ایک پاکستانی نژاد برطانوی نے قوم پرست بورس جانسن کو کیسے جتوایا؟


یہ 8 جون 2017 ءکی بات ہے جب ہمارے سابق آقاؤں، انگریز کے دیس برطانیہ میں پارلیمانی الیکشن منعقد ہوئے۔ اس میں قدامت پسند پارٹی، کنزریٹیو پارٹی نے 317 نشستیں جیت لیں۔ کل ووٹوں میں سے ایک کروڑ چھتیس لاکھ ووٹ اسے پڑے۔ جدت پسند لیبر پارٹی 262 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ یہ پچھلے الیکشن کے معاملے میں 30 نشستیں زیادہ تھیں۔ لیبر پارٹی نے کل ووٹوں میں سے تقریباً ایک کروڑ انتیس لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ اسکاٹ لینڈ کی آزادی کی حامی جماعت، ایس این پی نے 35 نشستیں پائیں۔

نئی پارلیمنٹ وجود میں آئی تو اس میں پچھلے سال جنم لینے والا بریگزٹ معاملہ سب سے ہنگامہ خیز موضوع بحث رہا۔ لیبر پارٹی، ایس این پی اور دیگر چھوٹی پارٹیاں بریگزٹ کی مخالف تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے کڑی شرائط منوانے کے بعد ہی برطانیہ کو علیحدہ ہونا چاہیے۔ کنزریٹیو پارٹی آسان شرائط پر بھی بریگزٹ کی حامی تھی۔ جب ڈھائی برس تک کوئی تصفیہ نہ ہو سکا تو کچھ عرصہ قبل نئے الیکشن کرانے کا فیصلہ ہوا۔ مدعا یہ تھا کہ نئی پارلیمنٹ بریگزٹ کا مسئلہ حل کر سکے۔

برطانیہ میں الیکشن سے قبل مختلف ادارے عوام کے خیالات جاننے کی خاطر وسیع پیمانے پر رائے شماریاں یا جائزے کراتے ہیں۔ 29 نومبر 2019 ءتک بیشتر جائزوں کے مطابق 41 فیصد برطانوی کنزریٹیو پارٹی کے حامی تھے۔ جبکہ 34 فیصد لیبر پارٹی کو ووٹ دینا چاہتے تھے۔ یہ تھی صورت حال جب 29 نومبر کو ایک پاکستانی نژاد برطانوی، عثمان خان نے لندن برج کے نزدیک منعقدہ تقریب میں دو انسان قتل کر ڈالے۔ تین انسان چاقو کے واروں سے زخمی ہوئے۔

عثمان نوخیز ہی تھا کہ مسلح تنظیم، القاعدہ کا رکن بن گیا۔ وہ پھر پاکستان آتا جاتا رہا۔ اٹھارہ انیس سال کی عمر میں دیگر شدت پسندوں کے ساتھ اس نے برطانیہ کے مختلف مقامات پر بم نصب کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وہ برطانوی حکمران طبقے کے جنگی جرائم کا بدلہ عام انگریزوں سے لینا چاہتا تھا جو عموماً حکومتی مفاداتی پالیسیوں سے تعلق نہیں رکھتے۔ یہ منصوبہ 2010 ءمیں پکڑا گیا۔ عثمان پھر 2018 ءتک جیل میں رہا۔ رہائی کے بعد وہ ذہنی وجسمانی صحت مندی کے پروگرام سے گزر رہا تھا کہ 29 نومبر کو نجانے اسے کیا ہوا، اس کی شدت پسندی دوبارہ ابھر آئی۔ اس نے ایسے انسانوں پر حملہ کر دیا جن سے شاید وہ زندگی میں پہلی بار ملا تھا۔

اس واقعے کو ”دہشت گردی“ قرار دے کر مغربی بالخصوص برطانوی میڈیا نے بہت اچھالا اور نمک مرچ لگا کر خبریں شائع کیں۔ تین چار دن تک برطانوی الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا شہ سرخیوں میں اس واقعے کی کوریج کرتا رہا۔ اس دوران وزیراعظم، بورس جانسن نے واقعے سے متعلق خاصے اشتعال انگیز بیان دیے۔ جانسن کنزریٹیو پارٹی کا لیڈر اور شدت پسند رہنما ہے۔ وہ اپنے بیانات میں اسلام کو ”ایک مسئلہ“ قرار دے چکا۔ اس کا دعوی ہے کہ برطانوی تہذیب وثقافت کی بقا کو (خصوصاً مسلمان) مہاجرین سے خطرات لاحق ہیں۔ وہ حجاب لینے اور برقع اوڑھنے والی مسلم خواتین کا مذاق اڑاتا ہے۔

دوسری طرف جرمی کوربین لیبر پارٹی کے لیڈر تھے۔ کوربین سماجی رہنما ہیں۔ ذات پات، رنگ، نسل، مذہب، معاشرتی حیثیت وغیرہ کی بنیاد پہ انسانوں کو تقسیم نہیں کرتے۔ مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں ریاستی ظلم کا شکار مسلمانوں کی حمایت میں کئی بار بیان دے چکے۔ اسرائیل اور بھارت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ انھوں نے الیکشن سے قبل کئی پاکستانیوں کو ٹکٹ جاری کیے۔ برطانیہ میں مقیم بیشتر مسلمانوں کی تمنا تھی کہ الیکشن میں لیبر پارٹی زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرے مگر عثمان نے ان کی امیدیں خاک میں ملا دیں۔

عثمان کے ہاتھوں انجام پائے واقعے سے عام انگریزوں میں بورس جانسن کے اس نظریے کو تقویت ملی کہ مہاجرین برطانیہ میں بس کر اپنے مذہبی ومعاشرتی نظریات پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب انھیں ناکامی کا سامنا ہو تو بعض شدت پسند معاشرہ دشمن بن جاتے ہیں۔ وہ پھر نہتے شہریوں کو بھی قتل کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ برطانوی میڈیا نے بھی ووٹروں میں اسلاموفوبیا (اسلام سے خوف) پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ چناں چہ 29 نومبر سے لے کر الیکشن ہونے تک جتنے بھی انتخابی جائزے اور رائے شماریاں منظرعام پر آئیں، ان میں کنزریٹیو پارٹی کی حمایت مسلسل بڑھتی رہی۔

جبکہ لیبر پارٹی کی حمایت میں کمی آ گئی۔ ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے، ”دہشت گردی“ کے واقعے کے بعد کم ازکم دو فیصد برطانوی ووٹر کنزریٹیو پارٹی کی سمت جھک گئے۔ پونے سات کروڑ انسانوں کے دیس میں یہ ووٹروں کی خاصی بڑی تعداد بن جاتی ہے۔ پھر جمہوری الیکشن میں تو محض ایک ووٹ بھی نشست ہارنے یا جیتنے کا سبب بن سکتا ہے۔

12 دسمبر کی نئے الیکشن منعقد ہوئے۔ خلاف توقع کنزریٹیو پارٹی نے زبردست کامیابی حاصل کی اور پچھلے الیکشن کی نسبت 48 نشستیں زیادہ جیت لیں۔ اسے ڈالے گئے ووٹوں میں سے ایک کروڑ انتالیس لاکھ ووٹ ملے۔ گویا ووٹروں کی تعداد دس لاکھ بڑھ گئی۔ لیبر پارٹی کی 60 نشستیں کم ہو گئیں اور اسے بڑی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ اسے صرف ایک کروڑ ڈھائی لاکھ ووٹ مل سکے۔ یوں پچھلے الیکشن کے مقابلے میں وہ اپنے ساڑھے چھبیس لاکھ ووٹر کھو بیٹھی۔

صورت حال سے عیاں ہے کہ ایک پاکستانی نژاد شدت پسند کا منفی فعل برطانوی ووٹروں کی سائیکی اور ووٹ ڈالنے کے فیصلے پر اثرانداز ہوا۔ اس فعل کے بعد انھیں بورس جانسن کے مسلم دشمن نظریات حقیقی نظر آنے لگے۔ جبکہ جرمی کوربین کا امن پسندانہ اور مسلم حمایتی بیانیہ پس منظر میں چلا گیا۔ عثمان کے منفی اقدام نے اس کی اہمیت کم کر دی۔ معتصب برطانوی میڈیا تو جیسے انتظار میں تھا، اس نے اقدام کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔

آرتھر ہرٹزبرگ (متوفی 2006ء) امریکا کا مشہور ربّی اور مورخ گزرا ہے۔ وہ اسرائیلی حکومت کی فلسطینی دشمن پالیسیوں کا سخت ناقد تھا۔ اس کا ایک قول ہے : ”میں عیسائی، یہودی اور ہر قسم کی شدت پسندی کا مخالف ہوں۔ وجہ یہ کہ شدت پسند خدا کے دشمن ہوتے ہیں۔ “ ہرٹزبرگ شاید یہ کہنا چاہتے تھے کہ یہی لوگ انسانوں میں تفرقہ و نفرت پھیلا کر دنیا میں خدا کے مقام و مرتبے کو ضعف پہنچا دیتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بڑھتی شدت پسندی کے بطن سے جنم لیتے لرزہ خیز اور افسوس ناک واقعات بھی اس خیال کو تقویت پہنچاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).