لاہور کا شاہی دورہ: سیاحوں کی حضوری باغ، عالمگیری دروازے اور شیش محل آمد پر ’مغلیہ پروٹوکول‘


لاہور کا شاہی دورہ

ہفتے کی شام ڈھلتے ہی پرانے لاہور کا ایک حصہ سنہری روشنیوں سے جگمگانے لگتا ہے۔

رنگ برنگے برقی قمقموں سے روشن فوڈ سٹریٹ سے جڑے روشنائی گیٹ کے سامنے شام چھ بجے ہی لوگ جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ان لوگوں میں زیادہ تر غیر ملکی ہیں مگر آج یہ لوگ یہاں سیاح نہیں ہیں بلکہ شاہی مہمان ہیں جو شاہی قلعے کے اس بڑے سے دروازے کے باہر بادشاہ سے ایک ساتھ ملنے کے لیے اجازت کے طلبگار ہیں۔

مہمانوں نے آج مغلیہ دور حکومت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے۔

میں بھی ان لوگوں کے ساتھ ذوق دید میں برابر کی حصہ دار تھی اور مغلیہ شان و شوکت کو دیکھنے مقررہ وقت سے کچھ دیر پہلے ہی پہنچ گئی۔

یہ بھی پڑھیے

شاہی قلعے کا زیرِ زمین حمام اکبری دور کی پہلی یادگار؟

شہزادی جہاں آرا اور شاہ جہاں کے تعلقات متنازع کیوں بنے؟

میانمار: مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے عرس کی تقریبات

’زِم‘ صحافت میں گمنام کیوں رہے؟

قلعے کے دروازے کے باہر لگے سٹالوں کے قریب تمام مہمانوں کے گلے میں کارڈز پہنا دیے گئے۔ مقررہ وقت سے کچھ پہلے سیاہ لباس میں ملبوس ایک شخص نمودار ہوا۔

یہ جاوید لاہوری ہیں۔ اپنے دلچسپ طریقہ تخاطب اور کہانی گوئی کے پیش نظر انھیں والڈ سٹی اتھارٹی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ جاوید 1992 سے ٹور گائیڈنگ کر رہے ہیں اور محکمہ آرکیالوجی کے بھی گائیڈ رہ چکے ہیں۔ والڈ سٹی کے متعلق ان کے پاس کافی علم بھی ہے۔

شاہی قلعے میں داخلے سے قبل سینیئر گائیڈ نے شرکا کو قلعے اور روشنائی گیٹ کے متعلق کچھ اہم معلومات دیں۔

’اس دروازے پر ہر وقت روشنی ہوا کرتی تھی۔ دربان یہاں بڑے بڑے دیے جلایا کرتے تھے۔ پرانے لاہور کا یہ واحد دروازہ تھا جو سورج غروب ہونے کے بعد بھی کھلا رہتا تھا۔ یہاں پہلے پہل دریا بہا کرتا تھا اور کشتیوں پر سوار لوگ آتے تھے۔‘

روشنائی گیٹ

گائیڈ کے مطابق ‘اس دروازے پر ہر وقت روشنی ہوا کرتی تھی‘

روشنائی گیٹ کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاہی لوگ یہاں سے داخل ہوا کرتے تھے۔

اسی دروازے سے کے ساتھ ہی شاہی محلہ بھی تھا جہاں بادشاہوں کی کنیزیں رہا کرتی تھیں۔ یہ کنیزیں شاہی بچوں کی تربیت بھی کیا کرتی تھیں اور ان کو آداب سکھایا کرتی تھیں۔

مہمانوں کو بتایا گیا کہ جس جگہ کو وہ دیکھنے جا رہے ہیں، وہاں 400 سال پہلے مغل بادشاہ رہا کرتے تھے۔

دو گھنٹوں پر مشتمل ان کا یہ سفر انھیں مغلیہ دور حکومت میں لے جائے گا۔

لاہور کا شاہی دورہ

تاریخ کے سفر کا آغاز

مغلیہ دور کی جانب سفر کا آغاز انتہائی ڈرامائی انداز سے ہوا۔ گائیڈ نے بڑے سے مضبوط دروازے کے باہر لگائی گئی مغلیہ طرز کی پیتل کی گھنٹی بجائی۔ جواب میں اسی دروازے کے ساتھ لٹکے ریڈیو سے ایک بارعب اور بھاری بھر کم آواز ابھری جس نے قلعے میں آمد کا سبب دریافت کیا۔ دربان اور گائیڈ کے درمیان آپس میں دلچسپ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

شاہی مہمان بھی اس دلچسپ مکالمے سے محظوظ ہوئے۔ اتنے میں ایک دربان گیٹ سے باہر آیا اور قافلے کی علامتی تلاشی لینے لگا کہ کہیں کسی نے کوئی خنجر یا تلوار تو کپڑوں میں چھپا تو نہیں رکھی۔

تلاشی کے بعد قافلے کو قلعے میں داخلے کی اجازت مل جاتی ہے۔

لاہور کا شاہی دورہ

روشنیوں کا جہاں

روشنائی گیٹ کا بڑا سا دروازہ کھلتے ہی محسوس ہوا کہ میں کسی سنہری دنیا میں آچکی ہوں۔ سامنے کا منظر فسوں خیز تھا۔ قلعے کی دیوار میں بنائے گئے حجرے سنہری روشنی بکھیر رہے تھے۔ میرے پیچھے قافلے کے تمام افراد اک ایک کر کے قلعے میں داخل ہوتے گئے۔ قلعے کی اندرونی روشنیاں مہمانوں کی نگاہوں کو روشن کرنےکی منتظرتھیں۔

اندرونی حصے میں داخل ہوتے ہی دو مشعل بردار دربانوں نے ہمارا استقبال کیا۔

ان دربانوں نے ہاتھوں میں الیکٹرانک شمیں تھام رکھیں تھیں۔ بدن پر فراک نما سفید شاہی لباس تھا اور سر پر دربانی ٹوپی سجا رکھی تھی۔ شاہانہ درباری انداز سے ایک ہاتھ میں شمع باندھے وہ شمع بردار ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔

قلعے کے صحن میں حجرے بنائے گئے تھے جو بہت روشن اور چمکدار تھے۔ سیاح ان مناظر کو اپنے کیمروں میں بھی محفوظ بناتے گئے۔

سفر کے آغاز میں ہی علامہ اقبال کا مزار بھی آن پہنچا۔ مہمان خاص طور پر بچے باہر جوتے اتار کر اقبال کے مزار میں داخل ہو گئے۔ مل کر فاتحہ خوانی کی، اور باہر آتے ہی بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کی جانب بڑھنے لگے۔

پہلا پڑاؤ: حضوری باغ

حضوری باغ

حضوری باغ

شاہی مہمانوں کے اس قافلے کا سب سے پہلا پڑاؤ حضوری باغ تھا۔ گائیڈ مہمانوں کو حضوری باغ لے گئے اور اس کی تاریخ بتانے لگے۔

‘حضوری باغ سکھ دور می بنایا گیا۔ 1818 میں اسے راجہ رنجیت سنگھ نے بنوایا تھا۔ رنجیت سنگھ نے اپنے لیے خاص طور پر یہ بارہ دری بنائی اور اس کے ارد گر ایک باغ بنوایا۔

باغ کا نام حضوری باغ گرودوارہ حضور صاحب کے نام پر رکھا گیا تھا جو انڈیا کی ریاست مہاراشٹرا میں واقع ہے۔

بارہ دری کے متعلق مختلف حکایات ہیں جن کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کوہ نور ہیرے کے ملنے پر اسی بارہ دری میں جشن منایا تھا۔ حضوری باغ کی یہ بارہ دری اپنے خوبصورت سنگ مرمر کی وجہ سے ممتاز ہے۔

کچھ تاریخ دانوں کے مطابق راجا رنجیت سنگھ نے خلیفہ نورالدین کو مغل مزارات، محلوں اور مساجد سے سنگ مرمر نوچ کر بارہ دری بنانے کا حکم دیا تھا۔

لاہور کا شاہی دورہ

بارہ دری سے اوپر چوبارہ تھا جو کچھ لوگوں کے مطابق 1929 اور کچھ کے مطابق 1932 میں آسمانی بجلی گرنے سے تباہ ہوگیا لیکن بارہ دری اور حضوری باغ آج بھی قائم ہے۔

یہ راجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی کے بعد لاہور میں سکھ دور کی واحد علامت ہے۔ رنجیت سنگھ اس میں اپنی عدالت لگایا کرتے تھے۔

بارہ دری کے پچھلے حصے میں سنگ مرمر کے تخت پر بیٹھے شاہی بانسری نواز کی بانسری کی دھنیں پورے باغ کو اپنے سحر میں لیتی محسوس ہوئیں۔

مہمان پہلے تو سر دھنتے رہے پھر بعد ازاں ‘مغلِ اعظم’ فلم کے گیتوں کو بانسری پر بجانے کی فرمائش بھی کرتے رہے۔ بانسری نواز مہمانوں کے من پسند نغموں پر بانسری نجاتا رہا۔

حضوری باغ کی روشنیوں سے جڑی سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے قافلہ عالمگیری دروازے تک جا پہنچا۔

عالمگیری دروازہ

لاہور کا شاہی دورہ

عالمگیری دروازہ

گائیڈ بتانے لگے کہ عالمگیری دروازہ اورنگ زیب عالمگیر نے سنہ 1674 میں بنوایا تھا۔

’عالمگیری دروازے پر پہلے ایک پرانا دروازہ تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر نے اس پرانے دروازے کو ہٹوا کر اس کی جگہ ایک نیا اور بڑا دروازہ بنوایا۔ یہ دروازہ بادشاہی مسجد کے بالکل مخالف سمت میں واقع ہے۔‘

اس کے بائیں جانب فوارے لگائے گئے تھے۔ ابتدا میں اس کی حالت ناقص تھی تاہم یو ایس ایمبیسڈر فنڈ سے اس دروازے کو بحال کیا گیا۔

اس سے قبل 50 روپے کے نوٹ پر عالمگیری دروازے کی تصویر بنائی گئی تھی۔

50 روپے نوٹ، عالمگیری دروازہ

50 روپے کے نوٹ پر عالمگیری دروازے کی تصویر ہوا کرتی تھی

کہا جاتا ہے کہ عالمگیری دروازے سے فوجی دستے آتے جاتے تھے۔

اندھیرے میں اس عظیم الشان دروازے کو دیکھ کر مجھے مغل حکمرانوں کے ذوق اور شوق پر رشک آنے لگا۔ جاوید لاہوری کے مطابق قلعے میں کل اکیس عمارتیں ہیں جو کہ 107 سال میں مکمل کی گئی تھیں۔

عالمگیری دروازے کے بالکل سامنے رنگیلے رکشوں کی ایک لمبی لائن شاہی مہمانوں کا انتظار کرتی ہے۔

جیسے ہی تمام مہمان رکشوں میں بیٹھے، اس شاہی سواری نے قلعے کے اندرونی حصے کی جانب سفر کا آغاز کر دیا۔

دیوار مصور

مغلیہ پروٹوکول کے ساتھ قطار میں چلتے رنگیلے رکشے شاہی رتھ سے کم محسوس نہ ہوتے۔ ان پر سوار ہونے کے بعد ہماری پہلی منزل دیوار مصور تھی۔

دیوار مصور شاہی قلعے کا عظیم شاہکار ہے جس کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ جہانگیر کے دور سے بننا شروع ہوئی تھی اور شاہ جہاں کے دور میں سنہ 1632 میں مکمل ہوئی۔

لاہور کا شاہی دورہ

مغلیہ پروٹوکول کے ساتھ قطار میں چلتے رنگیلے رکشے شاہی رتھ سے کم محسوس نہیں ہوتے

آغا خان کلچرل ٹرسٹ کے مطابق یہ دیوار دنیا کی ایسی سب سے بڑی دیوار ہے جس پر کاشی کاری کی گئی ہو۔ والڈ سٹی اتھارٹی کے مطابق یہ دیوار 17 میٹر بلند اور 460 میٹر لمبی ہے۔

اس دیوارکی ایک خاص بات اس پر بنائی گئی تصاویر ہیں۔ ان تصاویر کی تعداد 116 ہے اور ان پر کاشی کاری کی گئی ہے۔ ان میں مغل دور حکومت کی منظر کشی کی گئی ہے۔ ان تصاویر میں مغلوں کے طرز زندگی، ان کے مشاغل، کھیل اور رہن سہن سب واضح ہیں۔

اس کے علاوہ اس دیوار کی بالائی جانب پرندوں کے لیے چھوٹے چھوٹے سوراخ بھی بنائے گئے ہیں۔ ان میں آج بھی پرندے رہائش پذیر ہیں۔

اس دیوار کا افتتاح تقریباً چار ماہ قبل وزیر اعظم عمران خان نے کیا تھا۔ آغا کلچرل ٹرسٹ کے اشتراک سے اس کا مغربی حصہ بحال کیا جاچکا ہے۔ اور شمالی حصے کی تزئین و آرائش اور بحالی ابھی جاری ہے۔

والڈ سٹی اتھارٹی کے مطابق اس دیوار کو بارشوں سے بہت نقصان پہنچا ہے۔ انگریزوں کے دور میں قلعے کی چھتوں پر بچھائے گئے پائپوں سے پانی نے اس دیوار کو بہت متاثر کیا۔ بعد ازاں والڈ سٹی اتھارٹی نے اس کی بحالی کے ساتھ ہی دیوار کے ساتھ پانچ سے دس فٹ گہری جگہ کھود کر پانی جذب کرنے والے کنویں بنائے ہیں۔

اس طرح دیوار پر پڑنے والا بارش کا پانی گہرے نالوں کے ذریعے ان کنوؤں میں آکر خشک ہو جاتا ہے۔

مہمانوں نے دیوار مصور کے سامنے تصاویر بنوائیں اور اپنی اگلی منزل کی جانب بڑھنے لگے۔ راستے میں جگ مگ کرتا بارود خانہ بھی آیا اور شاہی باورچی خانہ بھی۔ ان دونوں کو والڈ سٹی نے ماضی قریب میں بحال کیا تھا۔

شیش محل

اس کے بعد رکشوں نے شیش محل کا رخ کیا۔

شیش محل

شاہی مہمانوں کا قافلہ بالآخر بادشاہ کے دربار کے سامنے جا پہنچا۔ بادشاہ کے درباریوں نے بتایا کہ بادشاہ شیش محل میں قیام پذیر ہیں اور رقص و سرود کی محفل شروع ہوئی چاہتی ہے۔

مہمانوں نے بیرونی دروازے سے ہی دربار میں داخلے کی خواہش ظاہر کی۔

بادشاہ کے دربانوں نے محل میں جانے کی اجازت دے دی، چوبداروں نے نیزے ہٹائے اور دروازے کھل گئے۔ محل کے صحن میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا منظر درباریوں کا آداب کہہ کر خوش آمدید کہنا تھا۔

شیش محل کی اندرونی عمارت میں پہنچے تو سارے محل کا صحن شمعوں سے سجا دکھائی دیا۔ شیش محل میں جلتی روشنیوں سے چمکتے شیشے آنکھیں خیرہ کرنے لگے۔

شیش محل

گائیڈ کے مطابق شیش محل میں لگائے گئے شیشوں میں سے زیادہ تر ملک شام کے شہر الیپو سے منگوائے گئے ہیں

قلعے کے اس حصے میں عوام کا داخلہ ممنوع ہے مگر ہفتے کی رات بادشاہ کے خاص مہمانوں کو یہاں آنے کی اجازت مل جاتی ہے۔

گائیڈ نے سیاحوں کو شیش محل کا تعارف بھی کروایا: ’یہ دنیا کا سب سے بڑا شیش محل ہے۔ اسے آئینہ گھر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پر لگائے گئے شیشوں میں سے زیادہ تر ملک شام کے شہر الیپو سے منگوائے گئے ہیں۔ یہ شیشے ساخت کے اعتبار سے دو طرح کے ہیں، کنکیو اور کنویکس لینز۔ یعنی کچھ شیشے باہر جانب مڑتے ہیں اور کچھ اندر کی جانب مڑے ہوئے ہیں۔‘

شیش محل کی دیواروں میں فریسکو پینٹنگ کی گئی ہے۔ بعض حکایات کے مطابق یہ مصوری سکھ دور میں کی گئی ہے۔ 2005 میں ناروے کی ایمبیسی نے شیش محل کا کچھ حصہ بحال کیا تھا۔

شیش محل کی چھتوں پر لگے شیشے انتہائی منفرد ہیں۔ شیشے پر جب روشنی منعکس ہوتی ہے تو عمارت کے اندرونی حصے میں انعکاس کی وجہ سے بلوری چمک پیدا ہوتی ہے۔

لاہور کا شاہی دورہ

گائیڈ کے مطابق اس عمارت کو سفید سنگ مرمر، راستوں کو پیتری دورا جبکہ تمام اندرون عمارت کو شیشے کی مدد سے انتہائی نفاست سے سجایا گیا ہے۔ اس عمارت کے مرکزی حصے تک صرف شاہی خاندان اور ان کے قریبی عزیزوں اور احباب کی رسائی تھی۔

جگمگاتے ستاروں میں گائیڈ کی آواز طلسماتی محسوس ہو رہی تھی۔ پھر شیش محل کے ایسے کمرے میں لے جایا گیا جہاں موبائل کی ٹارچ چھت پر ڈالنے سے یوں لگتا ہے جیسے آسمان سے ستارے زمین پر اتر آئے ہوں۔

’یہ شیش محل شاہ جہاں نے ارجمند بانو کے لیے تعمیر کروایا تھا جو ممتازبانو کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ یہ شاہ جہاں کی بہت چہیتی بیوی تھیں۔ مگر بدقسمتی سے شیش محل کی تکمیل پر ان کا انتقال ہو گیا۔‘

’یہ تاریخ کا ایک غم ناک پہلو بھی ہے کہ شیش محل بنا کسی کے لیے تھا اور اس میں رہنا کسی کو نصیب ہوا۔ اور سکھ دور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بیوی رانی جندہ کے حصے میں یہ محل آیا۔‘

شیش محل کو قلعہ لاہور کے ساتھ ہی 1981 میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

تمام لوگ یہ معلومات انتہائی دلچسپی سے سنتے رہے ۔

شیش محل کے وسطی احاطہ میں بنے تالاب کے درمیان سنگ مرمر کا ایک کشادہ تخت بنا ہے۔ اس تخت کے بالکل سامنے فرش پر قالین اور گاؤ تکیے بچھائے گئے تھے۔ تمام گائیڈز اپنے گروہوں کے ساتھ مل کر محل کے احاطے میں پہنچے اور قالین پر براجمان ہوگئے۔ بچے بھی خود کو شاہانہ محسوس کر رہے تھے۔

مغلیہ کتھک پرفارمنس

اچانک اعلان ہوا اور بادشاہ شیش محل کے مرکزی ہال کے وسط میں نمودار ہوئے۔ اور چمچماتے فرش پر پڑے قالین اور گاؤ تکیوں پر شاہانہ انداز سے براجمان ہو گئے۔

جاوید لاہوری نے محل میں موجود تمام مہمانوں کو خاموشی کا اشارہ کیا اور بادشاہ کے لیے کتھک پرفارمنس کا اعلان کیا۔

ماحول میں ایک دم طبلے پر تھاپ اور سازندوں کے ساز کی آوازیں مچلنے لگی۔ صحن کے سامنے حجروں میں سے شاہی کتھک پرفارمرز گھنگھرو باندھے اچانک نمودار ہوئے اور صحن کے سامنے بنے چبوترے نما تخت پر چھچھناتے گھنگھروں کے ساتھ پرفارم کرنے لگے۔ طبلے کی ردم پر گھنگروں کی فرش پر چوٹ نے ماحول کو دو آتشہ کر دیا۔

اسی دوران درباری مہمان نوازی نبھاتے ہوئے طشتریاں تھامے صحن میں داخل ہوئے۔ ان طشتریوں میں مختلف انواع کے خشک میوہ جات تھے۔ اس کے علاوہ شاہی مشروب بھی تمام مہمانوں میں تقسیم کیا گیا۔ بچے بڑے، بوڑھے جوان، ملکی اور غیر ملکی سب ماحول سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

اتنے میں رقص ختم ہوا۔ شاہی رقاص واپس کوٹھریوں کی جانب لوٹ گئے اور اچانک ’تخلیہ‘ کی آواز فضا میں گونجی۔ بادشاہ نے دربار کے اختتام کا اعلان کیا اور واپس اپنی آرام گاہ کی جانب لوٹ گئے۔

اور یہیں ہمارے سفر کا بھی اختتام ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp