ہاں، ہاں، میں بخشو ہوں !


\"husnainکہا تھا کس نے کہ عہد وفا کرو اس سے
جو یوں کیا ہے تو پھر کیوں گلہ کرو اس سے

احمد فراز کو ستم ظریفوں نے کالج میں پڑھنے والوں کا شاعر قرار دیا، ظلم کیا۔ ان کے شعر زندگی کے تمام تلخ حقائق کو بیان کرتے ہیں اور کسی بھی صورت حال پر منطبق کیے جا سکتے ہیں۔
ذرا رکیے، فقیر نے سوچا تھا کہ تحریر میں مشکل الفاظ سے پرہیز کیا جائے گا لیکن اب منطبق کا تو کچھ ہو نہیں سکتا۔ لاگو کرنا ذرا قانون ساز اداروں جیسا لفظ ہے تو اس سے پرہیز کیا جانا ہی بہتر تھا۔ انگریزی لفظ اپلائے کا استعمال کرنا بھی ایسے لطیف شاعر کے ساتھ مناسب نہ تھا۔ تو بس یہ منطبق ہی بچتا ہے، گزارہ مزارہ کر لیجیے اور آگے بڑھیے۔

سعودی وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر کے حوالے سے ایک خبر 25 جنوری کو ایک انگریزی اخبار میں دکھائی دی۔ سچ پوچھیے تو اس بات کا بہت پہلے سے یقین تھا لیکن ایک احساس زیاں بہرحال دل میں پیدا ہوا جو شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ تو وہ احساس اب مجبور کرتا ہے کہ اس خبر پر کچھ گفتگو کر لی جائے۔ مختصر سا جائزہ لیجیے؛

ISLAMABAD: Saudi Foreign Minister Adel al Jubeir has denied that Pakistan mediated between Saudi Arabia and Iran amid recent tensions between the two rival countries, Bahrain’s state media reported Monday.

سعودی وزیر خارجہ نے اس خبر کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے دو پرانے مخالف ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔

ہمارا مسئلہ کیا تھا، اس سے پہلو تہی کر کے آپ جو مرضی بیانات کی آندھی چلاتے رہیں، بات نہیں بنے گی۔ دیکھیے پاکستان اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتا تھا تو اس نے بہترین حکمت عملی اختیار کی۔ وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی، انہیں پاکستان کے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا، بہترین سفارتی کوششیں بروئے کار لائی گئیں اور معاملہ اپنے ناتواں کندھوں سے بہر طور اٹھا کر الگ رکھ دیا گیا۔ اس سے بہتر کیا ہو سکتا تھا آپ سوچ لیجیے۔

سعودی وزیر خارجہ کے اس بیان میں مزید یہ کہا گیا کہ ریاض اور تہران کے درمیان کچھ ممالک نے تبادلہ خیال اور ثالثی کی پیش کش کی ہے مگر جب تک ایران مثبت طریقے سے پیش نہیں آتا، اس معاملے میں کوئی پیش رفت کی امید یا ثالثی قبول نہیں کی جا سکتی۔ دوسری طرف وزیر اعظم نواز شریف کے بیانات پر نظر ڈالیے تو ان کا لب لباب یہی سامنے آئے گا کہ ثالثی کی پیش کش کو دونوں ممالک کی جانب سے خیر مقدم کہا گیا۔

اس موقع پر دو نہایت اہم سوال پیدا ہوتے ہیں۔

اگر کوئی ملک ہمیں بطور ثالث اہمیت ہی نہیں دیتا تو ہم کیوں دوڑے چلے جاتے ہیں؟

اور سعودی وزیر نے یہ بیان چارسدہ حملے کے چار دن بعد ہی کیوں دے دیا، کیا انہیں اس بیان کی سفارتی اہمیت اور نواز حکومت کی پوزیشن معلوم نہیں تھی؟

پہلے سوال کے جواب میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ بطور ایک امداد دینے والے دوست ملک کے، سعودی عرب کا مقام ہمارے حکم رانوں کے نزدیک وہی ہے جو ہر امداد لینے والا ملک ان کو دیتا ہے۔ یعنی، ایک امیر لیکن مشکل دوست۔ قطع نظر دیگر معاملات از قسم طالبان یا مدارس کی مالی امداد، موجودہ حکومت نے ہر مشکل وقت میں سعودی حکم رانوں کو اپنے شانہ بہ شانہ پایا اور یہاں تک کہ جلاوطنی بھی وہیں کاٹی تو ایک دم منہ پھیرنا ان کے لیے واقعی بہت مشکل تھا۔ لیکن شام پر بمباری اور دیگر حالیہ واقعات کی وجہ سے رائے عامہ چونکہ ان کے خلاف تھی اور ہئیت مقتدرہ بھی اس معاملے میں غیرجانب دار رہنا چاہتی تھی تو یہ ثالثی والی بھاگ دوڑ شروع کی گئی۔ اور بہت حد تک اس مہم کو عوام میں پذیرائی بھی ملی کہ یہ ان کے دل کی آواز تھی۔

مسئلہ پیدا ہوا جب محترم سعودی وزیر کا بیان سامنے آیا۔ ابھی چارسدہ سانحے کی گرد نہیں بیٹھی تھی۔ وزرا اس بات کے طعنے جھیل رہے تھے کہ وطن دہشت گردی کے عالم میں ہے اور یار لوگ دنیا میں ثالثی کراتے پھر رہے ہیں۔ آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ وہ کاسنی شوخ صحافی بھی سیلفیوں کی صورت مزید قیامت ڈھا رہے تھے۔ تو یہ سانحہ سیاسی قیادت کے فیصلوں پر ایک سوالیہ نشان تھا اور اس دوران بیان آ گیا سعودی عرب کی طرف سے۔ بہت اچھا کیا جو ہمارے ذرائع ابلاغ نے اسے کچھ زیادہ اہمیت نہ دی۔ ہم بھی نہ دیتے، لیکن اب چوں کہ معاملات کافی سنبھل چکے ہیں اور گنجائش موجود ہے کہ چند نئے سوال میدان میں لائے جا سکیں تو ہم نے بھی سوچا کہ دل کے پھپھولے پھوڑ لیے جائیں۔

وہ جو احساس زیاں تھا وہ یہی تھا کہ ہم اپنی جان ہلکان کر چکے برادر اسلامی ممالک کے تنازعات میں۔ بدنامیاں مول لیں، اپنے ہی لوگوں کے طعنے سنے، ایسے میں کیا تھا کہ اگر ہمارے وزیر اعظم کا ایک بیان برداشت کر لیا جاتا، اس کی تردید نہ کی جاتی۔ دیکھیے دنیا بھی جانتی ہے، ہم بھی جانتے ہیں کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ ثالثی تو الگ چیز، ہم تو اپنے جھگڑوں پر ہی متفق نہیں ہوتے۔ محترم چوہدری نثار کی حالیہ پریس کانفرنس دیکھ لیجیے اور ہماری بات سمجھیے۔ اب کیا تھا جو ہمیں جھوٹ موٹ کا ثالث برداشت کر لیتے اور ہماری محنت اور محبت کی لاج رکھ لیتے۔ ہم تو ہمیشہ آپ پر تن، من دھن نچھاور کرتے آئے ہیں، آئندہ بھی کریں گے لیکن صاحب کچھ صلہ تو ہوتا ہماری محبت کا۔ وہی فراز اسی غزل کے مقطع میں کیا کہتے ہیں، ذرا دیکھیے؛

فراز ترک تعلق تو خیر کیا ہو گا!
یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اس سے

ایران کیا کہتا ہے اور کیا کرے گا، سعودی عرب کیا کہتاہے اور کیا کرے گا، ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ بطور ایک پاکستانی ہمارے کسی بھی منتخب سربراہ کی ایک عزت ہوتی ہے، ایک وقار ہوتا ہے۔ اور اگر اسے اپنی داخلی مجبوریوں کے تحت کوئی بیان حقائق سے فروتر دینے پر مجبور ہونا پڑے تو اس کا احترام کیا جائے۔ ایک پاکستانی کو بقول وسعت اللہ خان صاحب یہ سوچنے پر مجبور نہ کیا جائے کہ وہ واقعی میں ایک \”بخشو\” ہے۔ اور بخشو سب کا ہے، بخشو کا کوئی نہیں…. تو پھر بخشو، بی بلی….

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments