یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا اے چاند یہاں نہ نکلا کر


وہ ایک درمیانے قد کی خوبصورت لڑکی تھی۔ جس کا گندمی رنگ اس کی شخصیت کو مزید پرکشش بناتا تھا۔ اس کے تیکھے نقوش میں اس کی ستواں ناک اور بڑی بڑی آنکھیں دیکھنے والے کو دوبارہ پلٹنے پر مجبور کر دیتی تھیں۔ نئی نئی شادی اور ماں بننے کی خوشی تھی کہ اس کے گالوں کی لالی اور چہرے کی ہنسی مزید گہری ہوگئی تھی۔ ان دنوں وہ بات بات پہ دل کھول کر ہنستی تھی جس پر اسے اپنی ساس سے اکثر ڈانٹ بھی پڑتی تھی کہ زیادہ ہنسنے سے خوشیوں کو روگ لگ جاتا ہے۔

جسے وہ قہقہے میں ٹال دیتی تھی۔ ماں باپ کی لاڈلی سسرال کی آنکھوں کا تارا خوشی سے اس کے پاوں زمین پر نہیں ٹکتے تھے جوں جوں ڈلیوری کا وقت قریب آرہا تھا اس کی خوشی مزید بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ اپنے ہونے والے بچے کو اپنی گود میں لینے کے لیے تڑپ رہی تھی یہی حال اس کے گھر والوں کا تھا۔ آخر کار منتوں مرادوں کے بعد وہ دن آپہنچا اس کی نارمل ڈیلیوری ہوئی اللہ نے اسے ایک نہایت ہی خوبصورت بیٹی سے نوازا تھا۔ پورے گاؤں میں خوشی کی مٹھائی بانٹی گئی۔

بچی کے ہونے کے تیسرے دن اس کا سانس اکھڑنے لگا زیادہ حالت خراب ہوئی تو قریبی ہسپتال لے کر گئے وہاں سے اسے بڑے سرکاری ہسپتال ریفر کر دیا گیا۔ اس کی حالت زیادہ خراب تھی اس کو دل کا مسئلہ بتایا گیا۔ وہ ایک بڑے شہر کے بڑے سرکاری ہسپتال میں داخل ہوگئی۔ اس کے کچھ ضروری ٹیسٹ ہوئے اور اس کے مرض کا علاج شروع ہوگیا حالت سیریس ہونے کی وجہ سے اسے آئی سی یو میں داخل کر دیا گیا تھا۔ اس کی حالت میں آہستہ آہستہ بہتری آرہی تھی ڈاکٹر بھی کچھ پرامید تھے۔

اس شدید بیماری نے اسے زندگی سے مایوس کر دیا تھا مگر جب سے وہ اس ہسپتال میں آئی تھی جینے کی امید روز بروز بڑھ رہی تھی ڈاکٹر پوری دلجمعی سے اس کا علاج کر رہے تھے۔ بلکہ اب تو بہت سے ڈاکٹروں سے ایک انجان سا تعلق بن گیا تھا۔ وہ تعلق جو مسیحا اور مریض کے درمیان ہوتا ہے اسے موت کے منہ سے واپس کھینچ کر لانے والے یہی لوگ تو تھے جینے کی امید دلانے والے یہی لوگ تو تھے۔ اس نے دل میں سوچا تھا جب صحت یاب ہو کر گھر جائے گی تو ان کا شکریہ ضرور ادا کرے گی۔ وہ گن گن کے دن گزار رہی تھی اپنی بیٹی کو دیکھنے کے لیے بہت بے چین تھی جس کے لیے اس نے نو مہینے انتظار کیا تھا اس کے ننھے منے سے جسم کو اپنی بانہوں میں بھر کے اس کے ہونے کا یقین کرنا چاہتی تھی۔

اس دن کا آغاز ایک نارمل دن کی طرح نہیں ہوا تھا وہ صبح سے بے چین تھی۔ دل میں دعا کر رہی تھی کہ میری بیٹی ٹھیک ہو۔ صبح ڈاکٹر کا راونڈ ہوا تو انھوں نے اس کی حالت کے بارے میں بہتری کی نوید سنا دی وہ اور اس کے گھر والے سب ہی بہت خوش تھے۔ اس کی بیماری نے اس کے پیاروں کو بھی تھکا دیا تھا۔ مگر آج وہ سب بہت خوش تھے۔ اس نے آنکھیں بند کیں تو بیٹی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اڑ کر چلی جائے۔

وہ اپنی بیٹی کے خوابوں میں مگن تھی کہ باہر سے عجیب سا شور سنائی دیا جیسے کوئی لڑائی جھگڑا ہو۔ کھڑکیوں کے شیشوں پہ پتھر آکر لگے۔ دور سے شیشے ٹوٹنے کی آواز بھی آرہی تھی۔ کسی کہ چلانے کی آواز سنائی دی کہ ہسپتال پہ دہشتگردوں کا حملہ ہوگیا ہے۔ وہاں موجود ہر شخص پریشان تھا۔ بیمار مریض جنھیں دل کے اٹیک ہوئے تھے وہ اس حالت میں کہاں جاتے۔ کسی کو سانس کی مشین لگی تھی تو کسی کی ڈرپ چل رہی تھی جو جان بچانے کے لیے ہسپتال آئے تھے وہ اب ہسپتال سے جان بچا کے کہاں جاتے۔

مسیحا بھی بے بس نظر آرہے تھے جو مریض شفٹ ہوسکتے تھے انھیں وہیل چیئر پہ بٹھا کہ شفٹ کیا جا رہا تھا۔ اسی دوران کھڑکیوں پہ لگنے والے پتھروں سے کافی شیشے ٹوٹ گئے تھے۔ کالی آندھی آگئی تھی آنے والوں کے سر پہ خون سوار تھا جیسے دشمن کے علاقے میں گھسے ہوں۔ گھمسان کارن پڑا تھا دشمن بھی کون بیمار اور لاچار مریض جو جان کی بازی ہار رہے تھے اور ان کو بچانے والے ان کے مسیحا۔ جہاں زندگی اور موت کی جنگیں لڑی جانی تھیں وہاں انا کی جنگ لڑنے آئے تھے وہ لوگ۔

زمین اور آسمان دونوں حق فق تھے ایسی جنگ پہلے نہیں دیکھی تھی کسی نے۔ موت کا فرشتہ بھی حیران کھڑا تھا روئے زمین پہ شاید اتنی درندگی اس نے بھی پہلے نہیں دیکھی تھی۔ ایسا تو جنگوں میں بھی نہیں ہوتا حالت جنگ میں بھی ہسپتالوں پہ حملہ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جو پہلے ہی مر رہے تھے انھیں مار کر اپنی انا کا جھنڈا اونچا کرنے آئے تھے۔ بے گناہ لوگوں کے لہو سے فتح کا پرچم بلند ہو چکا تھا۔

وہ جو پہلے ہی زندگی کی کشمکش سے گزری تھی اس وقت عجیب ہی تماشا دیکھ رہی تھی اس کے آس پاس بیمار مریضوں کی چیخیں اور کراہیں تھی ان کے گھر والے بے بسی سے چلا رہے تھے۔ وہ لوگ طاقت کے نشے میں چور اندر گھس آئے بیمار مریضوں کے ماسک کھینچ لیے کسی کو دھکا دیا افراتفری کا عالم برپا کر دیا۔ اس کا اپنا بھی سانس اکھڑنے لگا کسی نے ماسک کھینچ دیا تھا۔ اسے لگا اس کا ننگا بدن خاردار زمین پہ کھینچا جا رہا ہو درد برداشت سے باہر ہوگیا تھا۔

سانس اٹک رہی تھی وہ شدت سے چلا رہی تھی یوں محسوس ہورہا تھا کہ کوئی جسم سے روح کھینچ رہاہو۔ وہ چلاتی ہے۔ اپنی زندگی کی بھیک مانگتی ہے۔ مگر ان بے حس اور بے رحم لوگوں کو اس کی دم توڑتی چیخوں پر بھی رحم نہ آیا۔ ان کے اندر سے انسانیت ختم ہو گئی تھی۔ شاید اوپر والے کو اس پہ رحم آگیا تھا کہ یک دم اس کا درد ختم ہوگیا ہر طرف سکون محسوس ہوا

اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ کھڑی تھی آس پاس وہی مار پیٹ چل رہی تھی وہ حیران تھی کہ وہ ٹھیک کیسے ہوگئی پاس اسے اپنا بھائی کھڑا نظر آیا جو دھاڑیں مار کے رورہا تھا وہ بھاگ کے اس کے پاس جاتی ہے تاکہ اسے بتا سکے کہ وہ اب ٹھیک ہے۔ اس کا سانس بھی اب ٹھیک ہے مگر کوئی اس کی طرف دھیان نہیں دیتا۔ وہ بھائی کے پاس جا کر دیکھتی ہے وہاں ہو بہو اس کی شکل کی لڑکی اس جیسے کپڑوں میں لیٹی ہوتی اور اس کے گھر والے بین کر رہے ہوتے ہیں۔

وہ زندگی کی جنگ ہار چکی تھی۔ وہ اپنی ہی میت کے پاس بیٹھ کر اپنے مرنے پہ آنسو بہارہی تھی۔ وہ کالی آندھی کی لپیٹ میں آگئی تھی۔ آس پاس بیماروں کی چیخ و پکار تھی وہ وہاں سے باہر نکلتی ہے تو دیکھتی ہے ہر جگہ شیشے ٹوٹے پڑے تھے۔ کہیں کہیں خون کے دھبے بھی لگے تھے فرش پہ۔ کسی طوفان کہ بعد کا سا منظر تھا۔ وہ ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے ٹیک لگائے کھڑی آنسوبہا رہی تھی کہ ایک اور روح پاس آتی ہے اور اسے کہتی ہے بیٹا چپ ہو جاؤ اب رونے سے کیا فائدہ وہ حیران ہو کہ دیکھتی ہے کیونکہ مرنے والے زندہ انسانوں کی نظر اوجھل تھے۔

اس روح نے اس کی پریشانی بھانپ لی۔ مسکرا کر بولی میں بھی تمہاری طرح اس طوفان کی زد میں آگئی ہوں ہم مر چکے ہیں ہمارے ساتھ اور بھی لوگ مرے ہیں سب کی روحیں یہاں پھر رہی ہیں۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتی ہیں وہ اس روح سے پوچھتی ہے تو ہم ابھی تک یہاں کیوں ہیں ہمیں اوپر کیوں نہیں بھیجا گیا۔ وہ دوسری روح کھڑکی کہ ٹوٹے ہوئے شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے بولی کیونکہ ہم بے موت مارے گئے ہیں اوپر والے نے ابھی ہماری موت کا پروانہ جاری نہیں کیا تھا۔

اس نے دوبارہ پوچھا تو کیا اب ہمارے سامنے انصاف ہوگا۔ وہ روح ہنسنے لگی۔ ہنستے ہوئے بولی جب انصاف کے رکھوالے بے انصافی کریں تو انصاف نہیں ملتا۔ اب یہ معاملہ بڑی عدالت میں چلا گیا ہے۔ رب کی عدالت میں۔ اب یہ فیصلہ وہاں ہوگا۔ زمین والوں کے بس کی بات نہیں ہے اب یہ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے انا کی اس جنگ میں اس نے زندگی ہاری تھی وہ بے قصور تھی مگر وہاں قصور پوچھا ہی نہیں کسی نے۔ وہ بے حسی کی بھینٹ چڑھی تھی۔ اور وہ ہی نہیں پتہ نہیں کتنے معصوم نہتے لوگ اس بے حسی کی بھینٹ چڑھے تھے۔ جانے والے اپنی فتح کا پرچم ان کے خون سے بلند کر کے چلے گئے تھے اور ان کی روحیں انصاف کے لیے بھٹک رہی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اب انصاف کے رکھوالوں سے انصاف کون دلائے گا؟

انصاف کی جنگ اب کون لڑے گا؟
کیا ان بے گناہوں کا خون رائیگاں تو نہیں جائے گا؟
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
ہاں کہنے کو وہ خادم ہیں
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).