یہاں عورت ہونا آسان نہیں ….


جب کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ سمجھ سکتا ہے ایک عورت کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا رہتا ہے تو مجھے حیرت بھی ہوتی ہے اور ہنسی بھی آتی ہے.. جو سمجھنے کا دعوی کریں وہ یقیناً یہ جانتے ہیں کہ کوئی مرد کس حد تک گر سکتا ہے.لیکن مجھ پر یقین کریں کہ شاید آپ کبھی نہیں سمجھ سکتے۔

کوئی پاس سے گزرتے ہوئے آپکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ مس کرے…. اس بہادرانہ کام میں شاید کچھ نینو سیکنڈ بھی نہیں لگتے لیکن دن بھر کی ذہنی اذیت اور کرب آپ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کہیں کسی جگہ اکیلا دیکھ لیں تو سورما صفت ایک منٹ نہیں لگاتے، اپنی پہچان کرانے میں ….

بھرے بازار میں اگر کسی کی دست درازی پہ اس کی سرزنش کی جائے تو لوگ ہمیشہ لڑکی کے نام سے واقعہ یاد رکھتے ہیں کہ فلاں بنت فلاں کے ساتھ فلاں ابن فلاں نے زیادتی کی…کوئی یہ خبر بھی چلایا کرے کہ اس فلاں ابن فلاں نے کسی خاتون کے ساتھ دراز دستی کی کوشش کی تھی۔

لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے اس معاشرے میں جہاں عورت کو کبھی ٹافی سے تشبیہ دی جائے تو کبھی پھول سے، آخر آپ عورت کو انسان کیوں نہیں سمجھ سکتے؟کیوں اسے کبھی مرد بنانے پہ تل جاتے ہیں اور کبھی ٹافی…. عورت ہے نا، اسے عورت کے طور پہ جینے دیں۔ اس کی زندگی کے چیلنج میں آپ جیسے مردانگی کے زعم میں مبتلا نمونوں کو روز بھگتنا لکھا ہے۔ اس کی زندگی کا چیلنج ہر مہینے پانچ سے سات دن حیاتیاتی تحدیدات کے ساتھ روزمرہ کا ہر کام کرنا ہے۔ اس کی زندگی کا چیلنج ایک بچے کو اپنی کوکھ میں پالنا ہے…. جو ایک ذرا سی خراش یا دو ٹانکے لگنے پہ ناز اٹھواتے پھرتے ہیں وہ بیٹھ کے دانشوری جھاڑتے ہیں کہ عورت مرد کا مقابلہ نہیں کر سکتی…. ارے! تم ایک خراش ا ٓنے پر اسپتال کی طرف بھاگنے والے ہمارا مقابلہ کر سکتے ہو؟

ایک صاحبِ عقل اٹھتے ہیں جی عورت کو ایسے جینا چاہیے…. دوسرے صاحبِ علم فرماتے ہیں، ’ ایسے نہیں، ویسے جینا چاہیے‘…. نقار خانے میں تیسری آواز بلند ہوتی ہے ’نہ ایسے ،نہ ویسے، سے جینا ہی کیوں چاہیے ؟ بچے پیدا کرے ، خدمت کرتی کرتی مر جائے….

جہاں ایک ریپ کیس کو ختم کرنے کیلیے اتنا ہی کافی ہے اگر آپ یہ ثابت کر دیں کہ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے، دوست تھے، اب لڑکے سے دوستی کی ہے، تو یہ سب تو ہوگا ہی…. ایسی جگہ پر ہم اس بات کی لڑائی کیا خاک لڑیں کہ شوہر کا بیوی سے زبردستی ہم بستری کرنا بھی ریپ کی ایک قسم ہے…. بیٹے کا افیئر ہو تو سارا خاندان شادی کی تقریب میں ناچتا پھرتا ہے…. بیٹی کے افیئر پہ ناک کٹ جاتی ہے۔

بہت کچھ ایسا ہے جو میں لکھنا چاہتی ہوں۔ بہت کچھ ایسا ہے جو سب بتانا چاہتے ہیں۔ اگر ہر عورت اپنی کہانی لکھے تو یہاں کے سب پردہ نشین ماہ جبینوں سے دور بھاگتے پھریں گے۔ کسی پہ مذہب کی بندش ہے، کسی پہ سماج کی، کہیں رشتوں کی، کہیں خاندان کی…. کہیں فتویٰ بازی ہے تو کہیں رشتوں کی زنجیریں۔ کوئی نہ کوئی نوٹنکی رچائی جاتی رہی ہے۔ اگر کسی کی ہنسیکو مذہب نہیں روک سکتا تو اس کی ہنسی چھین لو، اگر کسی کو روکنا ہے آگے بڑھنے سے تو اس کے پیروں میں رشتوں کی زنجیر ڈال دو۔ اسے اپنی غیرت کہو اور پھر بے غیرتی سے اسے قتل کر دو…. دوستی کا دعوی کرو اور پھر موقع ملتے ہی ثابت کر دو کہ تم بھروسے کے قابل نہیں ہو۔ مردانگی کے زعم میں مبتلا بہت سے انفاس مطہرہ کے لئے دکھ کی خبر بس یہی ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود ہم سب جینے کی کوشش کر رہے ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
25 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments