انڈیا میں شہریت کا متنازع قانون: پنجاب اور مغربی بنگال سمیت پانچ ریاستوں کا نئے قانون کے نفاذ سے انکار


انڈیا میں شہریت کا ترمیمی بل دونوں ایوانوں اور انڈین صدر رام ناتھ کووند سے منطوری کے بعد اب نیا قانون بن چکا ہے لیکن خبررساں ادارے اے این آئی کے مطابق پنجاب اور مغربی بنگال سمیت پانچ ریاستوں کے وزرائے اعلی نے کہا ہے کہ وہ اس متنازع قانون کو اپنی ریاست میں نافذ نہیں ہونے دیں گے۔

آئینی طور پر اس کا اطلاق پورے ملک میں ہوتا ہے لیکن اس کے خالف ملک بھر میں پر تشدد مظاہرے ہوئے ہیں اور بہت سے لوگوں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔

ریاست پنجاب اور کیرالہ کے وزرائے اعلی کے بعد اب مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے بھی کہا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں شہریت کے قانون کی اجازت نہیں دیں گی۔ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپش بگھیل اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی کمل ناتھ نے بھی اس کے نفاذ کے حامی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

شہریت کا متنازع ترمیمی بل، انڈیا بھر میں مظاہرے

شہریت کا قانون : انڈیا کے ہندو ہی ہندوؤں کے مخالف کیوں؟

انڈیا:مشرقی ریاستوں میں پناہ گزیں مخالف مظاہرے

مر جاؤں گا لیکن معافی نہیں مانگوں گا،راہل گاندھی

مغربی بنگال میں برسر اقتدار ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی نے جمعہ کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’انڈیا ایک جمہوری ملک ہے اور کوئی بھی پارٹی اس کی نوعیت کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ ہماری ریاست میں کسی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی آپ کو باہر نہیں نکال سکتاہے۔ میری ریاست میں کوئی بھی اس قانون کو نافذ نہیں کرسکتا۔‘

https://twitter.com/ANI/status/1205427604901154816

ممتا بنرجی سے قبل وزیر اعلی پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’کوئی بھی قانون جو لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے وہ غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے۔ انڈیا کی طاقت اس کے تنوع میں ہے اور شہریت ترمیمی قانون اس کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ لہذا، میری حکومت پنجاب میں اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دے گی۔‘

جبکہ کیرالہ کے وزیر اعلی پنرائی وجین نے بھی ٹویٹ کیا کہ شہریت ترمیمی بل غیر آئینی ہے اور کہا ہے کہ وہ ریاست میں اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔

انھوں نے ٹویٹ کیا کہ مرکزی حکومت انڈیا کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ مساوات اور سیکولرزم کو ختم کر دے گی۔

https://twitter.com/capt_amarinder/status/1205147984918241280

انھوں نے لکھا کہ ’مذہب کی بنیاد پر شہریت کا تعین کرنا آئین کو مسترد کرنا ہے۔ اس سے ہمارا ملک بہت پیچھے رہ جائے گا۔ بہت جدوجہد کے بعد ملنے والی آزادی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔‘

انگریزی کے روزنامہ ’دی ہندو‘ کے مطابق انھوں نے کہا کہ اسلام کے خلاف امتیازی سلوک کرنے والے اور فرقہ وارانہ طور پر پولرائز کرنے والے قانون کی کیرالہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

اس کے علاوہ دو دیگر ریاستیں جن کے وزرائے اعلی نے اس پر بیان دیا ہے وہ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں کانگریس کی حکومتیں ہیں۔

چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپش بگھیل اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی کمل ناتھ نے کہا ہے کہ وہ اس قانون سے متعلق کانگریس پارٹی کے فیصلے کے منتظر ہیں۔

انڈیا

ان کے علاوہ بہار کے وزیر اعلی نے شہریت کے بل پر تو کچھ نہیں کہا ہے لیکن انھوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن) نہیں ہونے دیں گے۔

کیا ریاستی حکومتیں یہ کام کرسکتی ہیں؟

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاستی حکومتیں شہریت کے ترمیم شدہ قانون کو نافذ کرنے سے انکار کرسکتی ہیں؟ آئین کیا کہتا ہے؟ اور مخالفت کرنے والے کیا اختیارات رکھتے ہیں؟

شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کی آواز اب تک ان ریاستوں سے اٹھی ہے جہاں حمکراں جماعت بی جے پی کو حمایت حاصل نہیں ہے۔ ملک کی 29 ریاستوں میں سے 16 میں فی الحال بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کی حکومتیں ہیں۔

یعنی 13 ریاستوں میں بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کی حکومتیں نہیں ہیں۔ کیا یہ ریاستیں اگر چاہیں تو شہریت ترمیم کے قانون کو نافذ کرنے سے انکار کرسکتی ہیں؟

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے۔

آئینی امور کے ماہر چنچل کمار کا کہنا ہے کہ ’صدر رام ناتھ کووند نے جمعرات کو شہریت کے ترمیمی بل 2019 پر اپنی مہر لگا کر اسے قانون بنا دیا ہے۔ سرکاری گزٹ میں اشاعت کے ساتھ ہی یہ قانون بھی نافذ ہو گیا ہے۔ اب چونکہ یہ قانون آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت یونین لسٹ میں آتا ہے لہذا یہ ترمیم تمام ریاستوں پر نافذ العمل ہے اور ریاستیں چاہیں تو بھی اس پر زیادہ کچھ نہیں کرسکتی ہیں۔‘

وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آئین کے ساتویں شیڈول میں ریاستوں اور مرکز کے حقوق کی وضاحت کی گئی ہے۔ شہریت کا معاملہ یونین کی فہرست کے تحت آتا ہے۔ لہذا ریاستی حکومتوں کا اس پر کوئی زور نہیں۔‘

یہی مرکزی حکومت کا بھی کہنا ہے کہ ریاست کے پاس ایسا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ مرکز کی فہرست میں آنے والے معاملے ’شہریت‘ پر کوئی فیصلہ کرے۔

وزارت داخلہ کے ایک اعلی عہدیدار کے مطابق ریاستیں مرکزی فہرست میں آنے والے مضامین کے تحت بنائے گئے قانون کو نافذ کرنے سے انکار نہیں کرسکتی ہیں۔

اس کی مخالفت کرنے والوں کے پاس کیا متبادل ہیں؟

اگر ریاستی حکومتیں اس قانون کے خلاف نہیں جاسکتی ہیں تو پھر مخالفت کرنے والوں کو کیا اختیارات حاصل ہیں؟ کیا اس قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے؟

چنچل کمار کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ریاستی حکومت ادارہ یا ٹرسٹ اس قانون پر سوال نہیں کرسکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ شہریت کا ہے اور کسی فرد کو شہریت دی جاتی ہے لہذا صرف وہ اس کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے۔ کوئی بھی اسے چیلنج کرنے عدالت میں جا سکتا ہے۔

قانونی امور کے ماہر فیضان مصطفی نے بی بی سی کو بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت ریاست شہریوں اور غیر شہریوں دونوں کو قانون کے تحت مساوی حقوق کے تحفظ سے انکار نہیں کرے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’آئین مذہب کی بنیاد پر کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک اور درجہ بندی کو غیر قانونی سمجھتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے مہاجر مسلمان بھی آرٹیکل 14 کے تحت محفوظ ہیں۔ اس میں اسلام اور یہودی مذہب کے ماننے والوں کو چھوڑنا آئین کی اصل روح کے خلاف ہے۔ یعنی ایک شخص اس کے خلاف عدالت میں جاسکتا ہے اور اسے وہاں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ قانون کس طرح آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرسکتا ہے۔‘

سپریم کورٹ

اب تک عدالت میں کون پہنچا ہے؟

راجیہ سبھا میں شہریت کے ترمیمی بل کی منظوری سے قبل ہی انڈین یونین مسلم لیگ اسے چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ پہنچی۔

قانون کے نفاذ کے بعد جن ادھیکار پارٹی کے جنرل سکریٹری فیض احمد نے بھی جمعہ کو ایک درخواست دائر کی ہے۔

اس کے علاوہ پیس پارٹی نے بھی سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی کرتا ہے اور یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے یا تجویز کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر شہریت نہیں دی جاسکتی۔

https://twitter.com/ANI/status/1204966248800407554

اسی طرح وکیل احتشام ہاشمی، صحافی ضیاء السلام اور قانون کے طلبہ منیب احمد خان، اپوروا جین اور عادل طالب بھی سپریم کورٹ گئے ہیں۔

اپنی درخواست میں انھوں نے اس قانون کو غیر آئینی ہونے کی حیثیت سے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ یہ قانون مذہب اور مساوات کی بنیاد پر امتیاز برتا ہے اور سپریم کورٹ کو مسلم برادری کی جان، ذاتی آزادی اور وقار کا تحفظ کرنا چاہیے۔

جمعہ کے روز ترنمول کانگریس کی رہنما مہوا موئترا نے بھی اس ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

اپنی درخواست میں موئترا نے کہا ہے کہ اس قانون کے تحت مسلمانوں کو خارج کرنا امتیازی سلوک کی عکاسی کرتا ہے لہذا اس سے آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قانون ہمارے آئین کی بنیادی شکل سیکولرازم کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔ لیکن عدالت میں ان درخواستوں کا کیا ہو گا؟ کیا وہ یہ ثابت کرسکیں گے کہ یہ آئین کی بنیادی شکل کے خلاف ہے؟

مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ جو شخص اس کو للکارے گا اس پر یہ ثابت کرنے کا بوجھ پڑے گا کہ وہ اسے اور کیسے بتاتے ہیں کہ یہ غیر آئینی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات اکثر آئینی بنچ کے پاس جاتے ہیں اور بہت سے معاملات پہلے ہی بنچ کے پاس زیرالتوا ہیں جس کی وجہ سے جلد سماعت نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp