خدا جنت حسین کو سلامت رکھے


مجھے تو لگا کہ ایک سہمی سی بچی جس کے گرد گھیرا بندھا ہے۔ جسے اس لڑکے کے سامنے اپنے ایمان کا ثبوت دینا پڑ رہا ہے جسے پتا بھی نہیں کہ ایمان ہوتا کیا ہے؟ جس پر دوپٹہ نا پہننے پر یہ لیبل لگایا جا رہا ہے کہ اسے اسلام کا پتا نہیں۔ اس کی عمر کا کافی حصہ اپنی خواب گاہ میں کچھ ایسے خواب دیکھتے گزرا ہوگا کہ، یہ جہاں محنت کشوں کا ہے، عام رواجی طور پر علم بھی برسر روزگار ہونے کے لئے حاصل کیا جاتا ہے۔ لیکن اس جنت نما جنت حسین نے تو دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ ہر ہمارے آدھے سے زائد ذہنوں کو اٹک کی پہاڑیوں کا کڑک نوکیلا پتھر دے مارا ہے جس سے ہمارے آدھے سے زائد لوگ مچل اٹھے ہیں۔

خدا اس معصوم جنت کو سلامت رکھے۔ 73 کا آئین اسے وہ لوگ پڑھا رہے ہیں جس کو بنانے والوں کو نہیں پتا تھا کہ ہم کیوں بنا رہے ہیں۔ اور اس کی قسمیں کھانے والے کئی مرتبہ اس کو روند چکے ہیں اس آئین کو بیچ کر نفع کمانے والے بھی کبھی کبھار اس کو اپنے بوٹوں تلے روند دیتے ہیں۔ اس لڑکے سے میرے خیال سے آپ نے اس کو بہتر پڑھا ہوگا اور مکمل پڑھا ہوگا۔ اس کو تو دماغ ایک خاص سانچے میں ڈالتے وقت یہ ایک بات بتائی گئی ہے جو ہر گلی، چوراہے، سگنل، پل، موڑ، اسپیڈ بریکر، دربار، جامع مسجد کے باہر، عید گاہ کے اطراف میں گاتا پھر رہا ہے۔

حصول علم کی جدوجہد میں جنت حسین نے شاید ایسا باب پڑھ لیا تھا جس میں ریاست کی خوشحالی کے اسباب لکھے ہوں۔ اس معصوم سی لڑکی نے کسی جگہ یہ تو نہیں پڑھ لیا کہ ریاست ماں ہے، ہم سب اس کی اولاد ہیں۔ ریاست پر ہر کسی کا حق ہے خواہ وہ کسی مذہب اور کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ اس نے کہیں یہ بھی پڑھ لیا ہوگا کہ تفرقات مٹا کر اگر ہم ایک مٹھی بن کر ریاست کی خدمت کریں تو شاید ہم اس دنیا میں کچھ شراکت داری کر سکیں جہان ہماری موجودہ وقعت ٹکے برابر بھی نہیں۔

انسانیت کیا ہوتی ہے؟ اس کا علم حاصل کرنے کے لئے پہلے اس ملک میں ایک نیم خواندہ قسم کے چشمہ پہنے بچے سے پوچھنا پڑے گا کہ ہم انسانیت کے کون سے باب پڑھیں؟ کون سے نا پڑھیں؟ انسانیت میں احمدی، شیعہ کسی جگہ آتے بھی ہیں یا نہیں؟ لیکن یہ مشکل ہوجائے گا ایک معصوم بچی جو کتابوں کو کھول کھول کر اسسٹنٹ کمشنر کی سیٹ پر پہنچی ہو۔ جس نے محنت سے ایک ایسا امتحان پاس کیا ہو جس میں بڑے بڑے فیل ہوجاتے ہیں۔ وہ بائیس کروڑ لوگوں میں سے کس کس سے پوچھتی؟ شاید وہ بھول گئی تھی۔

محترمہ آپ کی پسندیدہ شخصیت بھلے عبدالستار ایدھی صاحب ہی ہوں لیکن آپ کو سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت پڑے گی کہ یہاں سکہ کس کا چلتا ہے۔ آپ ایک بوڑھے درویش کی تصویر ذہن میں اور باتیں دل میں تھامے چل رہی ہیں ایسی راہوں پر جہاں قدم قدم پر ایسے بددماغ لوگ ملیں گے جنہیں یہ سروکار نہیں ہے کہ ایک اسسٹنٹ کمشنر کیا ہوتا ہے؟ کتنی مشکل سے بنتا ہے؟ لیکن انہیں اتنا پتا ہے کہ کسی نومولود بچے کے سر میں ایک مخصوص قسم کا لوہے کا سانچہ ڈال دیا جائے، جس سے اس کا دماغ سکڑ جائے اور وہ ایک بدماغ جسم بن جائے جسے عام الفاظ میں شاہ دولا کا چوہا کہتے ہیں۔

جسے جب چاہے آپ کی جو بات بری لگے چاہے آپ بڑے پائے کے لیکچرر ہوں، آپ اسسٹنٹ کمشنر ہوں، آپ سلمان تاثیر ہوں اس نے چھری نکالنی ہے آپ کا سر تن سے جدا کردینا ہے اور اگر قانون کی گردن اتارنے میں بھی وہ شخص کامیاب ہوگیا تو انہی گلیوں میں ہار پہنے گھومے گا جن گلیوں میں آج بھی مشال کا باپ اپنے مشال نما لوگوں کو ڈھونڈ رہا ہے۔ خدا نا کرے جس باپ نے آپ کو پڑھا لکھا کر معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنایا ہے۔ وہی آپ کو ان گلیوں میں ڈھونڈتا پھرے۔

عدل کی تم نہ ہمیں آس دلاؤ کہ یہاں

قتل ہو جاتے ہیں زنجیر ہلانے والے

جس ملک میں عورت کو انسان سمجھنے کے لئے کافی دیر سوچنا پڑتا ہے کہ اگر ہم نے اسے انسان سمجھ لیا تو لوگ کیا کہیں گے؟

جس ستم ظریف ملک میں آج بھی عورت کے گرد رسموں کی ایک زنجیر لپٹی ہے ایسا ایک سانپ اوپر بٹھا دیا ہے جو ان کے خواب، ان کی ہنسی، خوشی، معصومیت تک مسل دیتا ہے۔ اس کا زہر زندگی چھین لیتا ہے۔ اس ریاست کے کھیتوں، پہاڑوں، دریاوں، سبزوں، میدانوں ریگستانوں کو ایک گروہ نے یرغمال بنا کر کہ اس پر بورڈ لگا دیا کہ یہاں انسانیت کا گھسنا منع ہے۔ کسی اختلاف کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہاں سوچ نہیں پنپ سکتی۔ یہاں فکر اور احساس کی طے شدہ حدود ہیں جن سے باپر سوچنا اور محسوس کرنا منع ہے۔

یہاں کس کو جینا ہے، کسے جینے کا حق نہیں، یہ فیصلہ اس وطن عزیر کی گلیوں میں گھومتے گھونچو قسم کے کچھ سنکی لوگوں کو کرنا ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ کافی وقت پہلے ہوا تھا جب Nation لفظ کے مطلب کے ساتھ تاریخی ریپ ہوا۔ خیر ایسی دہائیاں کئی لوگ دیتے گزر گئے اور گئی گزار رہے ہیں۔

میری بہن سے کوئی کہہ دے، عبدالستار ایدھی کی تصویر ڈی پی پر لگا لیں تو ٹھیک ہے۔ رتھ فاؤ کا نام دل پہ ہی لکھا اچھا لگتا ہے۔ اس ریوڑ نما سماج میں کوئی عقل فہم کی بات کرنا کوئی انسانیت کی بات کرنا کوئی معقول بات کرنا گناہ کبیرہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس دھرتی سے رواداری رخصت ہوگئی ہے اب جو بچا ہے وہ بھگتنا ہے اور چپ چاپ اپنی نوکری کریں، یہاں کسی سے نا الجھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا کہ تم درست ہوتے ہوئے بھی سہمی ہوئی تھیں۔ مذہب کو توپ بنانے والے ان لوگوں سے جو اپنی سوروں سے اپنی جہالت کا خراج مانگتے ہیں اور کسی کو نقصان پہنچانے میں دیر نہیں کرتے۔ جو سر تن سے جدا کرنے کے نعرے لگاتے ہیں۔ جنت حسین کے لئے مناسب ہے کہ اپنی گردن بچا کے چلے۔ خدا جنت حسین کو سلامت رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).