جلا کر راکھ بنادوں گا


ایک فرض شناس پولیس والے کا کام ہے وہ اپنی ڈیوٹی نبھاتے وقت اپنے فرض کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے۔ ایسے ہی ایک فرض شناس پولیس اہلکار نے ایک کار والے کو روکا اور کہا بھائی گاڑی سائیڈ پر لگا دیں، دوران ڈیوٹی تفتیش کرنا پولیس کا کام ہے اگر وہ آنکھیں بند کرکے سوتے رہیں تو گناہ گار دندانتے پھریں گے یہ الگ بات ہے کہ سب پولیس والے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کار والا غصے میں کہتا تھا گاڑی سائیڈ پر ہی ہے مجھ سے بدتمیزی نہ کریں، بیچ روڈ گاڑی روک کر کہتا ہے سائیڈ پر ہے۔

سید ہوں جلا کر راکھ بنا دوں گا، جلانے تک تو بات ٹھیک تھی گاڑی سے اترتے ہی سیدھا چیف صاحب کو اپنا ماموں اور خود کو ایم این اے کا بیٹا بتایا، وزیراعظم، وزیراعلی کو اپنا دوست بتایا اور کہا وہ میرے سامنے دو زانو بیٹھتے ہیں (مثلا تشہد) میں بیٹھتے ہیں۔ سوچا ہو گا ملک کے کرتا دھرتا ہے ان کا نام لوں گا تو پولیس والے ڈر جائیں گے اور میں نشے کی حالت میں جو کرتا پھروں گا مجھے کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا پولیس تو پھر پولیس ہی ہے نا، انہوں نے بھی نہیں بخشا تفشیش شروع کردی اور وہ مسلسل دھکمیاں دیتا رہا۔

میجر جرنل آصف غفور، کرنل فاروق میرے ماموں ہیں۔ ابھی میں میجر اسلم سے مل کر آرہا ہوں مجھے کسی نے ماں کی گالی دی تھی تو میجر نے اسے بلا کر مرغا بنایا اور ڈنڈے مارے پھر جا کر میں نے اسے معاف کیا۔ آرے بھائی جب تو سید ہے تو بندہ پوچھے جب تجھے وہ شخص ماں کی گالی دے رہا ہے تو اسے اسی وقت ہی جلا کر راکھ بنا دیے، پولیس والے کو تو جلال میں آکر راکھ بنانے کی دھکمی دے رہا ہے۔ پولیس والا اپنا فرض نبھا رہا ہے تجھے ماں بہن کی گالی بھی نہیں دے رہا تو اسے راکھ بنانے کی دھکمی دے رہا ہے بے شرمی کی بھی حد ہوتی ہے۔

سر آپ مجھے سمجھنے کی کوشش کریں میں کوئی نارمل انسان نہیں ہوں ( آئی ایم اے ناٹ نارمل پرسن آئی ایم اے کیپٹن) ، پولیس والے بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے ارے بھائی وہ صحیح تو کہہ رہا ہے میں ایک نارمل انسان نہیں ہوں میں پاگل ہوں، اسے پاگل خانے ہی بھیجنا چاہیے تھا۔ ایسا ایک واقعہ کچھ دن پہلے کراچی میں پیش آیا جب ایک خاتون ٹریفک پولیس والے کے ساتھ بدتمیزی کرتی ہے میں تمہیں نوکری سے نکلوا دو گی بڈھے کہیں کے غلطی اسی خاتون کی ہوتی ہے سگنل وہ توڑ آکر آ رہی ہوتی ہے۔ پولیس کا تو کام ہے جو غلطی کرے اس کا چالان کر دے۔

لیکن وہ اپنی دولت کے نشے اور اثرورسوخ کی بنا پر پولیس والے کو حقیر سمجھ کر اسے گالیاں دینا شروع کر دیتی ہے۔ آج یہ موصوف پولیس والوں پر چڑھ دوڑے جیسے ان لوگوں نے ملک کو خرید رکھا ہو۔ مانتے ہیں تمہارے پاس پیسہ ہے تمہارے جاننے والے اس ملک کے کرتا دھرتا ہیں اور تم جس طرح چاہو قانون کی دھجیاں اڑاتے پھرو اگر کہیں پکڑے جاؤ تو اپنا اثر رسوخ دکھانا شروع کر دو۔ اب تو تبدیلی آچکی ہے ایسے نہیں چلے گا۔ امیر ہو، اثررسوخ والے ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر جس طرح چاہے روند دو۔

جب پولیس اپنے فرض سے ہٹ کر چند پیسوں کی خاطر ان جیسے لوگوں کے لیے نوکری کرے گی پھر جب یہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ باہر نکلیں گے تو یہ نہیں دیکھیں گے میرے آگے کوئی قانون دان ہے یا باوردی پولیس اہلکار، ان کی نظر میں سب برابر ہیں۔ پولیس کو اپنا معیار بلند کرنا ہو گا۔ ارے بھائی تمہیں جتنی تنخواہ ملتی ہے وہ بہت ہے۔ غریب سے پوچھو وہ اپنی قلیل آمدن میں کیسے گزارہ کرتا ہے اسے تو کسی دن کام ملتا ہے اور کسی دن ملتا بھی نہیں لیکن اس کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے میرے بچوں کے پیٹ میں حرام کا لقمہ نہ جائے۔

پولیس کو بھی اپنا معیار بلند کرنا ہو گا نہیں تو ایسے لوگ بیچ چوراہے ایسے ہی تمہاری عزتیں اتارتے رہیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ پولیس کی وردی میں کمیرہ سسٹم نصب کرے تاکہ اس طرح کے واقعات کا ریکارڈ رکھا جائے اور ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دی چاہیے، پولیس والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں انعام اور ترقیاں دی جائیں تاکہ معاشرے سے رشوت خوری کی بیماری کا صفایا کیا جا سکے۔ اس کا جھوٹ تو بے نقاب ہو گیا نا وہ کسی کا بھانجا تھا نا وہ کسی وزیر کا دوست تھا وہ ان کا نام استعمال کرکے اپنی جان چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا جیسے پولیس نے ناکام بنا دیا۔ وزاراء کو بھی حکومت حکم دے کہ ان کے عہدے کی وجہ سے کوئی دوست یا رشتہ دار ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).