ہاں میں ایک وکیل ہوں، کیا سارا قصور ہمارا ہے؟


جی ہاں! یہ وہ وکیل صاحب ہیں جن کے بارے میں تین دن سے بیوقوف بندروں کا ایک لشکر جگت بازی کر رہا ہے کہ یہ اندر ٹھیک ٹھاک گئے مگر پھر وہیل چئیر پر مریض بن کر بیٹھ گئے تاکہ گرفتاری سے بچ سکیں۔

اطلاعات یہ ہیں کہ ان کو پولیس اور میڈیکل سٹاف نے آہنی راڈز سے مارا اور جب ان کی حالت غیر ہو گئی تو ان کو وہیل چیئر پر بٹھا کر کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ ابھی تک یہ لا پتہ ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کی موت ہو چکی ہے (اللہ نہ کرے)

اب سوال ہے کہ اگر یہ سچ ثابت ہوا تو اللہ نہ کرے آگے کیا ہو گا۔

اور بہت سے وہ وکیل حضرات جن کی ٹانگیں، بازو اور ہڈیاں توڑی گئی ہیں اس ڈاکٹر پولیس گٹھ جوڑ میں اس کی کوئی توجیح؟

اور وہ جن کو ننگے پیر زخمی حالت اور ٹوٹی پھوٹی ہڈیوں کے ساتھ دہشت گردوں کی طرح سیاہ غلاف پہنا کر کورٹ میں پیش کیا گیا ان پر کوئی انسانی حقوق لاگو نہیں ہوتے؟

وہ جن کو راستوں میں اور گھروں سے اٹھایا جا رہا ہے ان کا قصور؟

اور یہ میڈیا جتنا اشتعال انگیز اور فسادی کردار ادا کر ہے اس سے کیا نفرتیں کم ہو رہی ہیں؟ اگر اس اشتعال انگیزی میں لوگ کسی بھی وکیل کوپکڑ کر مار دیتے ہیں تو ذمہ دار کون؟ یہ میڈیا چینلز تو اپنا روپیہ پیسہ کھرا کر رہے ہیں یہ نفرت انگیزی کا منجن بیچ کر۔ اس کا بھگتان ہم سب نے اور عوام نے بھگتنا ہے۔

میں کہتی ہو اس قوم کے صاحب عقل لوگ کہاں گئے ہیں جن کو یہ کھلی جارحیت، بربریت اور زیادتی نظر نہیں آرہی۔ جن کو یہ امتیازی انصاف و میڈیا ٹرائل نظر نہیں آ رہا۔

کوئی چند لوگوں کے فعل کہ سزا پورے طبقے کو کیسے دے سکتا ہے؟ اور اگر یہ طے کر ہی لیا گیا ہے کہ وکیل اس حاجیوں کے دیس کا سب سے فسادی اور قابل نفرت طبقہ ہے اور ان کی ہتک عزت اور ان کی ذلالت آپ سب کا من پسند مشغلہ ٹھہرا ہے تو پھر یہ بھی طے کر لیجیے کہ آپ اس طبقے کی طرف سے کسی ہمدردی اور اچھے سلوک کی توقع بھی نہیں کریں گے کبھی؟ چاہے سارے اس وکیل اس شور شرابہ میں شامل تھے یا نہیں۔ جب میڈیا اور سوشل میڈیا ٹرائل کے ذریعے ہم سب پر فرد جرم عائد کی جا چکی تو پھر ہم سے خیر کہ توقع کس بات کی۔ ہم سے یہ توقع کس بات کی کہ ہم کسی کے حق پر بات کریں۔

جب ہمارے بھائیوں پر جانوروں سے بھی بدتر تشدد کو جائز قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں اور سڑکوں سے بذریعہ پولیس اغوا اور پھر غائب کیے جانے کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے اور کچھ ناعاقبت اندیش اس پر واہ واہ کر رہے ہیں اور ٹھٹا مار رہے ہیں۔ اور جب وکلاء کو بدترین پولیس تشدد کا نشانہ بنانے پر کہا جا رہا ہے کہ پولیس نے تنخواہ حلال کر دی اج تو پھر؟

اور جب تشدد زدہ زخمی وکلا کو دہشت گردوں سے بھی بدتر حالت میں عدالتوں ہیں پیش کیا جا رہا ہے تو پھر وکلاء سے خیر کی امید کیسے کر سکتا ہے کوئی۔ کوئی یہ توقع بھی کیسے کر سکتا ہے کہ پر امن وکیل، پر تشدد وکیل نام کی کوئی تفریق یہاں قائم رہے گی۔ یقین کیجیے بحثیت کمیونٹی اس بد ترین اور ذلت سے بھرپور میڈیا و سوشل میڈیا ٹرائل کے بعد ہر وکیل سراپا احتجاج ہے۔ اور ہر اس حد تک جائے گا جو اس کو اس کا حق دلا سکے۔

تشدد، نفرت، ذلت، انتشار اور بے انصافی کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوئی۔

چاہیے تو یہ تھا کہ سانحہ پی آئی سی کہ ذمہ داروں کا تعین کر کے برابری کی بنیاد پر ان لو۔ سزا ڈی جاتی۔ چاہے وہ وکیل ہوں یا ڈاکٹرز۔

مگر اس نا عاقبت اندیش حکومت نے پولیس اور ڈاکٹرز کی وردیوں میں ملبوس غنڈوں کو چھوٹ دے دی کہ کوئی بھی کالے کوٹ والا وکیل ہاتھ آئے تو بلا تفریق جرم و شمولیت ان کو نشان عبرت بنا دو۔ میڈیا نے اپنا نفرتوں پر مبنی منجن بیچا اور سوشل میڈیا پر موجود جوکروں نے اپنی ٹھٹھے بازی شروع کر دی۔

کسی کو یہ کہتے نہیں سنا گیا کہ تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے۔ کسی کو یہ کہتے نہیں سنا گیا کہ وکیلوں میں سے کچھ اگر برا ہوا ہے تو بہت سوں نے اچھائی کی تاریخ بھی لکھی ہے اور بہت سے اچھائی و انصاف کا پیکر بھی ہیں۔ بہت سے عدالتوں میں روز آپ کے حقوق کی جنگ بھی لڑتے ہیں اور اس دوران مارے بھی جاتے ہیں۔

بہت سے ساری ساری رات آپ کی کیس فائلز بھی تیار کرتے ہیں، بہت سوں کے اتوار بھی آپ کے کیس تیار کرتے گزرتے ہیں، بہت سوں کو تو آپ فیس بھی نہیں دیتے اور وہ معاف بھی کر دیتے ہیں، بہت سے آپ کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر جلتے کڑھتے لڑتے مرتے ہیں۔ اور اپ تب گھر میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ لیکن نہیں جب بات چلی تو پوری کمیونٹی کو بحثیت مجموعی رگیدا گیا۔ زلت و رسوائی کا نشانہ بنایا گیا۔

اور کسی نے یہ نہیں سوچا کہ کیا وکلا یہ سارا ہنگامہ یک طرفہ طور پر کر رہے تھے؟ کیا نومبر کے آخری ہفتے وکلاء نے خود ہی اپنے ساتھیوں کو لہو لہان کیا اسپتال میں؟

مجھے نہیں پتا کہ وہ وکلا پروٹوکول مانگ رہے تھے یا ڈاکٹر بدتمیزی کر رہا تھا، مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ اس دن کون سی توجیح کون سی دلیل نے ان ڈاکٹرز نما غنڈوں کے ہاتھوں نہتے وکلاء کو لہولہان کرنے کو جائز قرار دیا؟ وہ زیادہ سے زیادہ ان وکلاء کو پکڑ کر حوالہ پولیس کرتے۔ ان پر ایف آئی آر کرواتے اگر وہ بد تمیزی کر رہے تھے تو۔ جب ڈاکٹرز ان کو پکڑ کر لہو لہان کر سکتے تھے تو اس کا مطلب وہ ان کو۔ پکڑ پولیس کو بھی دے سکتے تھے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا اور موقع پر اپنی عدالت لگائی اور ان کو سزا دے دی۔ ویڈیوز موجود ہیں کہ کس طرح دودو لوگ ایک وکیل کو پکڑتے ہیں اور باقی اس کو مارتے ہیں۔ ان پر تھپڑوں اور ڈنڈوں سے میڈیکل سٹاف نے فٹنس پریکٹس کی۔

اور کمال یہ ہے کہ بہت سے مجنون میڈیائی دانشوروں نے اس سب کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ ٹھٹا بھی اڑایا۔ اور ان وکلاءکو کسی قسم کی سرکاری داد رسی نہیں ملی۔ اس کے بعد فریق مخالف سے کسی اخلاقی و خیر سگالی کی امید عبث تھی۔ ہم یہ مان کیوں نہیں لیتے کہ ہم غیر منصف لوگ ہیں جو ہوا کے رخ پہ چلتے ہیں۔ ہم نفرتوں اور دنگوں کے بیج بو کر امن کی آشا کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو بند باندھنے کا تب سوچتے ہیں جب پانی چھت تک آجاتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2