امریکہ: قدیم امریکی قبائل کی مذہبی رسومات اور مردہ عقاب


عقاب

انتباہ: زیر نظر مضمون میں چند تصاویر ایسی ہو سکتی ہیں جو آپ کی طبعیت پر گراں گزریں

امریکہ کا قومی پرندہ عقاب ہے۔ مگر جب یہ شاندار پرندہ مر جاتا ہے تو امریکہ میں چند لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کا اختتام بھی ان ہی کی طرح شاندار ہو۔

شکار کا شوقین یہ پرندہ امریکہ میں آزادی کے ایک طاقتور نشان کے طور پر جانا جاتا ہے جس کی شبیہ نہ صرف امریکی فوجی جھنڈوں پر موجود ہے بلکہ امریکی کرنسی یعنی ڈالر پر بھی۔

امریکہ میں لوگوں کے لیے عقاب کو زندہ یا مردہ حالت میں رکھنا اور اسے پریشان کرنا غیر قانونی ہے ماسوائے ان مخصوص جگہوں پر جہاں اس قانون میں چھوٹ ہے۔

یہاں تک کہ سنہ 1940 میں بننے والے ’بالڈ اینڈ گولڈن ایگل پروٹیکشن ایکٹ‘ کے تحت کسی عقاب کے جسم سے علیحدہ ہو جانے والے پر یا پنکھ کو اٹھانا بھی خلافِ قانون ہے۔

مگر دوسری جانب ملک میں صدیوں سے آباد مقامی امریکیوں اور الاسکا کے باسیوں کے لیے عقاب ایک مقدس حیثیت رکھتا ہے اور ان قبائل کے ہاں ایک مضبوط ثقافتی روایت ہے جس کے تحت مختلف تقاریب اور رسومات کو مکمل کرنے کے لیے اس پرندے کے جسم کے مختلف حصوں بشمول پنکھ کی ضرورت پڑتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک عقاب جو سب کا موبائل ڈیٹا کھا گیا

ایران کا پراسرار اور قدیم مذہبی فرقہ ’یارسان‘

عرب شکاریوں کا شوق پورا کرنے والے باز کہاں سے آتے ہیں؟

عقاب

اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ’نیشنل ایگل ریپوزیٹری‘ نامی ادارہ سامنے آتا ہے۔

اس ادارے میں روزانہ تقریباً 30 سے 40 مردہ عقاب لائے جاتے ہیں۔ یہ مرکز’یو ایس فش اینڈ وائلڈ لائف سروس‘ کے ماتحت کام کرتا ہے۔ اس مردہ عقابوں کا معائنہ کیا جاتا ہے اور اگلے مرحلے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔

اس مرکز پر موجود چار رکنی ٹیم امریکی ریاست ہوائی کے سوا تمام امریکی ریاستوں سے مردہ پرندوں کو اکھٹا کر کے انھیں ملک کے 573 وفاقی طور پر تسلیم شدہ قبائل میں تقسیم کرتی ہے۔

لیزا رومن اس مرکز پر گذشتہ چھ برسوں سے کام کر رہی ہیں۔ ان کا کام قبائل کی جانب سے مکمل عقاب یا اس کے مخصوص حصوں کو حاصل کرنے کی درخواستیں موصول کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ قبائلی افراد سے مرکز کے تعلقات بہتر رہیں۔

عقاب

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مرکز پر ’ہر ماہ 500 کے لگ بھگ درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔‘

درخواست دہندگان کو یہ ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے کہ وہ وفاق سے تسلیم شدہ قبیلے کے رکن ہیں اور ان کی عمر 18 سال سے زیادہ ہے۔

’اس پروگرام کا آغاز صرف مقامی امریکیوں کی مذہبی رسومات کو مکمل دینے میں مدد فراہم کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔‘

’اپنی درخواست میں وہ پورا عقاب بھی مانگ سکتے ہیں یا چند پنکھ بھی۔ وہ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ انھیں کس عمر اور قسم کا عقاب چاہیے۔‘

رومن نے بتایا کے عقابوں کی چند اقسام دوسروں کے مقابلے میں ملنا کافی مشکل ہوتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بعض اوقات ہم طلب اور رسد میں توازن برقرار رکھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔‘

’اس وقت سب سے زیادہ مانگ گولڈن عقاب کی ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے درخواست دہندہ کو ساڑھے سات سال تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہاں پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر کام کیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ بالڈ عقاب کے لیے انتظار کا وقت صرف دو ماہ تک ہو سکتا ہے۔

ہینلے فراسٹ سینیئر کولوراڈو میں جنوبی انڈین قبائل کے رابطہ کار ہیں۔ وہ ان بہت سے قبائلی عمائدین میں سے ایک ہیں جن پر قبائلی مذہبی رسومات کو پورا کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

ان کا تعلق مااوچی کپوتا قبیلے سے ہے۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ عقاب کے پر انتہائی مقدس ہوتے ہیں اور ان کی روحانی اہمیت ہوتی ہے۔

عقاب

’عقاب عظیم روحانی طاقت کی علامت ہیں۔ عقاب ہماری دعا کو آسمانوں تک لے کر جاتے ہیں کیونکہ یہ واحد پرندہ ہے جس کی آسمان میں بہت بلندی تک رسائی ہے۔ یہ جنت تک دعائیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اس کی آنکھیں بہت دور تک دیکھ سکتی ہیں۔ جب کہ اس کے پر اور پنکھ اس پرندے کو ہر اس جگہ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جہاں وہ جانا چاہتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس کے پروں سے بنائے گئے پنکھوں (مورچھل) میں بیماروں کو شفا دینے اور برکت فراہم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جبکہ اس پرندے کی ہڈیوں کو تراش کر سیٹی بنائی جاتی ہے جو مذہبی رسومات اور عبادات میں استعمال ہوتی ہے۔

’یہ پرندہ بہت بڑے فاصلے طے کرنے اور اونچائی کا سفر کرنے کے قابل ہے، یہ ایسی چیزوں کو دیکھنے میں کامیاب ہے جنھیں ہم نہیں دیکھ سکتے۔ میرے پاس عقاب کے جو پر ہیں وہ سب سے بڑا اعزاز ہیں جو کسی مقامی امریکی کو مل سکتا ہے۔‘

عقاب

یہ کام سرانجام دینے والے مرکز میں کام کرنے والے عملے کا کہنا ہے کہ وہ اپنی نوکری سے بہت خوش ہے کیونکہ اس سے انھیں امریکہ کے قومی پرندے کی حفاظت اور مقامی لوگوں کے لیے اس پرندے کی ثقافتی اہمیت کے بارے میں بہت کچھ سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

رومن کہتی ہیں کہ ’مجھے مختلف ثقافتوں کو جاننا پسند ہے۔ مقامی امریکیوں اور الاسکا میں بسنے والے سب قبائل کی مختلف روایتی تقریبات ہیں اور ان سب کا ایک مقصد ہے۔‘

’عقابوں اور ان قبائل کے ساتھ مل کر کام کرنا آپ پر ایک بالکل نئے نقطہ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔‘

عقاب

اس مرکز کا قیام سنہ 1970 کی دہائی میں وجود میں آیا تھا اور اس کا مقصد مقامی امریکیوں اور الاسکا میں بسنے والے قبائل کی نزدیک عقاب کے پروں کی اہمیت کو ماننا تھا۔

تاہم اس مرکز کو جدیدیت سنہ 1994 میں اس وقت ملی جب اس وقت کے صدر بِل کلنٹن نے ایک میمورنڈم پر دستخط کیے جس کے بعد تمام مرے ہوئے عقابوں کو اس مرکز تک پہنچانا قانونی طور پر ضروری قرار دیا گیا۔

سنہ 1995 میں یہ مرکز اوریگان سے کولوراڈو منتقل کیا گیا اور اب تک یہ یہیں موجود ہے۔

گذشتہ نصف دہائی میں امریکہ میں عقابوں کی آبادی میں کمی دیکھی گئی ہے۔ مگر بالڈ عقاب، جن کا سر اور دُم کے پر سفید ہوتے ہیں، کی آبادی کو محفوظ کرنے کو امریکہ میں کامیابی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سنہ 2007 میں اسے امریکہ کی خطرے سے دوچار پرندوں کی لسٹ سے نکال کر محفوظ پرندہ قرار دیا گیا تھا۔

عقاب

تاہم گولڈن عقاب، جو کہ پہاڑوں کی چوٹیوں یا انتہائی اونچے درختوں پر رہتا ہے، کو اب بھی کئی امریکی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔

سائنس دان لورا ملوری کا کہنا ہے کہ جب بھی وہ کسی پرندے کو اٹھاتی ہیں تو ان کے ذہن میں تین بنیادی باتیں ہوتی ہیں: یہ پرندہ کیسے مرا، جو شخص اس مرے ہوئے عقاب کو حاصل کرنا چاہ رہا ہے کیا وہ اس کو استعمال بھی کر پائے گا اور مرے ہوئے عقاب کا جسم کس حالت میں ہے؟

وہ اس طرح کے سوالات پوچھتی ہیں کیا عقاب کا جسم ان کیڑوں سے پاک ہے جو مرے ہوئے اجسام پر آ جاتے ہیں اور کیا مرے ہوئے پرندے میں غذائی کمی کے آثار تو نہیں ہیں جو اس کی موت کی وجہ بنے۔

اس مرکز پر موجود سٹاف نے مرے ہوئے پرندوں کی جانکاری کے حوالے سے اپنے معیارات تشکیل دے رکھے ہیں۔

عقاب

لورا ملوری نے اس مرکز پر ایک سال قبل کام شروع کیا تھا۔ ابتدا میں انھیں ایک پرندے کو پرکھنے میں 15 منٹ لگتے تھے مگر اب صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔

ان کی نوکری کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ عقاب کے پروں کی نشاندہی کی ماہر بنیں۔

’میں اس قابل ہو چکی ہوں کے دوسرے پرندوں کے پروں کو عقاب کے پروں نہ ملاؤں، اگرچہ وہ عقاب کے پروں جیسے ہی کیوں نہ لگتے ہوں۔ بہت سے لوگ ٹرکی یا گدھ کے پروں کو عقاب کے پر سمجھ بیٹھتے ہیں۔ عقاب کے پر کی پہچان اس کے نچلے حصہ پر موجود چمک سے ہوتی ہے۔‘

عقاب کی مانگ زیادہ ہے مگر سپلائی کم۔ اور اس سے نمٹنے کے لیے بہت سے پروگرام شروع کیے گئے ہیں تاکہ عقاب کی بلیک مارکیٹ، جو کہ امریکہ میں اپنا وجود رکھتی ہے، کو پنپنے نہ دیا جائے۔

فراسٹ سینیئر کہتے ہیں کہ ’چند لوگ ہیں جو پیسے کے لیے عقاب کے جسم کے مختلف اعضا فروخت کرتے ہیں مگر ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جن سے ہم عقاب لے رہے ہیں انھیں ہم جانتے ہوں اور اس چیز کا دستاویزی ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔‘

’اگرچہ اگر ایک غیر مقامی شخص عقاب کے پر لے کر آتا ہے تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اس نے کہاں سے لیے۔‘

گذشتہ ایک دہائی میں کئی قبائل کو زندہ عقاب رکھنے اور قدرتی طور پر ان کے جھڑنے والے پروں کو استعمال کرنے کے لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ ان میں وہ عقاب بھی شامل ہیں جو بیماری یا معذوری کی وجہ سے جنگل میں قدرتی طور پر نہیں رہ سکتے۔

رواں برس اگست میں قبائل سے مشاورت کے بعد وائلڈ لائف سروس نے مرے ہوئے عقابوں پر عائد پابندیوں کو تھوڑا نرم کیا ہے۔

اب وہ قبائل جن کے پاس خصوصی اجازت نامے ہیں وہ مخصوص علاقوں سے ملنے والے عقابوں کے پر اور جسم کے حصے اپنی تحویل میں رکھ سکتے ہیں۔

عقاب

اگرچہ یہ مرکز فی الحالی وفاقی طور پر تسلیم شدہ قبائل کی درخواستیں موصول کرتا ہے مگر اس بات پر بحث جاری ہے کہ کیا قبائلیوں کے علاوہ دوسرے ’مذہبی پیروکاروں‘ کو بھی عقاب کے پر فراہم کیے جانے چاہیں یا نہیں۔

اس حوالے سے یو ایس فش اینڈ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ میں ایک چرچ کے پاسٹر کی جانب سے پیٹیشن بھی دائر کی گئی ہے۔

لورا ملوری کہتی ہیں کہ ’جب آپ ان عقابوں کو دیکھتے ہیں تو یہ درحقیقت آپ کے نقطہ نظر اور سوچ کے انداز کو بدل دیتے ہیں۔ بیشک وہ مردہ حالت میں یہاں تک پہنچتے ہیں مگر انھیں یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ جب وہ یہاں سے جا رہے ہوں گے تو ان کو معلوم ہو گا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔‘

تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp