سنگین غداری کیس میں سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم


پرویز مشرف

پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سے انھیں مزید مہلت دینے کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کر دیا

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی اور سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے انھیں سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔

جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں تین ارکان پر مشتمل خصوصی عدالت نے یہ مختصر فیصلہ منگل کو سنایا۔

پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کا پس منظر

سنہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز نے حکومت میں آنے کے بعد سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کیا تھا۔

سابق فوجی صدر کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے چار سربراہان تبدیل ہوچکے ہیں لیکن یہ مقدمہ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔

ملزم پرویز مشرف صرف ایک مرتبہ ہی خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوئے ہیں جب ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اس کے بعد سابق فوجی آج تک عدالت پیش نہیں ہوئے ہیں۔

سابق صدر پرویز مشرف مارچ 2016 کو طبی بنیادوں پر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ ان کا نام اس وقت کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کے بعد ملک سے جانے کی اجازت دی تھی۔

پرویز مشرف پر فرد جرم عائد

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے 31 مارچ 2014 کو غداری کے مقدمے میں پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کی تھی۔

واضح رہے وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے شخص ہیں جن کے خلاف آئین شکنی پر مقدمہ چل رہا ہے۔

سابق وزیرِ اعظم، چیف جسٹس غداری کے مقدمے میں شریکِ جرم

سابق فوجی صدر کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ملزم پرویز مشرف کی طرف سے تین نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی لگانے سے متعلق اس وقت کی وفاقی حکومت اور اعلیٰ عسکری اور سول قیادت کو شریک جرم کرنے سے متعلق درخواست کو جزوی طور پر منظور کیا۔

21 نومبر 2014 کو خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے اپنے فیصلے میں اُس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز، وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بھی مقدمے میں شامل کرنے کا حکم دیا۔

تین رکنی خصوصی عدالت میں شامل جسٹس یاور علی نے اس فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ابھی تک ایسے شواہد نہیں ملے جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کا ایمرجنسی لگانے کے فیصلے میں کوئی کردار رہا ہو۔

مشرف کے سہولت کاروں کے خلاف تحقیقات

ستمبر 2015 میں پاکستانی حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں اُن کے سہولت کاروں کے خلاف تفتیش کرنے کو تیار ہے۔

سابق فوجی صدر کے خلاف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے تین نومبر سنہ 2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ میں معاونت کرنے پر اُس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز، وزیر قانون زاہد حامد اور پاکستان کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا تھا۔

مشرف کی بیرون ملک روانگی

18 مارچ 2016 کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف علاج کی غرض سے دبئی چلے گئے تھے۔ دبئی روانگی کے وقت انھوں نے کہا تھا کہ وہ کمر کی تکلیف میں ممبتلا ہیں اور اس کے علاج کے لیے جا رہے ہیں اور وہ جلد پاکستان واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔

مارچ 2016 میں خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت سے تحریری وضاحت طلب کی تھی کہ عدالت سے پوچھے بغیر ملزم کو بیرون ملک کیوں جانے دیا گیا؟

عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس بارے میں تحریری جواب جمع کروائیں۔ جبکہ اس وقت کے حکومتی وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ملزم کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا۔

یاد رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کا نام سنگین غداری کیس میں 5 اپریل 2013 کو ای سی ایل پر ڈالا گیا تھا۔

پرویز مشرف کا بیان سکائپ پر ریکارڈ کرنے کا حکم

رواں برس سات مارچ کو سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں بطور ملزم ان کا بیان ویڈیولنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت میں زیر سماعت اس مقدمے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے میں ہونے والی تاخیر اور ملزم کی وطن واپسی کے لیے حکومتی اقدامات سے متعلق اٹارنی جنرل سے رپورٹ بھی طلب کی ۔

وطن واپسی کے لیے پرویز مشرف کی شرط

رواں برس 11 جون کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نادرا کے حکام کو حکم دیا تھا کہ وہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو بحال کر دیں۔

جبکہ سابق فوجی صدر نے سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے خلاف درج ہونے والے تمام مقدمات میں انھیں ضمانت دینے کی شرط پر وطن واپس آنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

پرویز مشرف کا حقِ دفاع مسلسل غیر حاضری پر ختم

رواں برس 12 جون کو خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر کا دفاع کا حق ختم کرتے ہوئے اُن کے وکیل سے کہا تھا کہ اب وہ ان کا دفاع نہیں کر سکتے۔

عدالت نے مشرف کے مسلسل غیر حاضر رہنے پر ان کا حق دفاع ختم کیا تھا۔ پرویز مشرف تقریباً گزشتہ تین برس سے دبئی میں رہ رہے ہیں۔

چیف جسٹس کا ٹرائل مشرف تک محدود رکھنے کا حکم

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں سب سے اہم موڑ اس وقت آیا تھا جب پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس مقدمے کے لیے قائم کی گئی خصوصی عدالت کو وفاقی حکومت کی شکایت کے عین مطابق ٹرائل صرف سابق آرمی چیف تک ہی محدود رکھنے کا حکم دیا تھا۔

استغاثہ کی پوری ٹیم فارغ

گذشتہ ماہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں وفاقی حکومت نے استغاثہ کی پوری ٹیم فارغ کر دی جبکہ خصوصی عدالت نے حکومت سے اس اقدام کی وجوہات مانگ لی تھیں۔

یاد رہے کہ سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور خان سنگین غداری کے مقدمے میں سابق فوجی حکمران کے وکیل بھی رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp