زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے


زرد پتوّں کا موسم یہ کہتا ہے، جمہوریت کا نام نہ لیں، آمریت کے ہاتھوں پر بیعت کر لیں۔ آمریت کا ہر حکم مانیں۔ اپنی زبانوں پر آمریت زندہ باد کا ورد کریں۔ ایوب، یحیٰ، ضیا اور پرویز مشرف کی زندگی پر مبنی فلمیں بنائیں، نصاب میں ان کے کارناموں پر مبنی مضامین شامل کریں۔ ان کی تصاویر شہر کے چوکوں پر آویزاں کروائیں۔ ریڈیو ٹی وی پر آمریت کے گیت گائیں۔ جمہوریت کا نام لینا قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دلوائیں، پھر بھی جی میں ٹھنڈک نہ پڑے تو اسمبلیاں ختم کردیں۔ سینٹ نام کے ایوان پر قفل ڈال دیں

ماضی کے فسانے، وہ تلخ زمانے تھے، جب جمہوری چمپین دار پر لٹکائے گئے۔ جمہور کے نام لیوا بھرے بازاروں میں کوڑے کھاتے رہے۔ کچھ پابند سلاسل ہوئے۔ قوم امید کے دھاگے سے بندھی رہی۔ بچیوں پر بم برسائے گئے، زندہ جلادی گئیں۔ ہم نے آمریت کا تسلسل دیکھا۔ بانی پاکستان کے مشرقی ساتھیوں سے جان چھڑا لی گئی۔ نوے ہزار فوجی انڈیا کی قید میں چلے گئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس ہزار سے زائد جمہوریت دشمن موت کے گھاٹ اتارے گئے، جن کے ورثا ہر سال جشن آزادی مناتے ہیں۔

دسمبر پھر سے آگیا ہے۔ اداس اور سرد۔ میانوالی سے منتخب وزیر اعظم ستّر کی دِہائی کی چکا چوند یاد کرتے ہیں۔ اسے تاریخ پاکستان کا تابناک دور قرار دیتے ہوئے برملا کہتے ہیں ”پاکستان ترقی کر رہا تھا۔ ایشئین ٹائیگر بن چکا تھا، جنوبی کوریا اور ملائیشیا ہمیں آئڈئیل سمجھتے تھے، امریکہ ہماری عزت کرتا تھا۔ صدر جانسن ایوب خان کا استقبال کرنے ایرپورٹ آیا کرتے تھے، پھر ملک میں جمہوریت آگئی“ یہی یخ بستہ دسمبر تھا اور ڈھاکہ پلٹن گراونڈ، زرد پتوں کے بارود سے بھرا ہوا تھا۔

ٹھنڈی یخ ہوا اور زرد دھوپ کا چاروں طرف سخت پہرا تھا۔ میانوالی ہی سے تعلق رکھنے والا وردی پوش سخت سردی میں کانپتے ہاتھوں سے اپنا ریوالور اور نوے ہزار جانباز اغیار کے حوالے کرنے جا رہا تھا۔ ہم نے اپنی نمناک آنکھوں سے یہ منظر دیکھا۔ حمود الرحمان کمیشن کے مجرم اسے مکتی باہنی اور انڈیا کی سازش قرار دیتے رہے۔ اس سازش کا سرغنہ ہماری قید میں تھا اور ہم اسے سبق سکھا رہے تھے۔ جناح کے شاگرد، ہمارا سبق نہ سیکھ سکے۔ تیس چالیس ہزار لوگ بھی مروا بیٹھے اور آمریت کے ثمرات سے مزید لطف اندوز ہونے سے انکار کر دیا۔

ہم نے اس قوم کوبار بار سمجھایا۔ اسلام کا عالمگیر پیغام دیا۔ افسوس یہ قوم اسلام کے لافانی پیغام کو نہ سمجھ سکی۔ ریڈیو اور ٹی وی پر پانچ وقت آذان کی آواز گونجتی رہی۔ ہم نے کشمیر کے لئے جہاد کا اعلان کیا۔ اس قوم نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف بار بار جہاد کیا۔ ظالموں نے ہم پر بم برسائے اور خودکش حملے کرائے۔ ہمارے ساٹھ ستر ہزار لوگ، جوان اور افسر شہید ہو گئے، پھر بھی کچھ نا سمجھ جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔

ہم نے اس قوم کو سمجھانے کے لئے کئی بار یورپ اور امریکہ کے تربیت یافتہ وزرائے اعظم تک بلائے، مگر یہ ناخلف قوم منی لانڈررز، ٹیکس چور اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے والے لٹیروں کے پیچھے لگی رہی۔ نتیجہ کیا نکلا قرضے بڑھتے چلے گئیے۔ یہ ناخلف ہمارے ازلی دشمن انڈیا سے ہاتھ ملاتے رہے اور ہم تالی بجاتے رہے۔

حیرت ہے، یہ لوگ یتیموں اور بیواوں کی سسکیاں سننے سے عاری ہیں جنہیں مودی نے نشان عبرت بنایا ہوا ہے۔ ان کی آنکھیں پیلٹ گنوں سے زخمی ہونے والی خون آلود آنکھوں کو دیکھنے سے کیوں انکاری ہیں۔ یہ کیوں ان جوانوں کو سکون کا سانس لیتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ لوگ بارودی سرنگیں صاف کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرجانے والوں کے یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کا خیال کیوں نہیں کر سکتے۔ کیوں ہمارے دوست اور محسن، حرمین شریفین کی محافظ، افواج کی قربانیاں نظر انداز کیے بیٹھے ہیں۔ ان کو اپنے کرپٹ والدین کی ہی فکر کیوں ہے۔ یہ اپنی جائیدادوں کا حساب کیوں نہیں دیتے۔ ہم نے انہیں بارہا حکومت کرنے کا موقع دیا مگر یہ اپنی ملیں لگاتے رہے۔ اپنا علاج بھی اس ملک سے کرانا پسند نہیں کرتے اور جمہوریت جمہوریت کرتے پھرتے ہیں۔

ہم نے عوام کو کیا نہیں دیا؟ ہم نے سوات کو ملا ریڈیو کے ظلم سے نجات دلائی۔ فاٹا کو محسودوں کے جبر سے بچایا۔ شمالی جنوبی وزیرستان کے لوگوں کو بارودی سرنگوں سے نجات دلائی۔ ہم نے صاف ستھری اعلیٰ معیار کی سڑکیں بنائیں۔ ہم نے ہر بڑے شہر میں ڈی ایچ اے آباد کیے۔ ہم لوگوں کوصاف ستھرا پٹرول دے رہے ہیں۔ کرپشن سے پاک ٹول ٹیکس اکٹھا کر رہے ہیں۔ عوام کو صاف ستھری اجناس اور کراکری، ڈبل روٹی تک ایک چھت تلے مہیا کر رہے ہیں۔ آپ ہم سے اور کیا چاہتے ہیں؟

حضور یہ سب اچھا ہے، جمہوریت نہ دیں۔ تحریر و تقریر کی اجازت نہ دیں۔ اخبار و چینل بند کردیں۔ سارے مخالف جیلوں میں بند کردیں۔ ہمارے ڈیڑھ کروڑ بچے کمزور دماغ لے کر پیدا ہورہے ہیں، ان کی تعداد میں کمی کی تھوڑی سی کوشش کرلیں۔ ہر سال ہزاروں مائیں زچگی کے دوران جان کی بازی ہار جاتی ہیں ان کے لئے ہر شہر میں ایک ایسا ہسپتال بنا دیں، جہاں ان کی زندگیاں بچ سکیں۔ ہمارے ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں ان کے لئے سکول بنا دیں۔

کسی دور افتادہ شہر میں غریب غربا کے لئے کوئی ڈیڑھ مرلہ ڈی ایچ اے بنادیں۔ ریل کی لائینیں ٹھیک کرا دیں۔ فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لئے سائنسی طریقے رائج کروا دیں۔ کوئی سستی بجلی بنا دیں۔ ہمیں ان ظالم، متعصب فرقہ پرستوں کے حوالے تو نہ کریں۔ ہمارے ہسپتالوں، مریضوں اور مسافروں کو ان غصیلے جتھوں کے حوالے کرنے سے بچا لیں۔ آپ جب بھی آئے خوب آئے۔ آپ نے انہی جاگیرداروں، کارخانہ داروں اور وڈیروں کو عوام پر ظلم کے لئے چن لیا۔ عوام تو آپ کی پرستار ہے۔ یہی وڈیرے جاگیردار اور کارخانے دار آپ کے مخالف ہیں جنہیں آپ ہی نے نوازا۔ عوام پر ظلم کرنے والوں کو کھلی چھٹی آپ ہی نے دی۔ یہ آپ ہی کے پروردہ ہیں اور آپ ہی کے دلدادہ، انہیں عوام سے کوئی ہمدردی نہیں۔ عوام ہر حال میں پریشان ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).