نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزاراحمد کی وجہ شہرت قبضہ مافیا کی سخت مخالفت ہے


جسٹس گلزار احمد کو نیا چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا گیا ہے۔ ان کے حلف اٹھانے میں ابھی کچھ ہی دن رہ گئے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد کی شہرت بطور، اینٹی انکروچمنٹ مافیا جج کے پاکستان کے گلی کوچے میں موجود ہے۔ قبضہ گیر مافیا، قبضہ گیر ذہنیت کے مالک لوگ، قبضہ گیرون کے سہولت کار سرکاری افسر و ملازم سب ابھی سے پریشان ہیں اور ان میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، جبکہ پارکوں، اسکولوں، رفاعی پلاٹوں، بازاروں، سرکاری پلاٹوں، قبرستانوں، پر قبضہ کرنے والوں کو بھی فکرلاحق ہو گئی ہے۔

یہ بات میں ہوا میں نہیں کہہ رہا، بلکہ سندھ حکومت میں میرے ایک انتہائی قریبی لا افسر نے بتایا ہے کہ جسٹس گلزار نے ابھی حلف ہی نہیں اٹھایا، ابھی صرف نامزدگی ہوئی ہے کہ سندھ میں ان کے جو انکروچمنٹ کے خلاف مختلف آرڈر پڑے ہوئے ہیں، جن پر عمل تو دور ان کو کوئی دیکھ ہی نہیں رہا تھا ان کیسوں پر اب ایک دم سے کاغذی کارروائیاں شروع ہیں تاکہ وقت آنے پر سرکاری ملازم یہ دکھا سکیں کہ انہوں نے اپنے حصہ کا کام کیا ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں انہوں نے لیٹر نکالا ہوا ہے۔

پاکستان کے نامزد چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد، نور محمد ایڈوکیٹ (مرحوم) کے صاحب زادے ہیں، کراچی میں ان کی پیدائش، تعلیم، وکالت اور جوڈیشری میں آمد ہوئی، گذشتی دو تین سالوں میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار اور جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں چلنے والے انکروچمنٹ کے کیسزمیں ایسے زبردست فیصلے کیے ہیں کہ عوام کا دل جیت لیا ہے، کراچی کے دل ایمپریس مارکیٹ کا پچاس سال پرانا قبضہ ختم کروانے کا حکم کوئی معمولی کیس نہیں تھا، جبکہ بولٹن مارکیٹ، بندر روڈ، اور کراچی کے دیگر علاقوں سے سالوں پرانے قبضہ ختم کرانے کا حکم ایک نا ممکن کارنامہ تھا۔

ایمپریس مارکیٹ کراچی، شہر کا مرکز اور کراچی کا لینڈ مارک ہے مگر انکروچمنٹ اور قبضہ گیروں نے اس کو اسی طرح یرغمال بنا رکھا تھا جیسے کوئی مافیا کسی علاقے کو فتح کر کے تاراج کرتی ہے۔ اس خوبصورت عمارت کے ساتھ کئی سالوں سے زیادتی جاری تھی۔ ایمپریس مارکیٹ ہی نہیں صدر کراچی کی ہر گلی برٹش حکومت نے اتنی ہی خوبصورت بنائی تھی کہ آج بھی کسی عمارت کہ دیکھ کر اس کے حسن کی داد دیے بنا گزر جانا گناہ لگتا ہے۔ مگر ہمارے بھائیوں نے کاروباری قبضہ گیری کرکے اس شہر کی عزت ہی لوٹ لی۔ اس شہر سے صرف کمایا ہے، اس شہر کا خون چوسا ہے، اس پر لگایا کچھ بھی نہیں اور اس شہرکی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کراچی ایمپریس مارکیٹ ہی نہیں صدر کی ہر گلی ہر فٹ پاتھ پر قبضہ ہے۔

کراچی سے باہر سکھر قدرتی حسن سے بھرپور سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے مگر سندھ کے ہر شہر کی طرح انتظامی طور پر بدحال اور برباد ہے اور شہر کے بازار مکمل طور پر قبضہ مافیا کے قبضے میں ہیں۔ مشرق میں پنجاب کی طرف رحیم یار خان، جنوب میں نواب شاہ اور شمال مغرب میں سبی بلوچستان تک کے عوام سکھر کے بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ اس شہر کے بازار کشادہ اور شاندار ہوتے تھے مگر آج کل یہ شہر مکمل طور پر قبضہ مافیا کی وجہ سے انتہائی تکلیف دہ منظر پیش کر رہا ہے۔

بازاروں میں ہر دکاندار نے اضافی قبضہ کیا ہوا ہے۔ اسی طرح سکھر کا مشھور، معصوم شاہ کا مینارہ جو کسی بھی طرح اٹلی کے پیسا ٹاور، استنبول کے گلاٹا ٹاور یا انڈیا کے قطب مینار سے کم نہیں ہے، جس طرح ہم نے اپنے ملک میں کسی چیز کی قدر نہیں کی اسی طرح معصوم شاہ کا مینارہ بھی آج کل لاوارث ہے اور اس کی ارد گرد قبضہ گیروں نے ایسا قبضہ کیا ہوا ہے کہ اس مینارے کا تقریبا چار سو سال پرانا دروازہ بھی نظر نہیں آتا جو صرف چند برس قبل ہی ایک کلو میٹر دور سے بھی نظر آتا تھا۔

اب اس کے دائیں بائیں قبضہ کی دکانیں بنی ہوئی ہیں۔ صرف دس بارہ سال پہلے معصوم شاہ کا مینارہ، اس کا داخلی دروازہ دور سے نظر آتا تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے دروازے کے دونوں اطراف دکانیں بننا شروع ہو گئیں اور اب وہ داخلی گیٹ ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ کس جگہ ہے، اس تاریخی جگہ کے اطراف میں دکانیں اور قبضے بالکل ایسے ہی ہیں جیسے ایمپریس مارکیٹ کراچی کے چاروں طرف تھے،

دو سال قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس انکروچمنٹ کے خلاف آپریشن سے پہلے ایک ہی حکم سے لوئر کورٹس کی طرف سے جاری سب اسٹے آرڈر رد کر کے شاندار کام کیا۔ انتظامیہ انکروچمنٹ ختم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہی نہیں مگر اگر کوئی اچھا آفیسر چاہتا بھی تھا کہ شہر سے غیر قانونی تجاویزات ہٹائی جائیں تو ان کے آگے ایک سیاستدان رکاوٹ بنتے آئے ہیں دوسرے لوئر کورٹس کے اسٹے آرڈر جو کئی کئی سال جاری رہتے ہیں۔

چھوٹے بڑے شہروں اور دیہات سے غیر قانونی تجاویزات ہٹانا مکمل طور پرصوبائی حکومت کا کام ہے مگر حکومت اس میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اسی لئے اس تحریر کے توسط سے آنے والے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس گلزار احمد صاحب سے پر زور اپیل کی جاتی ہے کہ سندھ کے دیگر شہروں کی بھی غیر قانونی تجاویزات نے بہت بری حالت کر رکھی ہے۔ بڑے شہروں میں تو پھر بھی میڈیا یا کچھ قانون کی حکمرانی نظر آتی ہے مگر چھوٹے شہروں میں کوئی پوچھنے والا نہیں، قانون توڑنے والے ہی حکمران اور قانون کے رکھوالے ہیں۔

ہر ادارے پر ان کا راج ہے، لوئر کورٹس تک ان کے اثر میں ہیں۔ سندھ کے ہر شہر کی بری حالت ہے۔ سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد، خیرپور، ٹھٹھہ، بدین، دادو، شکارپور سب شہروں کی فٹ پاتھیں، گزرگاہیں، رستے کاروباری طبقے کے قبضہ میں ہیں، سندھ کے ہر شہر کی بازاریں اور مرکزی شاھی بازاریں غیر قانونی تجاویزات سے اٹی ہوئی ہیں۔ جیکب آباد، شکارپور، سکھر، کندھ کوٹ، میہڑ، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر کئی شہروں کے سٹی سینٹر کے نشان کے طور پہ انگریزوں نے گھنٹہ گھر بنائے تھے۔

ان گھنٹہ گھروں کے تو تاریخی گھڑیال بھی کرپٹ لوگوں نے اتار کر بیچ دیے، سکھر کا گھنٹہ گھر تو مکمل طور پر موٹر سائیکل پارکینگ مافیا کے قبضہ میں ہے، مگر کم از کم اب آنے والے چیف جسٹس آف پاکستان جناب گلزار احمد اس سلسلے میں پورے سندھ کے اسٹے آرڈر ختم کر کے کراچی ایمپریس مارکیٹ کی طرح سندھ بلکہ پورے ملک کے دیگر شہروں سے بھی غیر قانونی تجاویزات ختم کرا کر پورے پاکستان، بلخصوص سندھ کے لوگوں کو بھی اپنے شہروں کی خوبصورتی دیکھنے کا موقع فراہم کریں گے تو یہ ان کی تاریخی خدمت تصور ہوگی۔

نئے چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر جسٹس گلزار احمد 22 دسمبر 2019 ء کو عہدہ سنبھالیں گے اور فروری 2022 ء تک چیف جسٹس آف پاکستان رہیں گے۔ ان دو سال اور دو ماہ میں، امید یہ ہی ہے کہ وہ ملک سے انکروچمنٹ کے شعبے میں لگ بھگ ایک صدی کا گند صاف کر جائیں گے۔ قبضہ گیروں نے زندہ انسانوں کی زندگی، شہری خواہ دیہی تو غیر مہذب کر ہی ڈالی ہے مگر، قبرستانوں کو بھی نہیں بخشا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).