچھا برا ‘ سمجھانے کی کوشش کی جائے گی۔

کوئی بھی حکومت جب اپنے سیاسی مقصد کو قومی مفاد کا نام دینا شروع کردے تو اس کا واضح مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ آزاد رائے اور خبر کی متحمل ہونے کے لئے تیار نہیں ۔ آمرانہ ادوار میں اس قسم کی گفتگو اور ہتھکنڈے استعمال کرنا معمول ہے لیکن ایک جمہوری حکومت جب قومی مفاد، غیر ملکی ایجنڈا، مخصوص گروہ کے ذاتی مفادات جیسے نعرے استعمال کرتے ہوئے میڈیا کو خود مختار کرنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بات کرتی ہے تو اس سے جمہوریت کی آڑ میں آمریت کی دبی دبی خواہش سر اٹھاتی محسوس ہوتی ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کی یہ خواہش اب اتنی چھپی بھی نہیں رہی۔ اسی لئے آزاد خبر و رائے کو غیر ملکی ایجنڈا اور قومی مفاد پر حملہ قرار دینے کی افسوسناک حکمت عملی پر عمل کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے۔

کسی جمہوری ملک کا میڈیا نہ حکومت کا دشمن ہوتا ہے اور نہ ہی کسی پارٹی اور اس کی سیاست کو قومی مفاد یا مملکت کی ضرورت سمجھنے کی غلطی کرتا ہے۔ میڈیا اور حکومت کی دوستی چند اصولوں کا احترام کرنے کے مشترکہ سمجھوتے کا نام ہوتا ہے۔ حکومت جب بنیادی اصول سے گریز کرنے کی کوشش کرنےلگے تو وہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگتی ہے۔ موجودہ حکومت اسی حکمت عملی پر ہی گامزن ہے۔

نئی میڈیا کمیٹی کسی ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ کا دوستانہ خاتمہ نہیں ہوگا۔ حکومت دراصل میڈیا سے واک اوور دینے کا مطالبہ کررہی ہے۔ حرف کی حرمت پر یقین رکھنے والا کوئی صحافی ایسی کسی کوشش کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali