انڈیا: شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف دلی میں مظاہرے


ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟

  • متھرا روڈ پر جامعہ نگر سے ملحق علاقے میں دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسوں کو آگ لگا دی گئی ہے
  • عینی شاہدین کے مطابق لوگ شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے
  • ہجوم اور پولیس کے درمیان مظاہرے کے دوران تصادم ہوا
  • کئی بسوں، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو آگ لگا دی گئی
  • جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے چیف پروکٹر نے کہا کہ پولیس زبردستی کیمپس میں داخل ہو گئی ہے
  • جامعہ کے طلبا نے بھی تشدد کی مخالفت کی ہے
انڈیا

اتوار کی شام کو مظاہرین نے دہلی سے متھرا جانے والی سڑک پر کئی بسوں کو آگ لگا دی۔

بسوں میں لگی ہوئی آگ بجھانے کے لیے جب فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آئیں تو مظاہرین نے ان پر بھی حملہ کیا۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں دہلی کے اوکھلا، جامعہ اور کالندی کنج علاقوں میں ہوئیں۔

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق مظاہرین بشمول جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے کالندی کنج روڈ پر شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کیا۔

https://twitter.com/jamiamillia_/status/1206213754276503553?s=20

میڈیا اطلاعات میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ جامعہ کے طلبا تشدد میں ملوث تھے۔

خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے ان اطلاعات پر گفتگو کرتے ہوئے جامعہ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ تشدد یونیورسٹی کے طلبا کے مظاہرے کے دوران نہیں بلکہ مقامی لوگوں کے مظاہرے کے دوران ہوا۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ تشدد کے واقعات کے بعد دہلی پولیس جامعہ کے کیمپس کے اندر داخل ہوگئی ہے اور اس نے یونیورسٹی کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں۔

جامعہ ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اپنے طلبا سے اپیل کی ہے کہ وہ مقامی رہنماؤں کے منعقد کردہ مظاہروں میں شریک نہ ہوں۔

https://twitter.com/ArvindKejriwal/status/1206193589258092544?s=20

دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروِند کیجریوال نے مظاہرین سے احتجاج کے دوران پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی طرح کے تشدد کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔

عینی شاہدین کیا کہتے ہیں؟

عینی شاہدین کے مطابق جامعہ کے طلبا نے شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف ایک احتجاجی مارچ منعقد کیا تھا۔

جب یہ ریلی نیو فرینڈز کالونی کے کمیونٹی سینٹر کے قریب پہنچی تو پولیس نے انھیں روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں۔

کچھ طلبا وہاں بیٹھے تھے اور ان میں جامعہ کے علاوہ دیگر اداروں کے طلبا بھی تھے۔

پولیس کی رکاوٹیں دیکھ کر طلبا کا گروہ دوسرے راستے سے آشرم کی جانب بڑھنے لگا۔

انڈیا

یہ راستہ جنتر منتر کے مقام تک جاتا ہے مگر یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ طلبا کا یہ گروہ جنتر منتر جا رہا تھا یا کہیں اور۔

اس کے بعد طلبا نے آشرم کے نزدیک دہلی فرید آباد روڈ کو بند کر دیا۔

پولیس نے سڑک کھلوانے کے لیے طلبا پر لاٹھی چارج کیا جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھے۔

انڈیا

اس دوران پولیس نے دوسری جانب موجود مظاہرین پر پتھر بھی پھینکے۔

اس کے بعد پولیس نے وہاں پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔

انڈیا

اس سے قبل جامعہ کے طلبا نے 13 دسمبر کو بھی مارچ کرنے کی کوشش کی تھی مگر پولیس نے انھیں رکاوٹیں کھڑی کر کے روک دیا تھا۔

تقریباً دو سے تین دن سے پولیس نے نیو فرینڈز کالونی کے کمیونٹی سینٹر کے پاس رکاوٹیں لگا رکھی ہیں۔

دوسری طرف دہلی میٹرو ریل کارپوریشن نے سکھ دیو وہار میٹرو سٹیشن کے داخلی اور خارجی دروازے بند کر دیے ہیں۔

اس کے علاہ میٹرو نے آشرم میٹرو سٹیشن پر گیٹ نمبر تین بھی بند کی دیا ہے۔

انڈیا

’لوگوں میں بہت پریشانی دکھائی دیتی ہے، سب ڈرے ہوئے ہیں‘

دلی میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار مرزا بیگ کے مطابق جنوبی دہلی میں آشرم اور سکھدیو وہار کے درمیان متھرا روڈ بند کر دی گئی ہے جس سے مسافروں کو اپنی منازل پر پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ہمارے نامہ نگار کے مطابق ’جب میں 4:30 بجے دفتر سے نکلا تو مجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ لیکن جب متھرا روڈ پر آشرم کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ بہت ٹریفک جام ہے۔ ساری بسیں رکی ہوئی ہیں اور ٹریفک کو متبادل راستوں کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔

جب میں آشرم کے پاس پہنچا تو دیکھا پولیس نے متھرا روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں، دور سے دھوئیں کے بادل اور آگ کے شعلے دیکھے جا سکتے ہیں۔

وہاں سے گاڑیوں کو دوسری جانب رنگ روڈ پر موڑ دیا گیا جہاں سے چلتے ہوئے، اوکھلا سبزی منڈی ہوتے ہوئے جب میں جامعہ کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ سکھ دیو وہار سٹیشن بھی بند کر دیا گیا ہے اور وہاں پہنچنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔

انڈیا

یہاں پر پولیس نے مجھے روکا اور راستہ بند ہونے کی وجہ بتانے سے انکار کرتے ہوئے بس اتنا کہا کہ ’جامعہ کے طالبعلموں کے خلاف پولیس کی کارروائی چل رہی ہے۔`

یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ اس ایکشن میں کیا ہو رہا ہے لیکن میں پولیس کو راہگیروں پر ڈنڈے برساتے دیکھ سکتا تھا۔

مجھے گھر تک پہنچنے کے لیے سنسان راستوں سے ہوتے ہوئے پانچ کلومیٹر تک پیدل چلنا پڑا اور اس دوران کم از کم ایک کلومیٹر کے فاصلے پر میں آنسو گیس اور فائرنگ کا تبادلہ ہوتے سن سکتا تھا۔

پھر جب میں اپنے علاقے میں پہنچا تو دیکھا کہ دکانیں بند ہیں اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ علاقے میں صورتحال بہت کشیدہ ہے اور تمام دکانیں بند کر دی گئی ہیں۔ لوگوں میں بہت پریشانی دکھائی دیتی ہے۔ سب ڈرے ہوئے ہیں۔‘

ہمارے نامہ نگار کے مطابق جامعہ کے طلبا یہ کہتے ہوئے تشدد سے الگ ہوگئے ہیں کہ وہ پر امن مظاہرے کر رہے تھے۔ جبکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین نے ڈی ٹی سی بسوں کو نذر آتش کیا اور فائر ٹینڈر کو نقصان پہنچایا۔

ایک مقامی وقار احمد نے ہمارے نامہ نگار کو بتایا کہ انھوں نے اس علاقے میں اتنا بڑا جلوس پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ وقار احمد کے مطابق ’وہ سب لوگ پر امن تھے۔‘

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر محمد سہراب نے ہمارے نامہ نگار مرزا بیگ کو بتایا کہ پولیس کی کارروائی میں ایک طالبعلم کی ہلاکت ہو گئی ہے۔ پروفیسر محمد سہراب کا یہ بھی کہنا تھا ’ہم ریاستی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

ہولی فیملی ہسپتال میں لائے گئے ایک طالبعلم محمد تمیم کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے ان کی ٹانگ پر دو گولیاں ماری ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp