ماں کا آخری خط


پیارے بیٹے

خوش رہو، جو بھی کرو خوشی سے کرو۔ تمہاری زندگی طویل ہو، میری زندگی بھی تمہیں لگ جائے۔ تم جیو پھلو پھولو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں تمہارے ساتھ ہوں۔

میں اورتمہارے ابو تمہارے لئے پریشان رہتے ہیں۔ ہماری تو یہی خواہش ہے کہ تم جلداز جلد اپنی تعلیم پوری کرلو اور اس قابل ہوجاؤ کہ دنیا میں سر اٹھا کر اچھے سے جیو، ہماری تو جیسی گزرگئی اچھی ہی گزرگئی۔ سستا زمانہ تھا۔ تمہارے ابو نے بغیر رشوت اور بے ایمانی کے گزارا کر ہی لیا اور کر ہی لیں گے، پر اب زمانہ خراب ہے، مہنگائی ہے، بے ایمانی رشوت عام ہے۔

کل سلمیٰ اور اس کے میاں آئے تھے۔ تمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے، میں نے بتایا کہ تمہاری بڑی اچھی نوکری لگ گئی ہے۔ سلمیٰ کا خیال تھا کہ تمہاری شادی ان کی بڑی نند کی بیٹی سے کردی جائے۔ تم نے حنا کو تو دیکھا ہی ہوگا۔ وہ خوبصورت سی اچھی سیرت کی لڑکی ہے۔ میں نے تمہارے ابو سے کہا تھا انہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ تو ویسے بھی سلمیٰ کی کسی بات کو ٹالتے نہیں ہیں۔ اس معاملے میں بھی وہ سلمیٰ کے ساتھ ہی ہیں۔

وہ زمانہ تو ہے نہیں کہ تمہیں بس کہہ دیاجائے کہ تمہاری شادی طے کرلی گئی ہے اورتم آکر شادی کرکے چلے جاؤ۔ تمہاری پسند اورتمہاری آمادگی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوگا۔ بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے؟ تمہاری شادی حناسے طے کردی جائے ہماری خوشی اس میں ہے، باقی جو تمہاری مرضی۔ چھوٹی تو ابھی پڑھ رہی ہے، میرے خیال میں اس کے معاملے میں جلدی کی ضرورت نہیں ہے۔

کبھی کبھار فون کرلیا کرو، تمہاری آواز سن کر جیسے دونوں آنکھوں میں روشنی بھر جاتی ہے۔ خوش رہو اللہ تمہیں اپنی امان میں رکھے۔
تمہاری امی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ O۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بیٹے

شام کوتمہارا فون آیا اوردوسرے دن دوپہر کو تمہارا خط ملا۔
بیٹے تم حد سے زیادہ خیال رکھنا آج کل بڑابُرا زمانہ ہے۔ ایک دوست تو دس دشمن اللہ نہ کرے تم کسی ایسے ویسے چکروں میں پڑجاؤ، تمہارے بھیجے ہوئے پیسے مل گئے۔

بیٹے زندگی ایمانداری اورسادگی سے گزرجائے تو بھلی ہوتی ہے۔ آئے دن خبریں آتی ہیں کہ سعودی عرب میں کسی پاکستانی کا ہیروئن بیچنے کے الزام میں سر کاٹ دیا گیا۔ انگلستان میں کسی پاکستانی کو اسی قسم کے جرم میں جیل ڈال دیا گیاہے۔ یہ خبریں کوئی اچھی خبریں نہیں ہیں۔ دولت سے خوشیاں نہیں خریدی جاسکتی ہیں اور غلط قسم کی دولت جو غلط طریقے سے کمائی گئی اس کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا ہے۔ بیٹے مجھے تم پر بڑا اعتبار ہے اور مجھے امید ہے کہ تم وہ اعتبار کبھی بھی نہیں کھوؤگے۔ اپنا بہت خیال رکھنا بیٹے۔

باقی تو حالات ویسے ہی ہیں۔ تمہیں میں نے فون پر بتایا تھاکہ رخسانہ کی منگنی ٹوٹ گئی ہے۔ جو ہوا شاید اچھا ہی ہوا۔ منگنی کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ ان لوگوں نے مطالبہ کردیا کہ انہیں جہیز چاہیے، فلیٹ بھی دینا ہوگا اور اگر اسکوٹر بھی ہوجائے تو اچھا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ہمارے حالات خود کون سے اچھے ہیں۔ تمہارے ابو صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح کام کرتے ہیں تو دو وقت کی روٹی مل جاتی ہے اور عزت سے زندگی گزرتی ہے۔

ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم لوگ جہیز کے لئے اتنی بڑی رقم کا انتظام کریں۔ یہ اچھا ہی ہوا ورنہ وہ لوگ شادی کے بعد ہماری بیٹی کو پریشان کرتے، آج کل تو یہ عام بات ہوگئی ہے۔ لڑکے والے تو اس طرح سے باتیں کرنے لگے ہیں جیسے ان کو اپنی بیٹیاں نہیں بیاہنی ہیں، نہ خداکا خوف ہے اور نہ ہی یہ خیال کہ غریب لوگ کہاں سے جہیز لائیں گے۔ اللہہماری بچی کے لئے جو کرے گا اچھا ہی کرے گا۔

بیٹے اپنا خیال رکھو اورمیں دُعا کرتی ہوں کہ تمہیں جلداز جلد نوکری مل جائے۔
تمہاری امی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ O۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جان سے عزیز پیارے بیٹے!

امید ہے کہ تم اچھے ہوگے۔

رات دو بجے میری آنکھ کھل گئی، بڑا ڈراؤنا خواب تھا میں نے دیکھا کہ تم ایک پہاڑی پر چڑھنے کی کوشش کررہے ہو اوربار بار نیچے گرجاتے ہو اور جب ایک دفعہ تم اوپر تک پہنچ گئے تو پہاڑی پر قدم رکھتے ہی کسی نے تمہیں دھکا دے دیا اور تم چیختے ہوئے کھائی میں گرگئے اور میری آنکھ کھل گئی۔

پھر بیٹے بہت دیر تک مجھے نیند نہیں آئی، میں رات بھر دُعائے قنوت کا وِرد کرتی رہی، آیت الکرسی پڑھتی رہی، رو رو کر اوپر والے سے تمہارے تحفظ کے لئے دُعا مانگتی رہی۔ بیٹے تم اللہ کے لئے ایسے ویسے کسی کام میں نہ الجھنا کہ تمہاری جان کو خطرہ ہو۔ ہر وقت میں تمہارے بارے میں سوچتی رہتی ہوں اوپر والا تمہیں اپنی حفاظت میں رکھے۔

دو دن سے تمہارے ابو کو بخار تھا۔ کل میں انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھی۔ اس نے کچھ ٹیسٹ کرائے جس کے بعد دوائیں دیں۔ بارہ سو روپے کا خرچہ ہوگیا۔ اب کچھ بہتر ہیں مگر بار بار کہہ رہے تھے کہ بڑے پیسے خرچ ہوگئے۔ مہنگائی تو ہے پیسے توخرچ ہوں گے ہی۔ بس اب دعا ہے کہ اچھے ہوجائیں، صحت نہیں تو کچھ بھی نہیں، روپیہ پیسہ تو آنے جانے والی چیز ہے، تم بھی دعا کرنا۔

تمہاری امی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ O۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بیٹے

امید ہے کہ تم ٹھیک ہوگے۔

تمہارا خط ملا تمہاری خیریت سے آگہی ہوئی، تم بڑی محنت کررہے ہو۔ کام بھی کرنا پڑھائی بھی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ تمہارے بارے میں سوچتی ہوں تو جیسے کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔

آج عامر کی برسی تھی۔ چھ سال ہوگئے میرے بیٹے کے قتل کو۔ نہ کوئی گرفتار ہوا اور نہ ہی کسی کو سزا ملی۔ آج اگر وہ زندہ ہوتا تو بتیس سال کا جیدار جوان ہوتا۔ کہیں نوکری ہوتی، کریمہ اس کی بیوی ہوتی، دو اس کے بچے ہوتے، میرے پوتے پوتی میری گودی میں سوتے، میرے کاندھوں پر چڑھتے۔ وہ ہمارا سہارا ہوتا مگر جس طرح سے اسے ماردیا گیا وہ میرے ذہن سے نکلتا نہیں ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4