انڈیا کی لوک سبھا میں اینگلو انڈین کی نمائندگی ختم کرنے کا بل منظور


انڈین پارلیمان

اینگلو انڈین ایک ایسی برادری ہے جس کے آباؤ اجداد کسی نہ کسی طرح برطانوی شہری رہے ہیں

انڈیا میں شہریت کے ترمیمی بل 2019 کی منظوری اور اس پر جاری بحث کے درمیان لوک سبھا سے پاس ہونے والے ایک اور بل پر شاید بہت کم لوگوں کی نظر گئی ہے۔

جہاں انڈیا کے ایوانِ زیریں یعنی لوک سبھا میں شیڈول کاسٹ یا ’نچلی‘ ذاتوں اور قبائل کے کوٹے کو مزید 10 سال کے لیے بڑھا دیا گیا ہے وہیں اینگلو انڈین برادری کے اراکین کی نامزدگی ختم کرنے کا بل بھی منظور کیا گیا ہے۔

‏گذشتہ 70 برسوں سے شیڈول ذاتوں اور قبیلوں کو کوٹا مل رہا ہے۔ پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں میں اینگلو انڈین برادری کے لوگوں کو بھی نامزد کرنے کی روایت رہی ہے۔

یہ انتظام 25 جنوری سنہ 2020 تک تھا جسے اب مودی حکومت نے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اینگلو انڈین برادری کے نمائندگان نے الزام لگایا ہے کہ اس بل کے ذریعے اُن کی شناخت کو ختم کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

شہریت کے قانون کے خلاف مظاہروں کا دائرہ وسیع

’اتنا کچھ کھونے کے بعد اس شہریت کا کیا کریں؟’

شہریت کا قانون : انڈیا کے ہندو ہی ہندوؤں کے مخالف کیوں؟

انڈین ریاستیں شہریت کے قانون کو روک سکتی ہیں؟

اپوزیشن نے جب اس تجویز کی مخالفت کی تو اس وقت مرکزی وزیرِ قانون روی شنکر پرساد نے حزب اختلاف پر 20 کروڑ شیڈول ذاتوں اور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔

انھوں نے کہا کہ اینگلو انڈینز کے معاملے پر بحث کر کے وہ شیڈول ذات اور قبائل کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

روی شنکر پرساد

روی شنکر پرساد کے مطابق انڈیا میں صرف 296 اینگلو انڈینز باقی رہ گئے ہیں

ملک میں کتنے اینگلو انڈین ہیں؟

روی شنکر پرساد نے یہ بھی کہا کہ انڈیا میں صرف 296 اینگلو انڈینز باقی رہ گئے ہیں۔

کانگریس کے رکن پارلیمان ہبی ایڈن کا کہنا ہے کہ مرکزی وزیر کے اعداد و شمار غلط ہیں کیونکہ اس وقت ملک میں تین لاکھ 47 ہزار اینگلو انڈینز ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 331 کے تحت لوک سبھا میں اینگلو انڈین برادری کے دو افراد کو پارلیمنٹ میں نامزد کیا جا سکتا ہے جبکہ آرٹیکل 333 کے تحت اس برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو اسمبلی میں جگہ دی جا سکتی ہے۔

فی الحال 14 ریاستی اسمبلیوں میں ایک ایک اینگلو انڈینز رکن ہیں۔ ان ریاستوں میں آندھرا پردیش، بہار، چھتیس گڑھ، گجرات، جھارکھنڈ، کرناٹک، کیرالہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، تمل ناڈو، تلنگانہ، اتر پردیش، اتراکھنڈ اور مغربی بنگال شامل ہیں۔

آئین کی 126ویں ترمیم کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے بھی اگر پاس کر دیا تو اینگلو انڈین برادری کے ممبران پارلیمان اور اسمبلیوں میں نامزد نہیں ہوں گے۔

احتجاج کیوں ہے؟

آل انڈیا اینگلو انڈین ایسوسی ایشن کے صدر بیری او برائن نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر اس بل کی مخالفت کی ہے اور اس بل کے نقصان کے بارے میں بھی وضاحت کی ہے۔

بی بی سی ہندی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈیرک او برائن کا کہنا ہے کہ جب ہمارے ملک میں کسی کمیونٹی کو چھوٹا کہا جاتا ہے تو حکومت اسے فائدہ پہنچاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایک جانب انڈیا پڑوسی ممالک سے آنے والی اقلیتی برادریوں کو سہولت فراہم کرنے کی بات کر رہی ہے اور پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں اقلیتوں کی تعداد بہت کم ہے اور ہم انھیں اپنے ملک لانے اور سلامتی فراہم کرنے کے بارے میں بات کر رہے ہیں جبکہ ہم اپنے ملک کی ایک چھوٹی سی جماعت کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔‘

اینگلو انڈین ایک ایسی برادری ہے جس کے آباؤ اجداد کسی نہ کسی طرح برطانوی شہری رہے ہیں۔

احتجاج

انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف کئی شہروں میں احتجاج جاری ہے

او برائن نے کہا ’اینگلو انڈین کوئی پسماندہ طبقہ نہیں ہے۔ کوئی بھی ہماری تعداد کو صحیح طور پر نہیں سمجھتا لیکن ہم تین سے چار لاکھ ہیں اور مختلف ریاستوں میں 20 سے 30 ہزار افراد آباد ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم کسی پارٹی کو فتحیاب نہیں کرا سکتے۔ ہماری زبان انگریزی ہے اور بیشتر اینگلو انڈین مسیحی برادری سے ہیں۔‘

’آئین نے مجھے اپنی زندگی گزارنے کا حق دیا ہے اور قانون ساز اسمبلیوں اور پارلیمان میں بیٹھے نامزد اراکین ہماری بات اٹھا سکتے ہیں۔ اگر اینگلو انڈین برادری کا کوئی فرد پریشان ہو تو وہ ان کے پاس جا سکتے ہیں۔ ہم یہ تحفظ صرف اپنی حفاظت کے لیے چاہتے ہیں۔ اینگلو انڈین سکولوں کی سکیورٹی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ان سکولوں میں نامور شخصیات کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔‘

روی شنکر پرساد کے دعوے میں کتنی صداقت؟

انڈیا میں اینگلو انڈینز کی تعداد اتنی ہی ہے؟ اس سوال پر بیری او برائن کا کہنا ہے کہ سنہ 1971 کی مردم شماری تک اینگلو انڈین لوگوں کی گنتی ہوتی تھی لیکن اینگلو انڈین برادری کے لوگوں کا پتا لگانے کے لیے سنہ 2011 کی مردم شماری میں ایسا کوئی نظام نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں ’مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے سنہ 2011 کی مردم شماری میں مذہب کے کالم میں خود کو اینگلو انڈین لکھا تھا، وہ اینگلو انڈین سمجھے جاتے تھے۔ مدھیہ پردیش، اتر پردیش، اتراکھنڈ اور جھارکھنڈ میں بی جے پی حکومت اور پچھلی حکومت نے اینگلو انڈین برادری کے لوگوں کو اسمبلی میں جگہ دی ہے لیکن اب مودی سرکار نے جو اعداد و شمار دیے ہیں، ان ریاستوں میں اینگلو انڈینز نہیں ہیں۔‘

مودی

’پھر آخر کس نے انھیں قانون ساز اسمبلی کا ممبر بنا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف مغربی بنگال میں اینگلو انڈین باقی بچے ہیں جبکہ میرے ہی گھر میں 18 افراد ہیں۔‘

انھوں نے کہا ہے کہ ’ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت ڈیٹا نکالے، ہماری مردم شماری کرائے اور پھر اس کے بعد کوئی فیصلہ کرے۔ حکومت صرف 296 افراد کہہ کر ہمیں مسترد نہیں کر سکتی۔‘

’حکومت برطانیہ کے جانے کے وقت ہمارے رہنمائے اعلیٰ فرینک انتھونی نے کتاب ’برٹش بیٹریل آف انڈیا‘ (برطانیہ کی انڈیا سے بے وفائی) لکھی تھی، اور میں آج یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ سیکنڈ بیٹریل (دوسرا فریب) ہے۔ اس وقت سے باہر کے لوگوں نے دھوکہ دیا لیکن آج ہماری حکومت، ہمارے بھائی بہن ہمیں دھوکہ دے رہے ہیں۔‘

اینگلو انڈینز کو کیا فائدہ پہنچا ہے؟

کیا پارلیمان اور قانون ساز اسمبلیوں میں نامزد ممبران کے علاوہ اینگلو انڈین کمیونٹی کے لوگوں کو کوئی فائدہ حاصل رہا ہے؟

اس سوال پر او برائن کا کہنا ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد کچھ وظیفے دستیاب تھے اور جنوبی انڈیا میں کچھ اداروں کے پاس ایک یا دو نشستیں تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وظیفوں کے خاتمے کے باوجود اینگلو انڈین برادری کے لوگوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا لیکن پارلیمان اسمبلی ریزرویشن کو بند کر کے اینگلو انڈینز کی شناخت کو ختم کیا جارہا ہے۔

اس بل کے خلاف اینگلو انڈین ایسوسی ایشن کی مستقبل کی حکمت عملی پر بات کرتے ہوئے برائن نے کہا ’ہم توڑ پھوڑ کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ ہم وزیر قانون، وزیراعظم اور صدر سے بات کریں گے، ان سے ملاقات کریں گے اور اس پر دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کریں گے۔‘

واضح رہے کہ سنہ 2014 میں این ڈی اے حکومت نے اداکار جارج بیکر اور کیرالہ کے استاد رچرڈ ہے کو اینگلو انڈین برادری کے لیے مخصوص دو سیٹوں پر نامزد کیا تھا جبکہ موجودہ سترہویں لوک سبھا میں فی الحال اینگلو انڈین برادری کی دونوں سیٹیں خالی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp