ناول جلتے چنار سے ایک اقتباس


ہر سُو اندھیرے اور خاموشیوں کے پہرے تھے۔ قمقموں کی روشنیاں چناروں کے پتوں کو سرخ رنگ ِ زیبائی دے رہی تھیں۔ جیسے سرخ لباس میں کوئی دلہن شرمائی شرمائی ہو۔ پیڑوں کے مہیب سائے اس سے اٹکھیلیاں کرتے تھے۔ دور پہاڑوں پر قمقموں کی روشنیاں جھلملاتی تھیں۔ ڈل لیک کے سیاہ پانیوں پر یہ روشنیاں گرتیں تو لہر در لہر رنگیں دھاریاں نمودار ہوتیں۔ ہوا جب ان سے چھیڑخوانی کرتی تو یہ دھاریاں شرما کر اپنے چہرے چھپا لیتیں۔

ڈل لیک کے کناروں پر بستی ہوم بوٹس کی ٹمٹماتی روشنیاں اس امر کی دلیل تھیں کہ ان میں زندگی رواں دواں تھی۔ اُن کی چمنیوں سے اُٹھنے والا دھواں یہ بتا تا تھاکہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ بہت کچھ باقی ہے۔ جب تک یہ دھواں اٹھتا رہے گا حیات کی گہما گہمی جاری رہے گی۔ جھینگروں کی آوازیں فضا میں یوں گونجتی تھیں جیسے کئی حسین پیروں میں پائلیں پہنے رقصاں ہوں۔ کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ماحول میں دہشت کی ملاوٹ کر دیتی تھیں۔

آسمانِ لازوال زمین پر گرا دکھتا تھا۔ ستاروں کی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔ کہیں کہکشاں کی دنیا میں عروسی رسومات جاری تھیں تبھی تو وہ جھلملاتی تھی۔ اُس کی خوشیاں اُس کی دنیا سے باہر بھی گرتی تھیں۔ ڈل لیک کے پانی پر تیرتی تھیں اور رقص کر کے اپنی خوشی کا اظہار کرتی تھیں۔

سنینا نے اچانک کٹورا چاند کو دیکھا تو اُس کے لب ہلے۔

”اے میرے حسین چاند! جا پہاڑوں پر اپنی جانیں ہتھیلی میں لئے بیٹھے آزادی کے متوالوں سے کہہ دے کہ وہ اکیلے ہی آزادی کی راہوں پر گامزن نہیں ہیں۔ ایک بے بس لڑکی بھی ہے جو انہی راہوں کی مسافر ہے۔

اے چاند! اُ ن سے کہہ دے آزادی کے لئے جتنا وہ مچلتے، ہیں، تڑپتے ہیں۔ یہ بے بس لڑکی بھی اتنا ہی تڑپتی ہے، بلکتی ہے۔

اے چاند! اُن سے کہہ دے حریت کے تمہارے نعرے گیت بن کر قوم کے لبوں پر جاری وساری ہیں۔ تمہاری جوان اور نوخیز شہادتوں کے نذرانے رائیگاں نہیں گئے بلکہ وہ لہو کی تڑپ بن کر قوم کی رگوں میں دوڑتے پھرتے ہیں۔

اے چاند! اُن شہزادوں سے کہہ دو کتنی ہی شہزادیاں ہاتھ اُٹھائے تمہاری کامیابی کے لئے دعا گو ہیں۔ اُن کے کان تمہاری کامیابی کے نعرے سننے کے لئے بے چین ہیں۔

اے چاند! قوم کے ان سپوتوں سے کہہ دو کہ مائیں اپنے بچوں کو گود میں لئے اِس لئے بیٹھی ہیں کہ جب ضرورت ہو اُنہیں دھرتی کی حرمت اور آزادی پر قربان کر دیں۔

اے چاند! اُن تک میرا پیغام پہنچا دو جب تک کشمیر کی دھرتی پر پتھر موجود ہیں یہ دشمن کے سروں پربرستے رہیں گے۔

اے چاند! اُ ن سے کہہ دو۔ ایک بلکتی، سسکتی، ناتواں اور کمزور سی لڑکی نکلی ہے تمہاری راہوں پر۔ اُس پر اپنی دعاؤں کے پھول نچھاور کر دو تاکہ اُ س کے حوصولوں کو مہمیز ملے۔

اے میرے چاند! میری ہچکیوں کی صدائیں اوپر پہنچا دوکہ فرشتے ان بے بس آزادی کے متوالوں کے دست راست بن جائیں۔

اُس کی ہچکیاں تھیں کہ رکنے کانام نہ لیتی تھیں۔ ایک بے بس لڑکی۔ اپنی بے بسی پر ماتم کناں تھی۔ وہ حق کے راستے پر چلنے کی استطاعت نہیں رکھتی تھی۔ لیکن حق نے بڑھ کر اُس کا انتخاب کر لیا تھا۔ حق اپنے پیاروں کو جہنم کی آگ میں نہیں دیکھ سکتا اس لئے جہنم سے بچانے کے لئے اُن کانتخاب کر لیا کرتا ہے۔ اور انہیں اُن راہوں کا مسافر بنا دیتا ہے جو جنت کوجاتے ہیں۔ تکلیفیں تو راستے کا پتھر بنتی ہیں۔ مگراُخروی منزل اُن کا مقدر بن جاتی ہے۔ حق خود چل کر اُن تک پہنچ جاتا ہے اور انہیں اس طرح اپنی آغوش میں لے لیتا ہے جس طرح کوئی ماں اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔

اُس کے آنسو تھمتے نہ تھے۔ وہ جتنے بہتے تھے وہ اتنا ہی دُھلتی جاتی تھی۔ پاک ہوتی جاتی تھی۔ آنسو وہ پاک پانی ہے جو تن کو ہی نہیں من کو بھی دھوتا ہے۔ اور من کو پاک کر جاتا ہے۔ پھر اُس من پر لطیف اور نازک باتیں اثر کرنے لگتی ہیں اوروہ حق کے قریب ہو جاتا ہے۔ اپنے مالک کے قریب جس نے اُسے تخلیق کیا۔

چاند میں اُسے راجن کا مسکراتا شرمیلا سا چہرہ دکھتا۔ راجن آجاؤ۔ تم ہی میری اُمید ہو۔ تم ہی میرا سہارا ہو۔ تم ہی میری پہلی اور آخری محبت ہو۔ اب میں تم پر شک نہیں کروں گی، نہ کہوں گی کہ تم بھی مجھ سے فلرٹ کرتے ہو۔ میں تم پر اعتبار کروں گی۔ ایک دفعہ میری محبت کی دنیا میں آکر کہہ دو کہ تم مجھ سے پیار کرتے ہو۔ راجن میں تمام عمر تمہارا انتظار کروں گی۔ اب یہ سنینا تمہارے لئے ہے۔ تم اسے قبول کرو یا نہ کرو یہ پھر بھی تمہاری ہے۔

رات آہستہ آہستہ ڈھلتی رہی۔ جب اکیلے پن کا احساس اُس کی جان کوکھانے لگا تو وہ اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ تنہائی، لاچاری اور بے بسی نے اُس کی روح تک کو بیمار کر دیا تھا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے تھے جیسے بارش کے بعد درختوں کے پتوں پر ٹھہرے پانی کے قطرے ٹپکتے ہیں۔

کیپٹن سنیل کی شکل اُ س کے دماغ سے نہ نکلتی تھی۔ جب بھی اُس کا خیال آتا وہ دانت پیستی تھی۔ اُسے لگتا تھا وہ انسان نہیں انسان کے روپ میں کوئی بھیڑیا تھا۔ جس کاکام ہی معصوم بے بسوں کو چیر پھاڑ کرنا ہو۔ اور بھیڑیے کو کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اُسے مار دینا ضروری ہوتا ہے مگر اس خونخوار درندے کو کون مارے گا.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).