پہل کس نے کی پولیس نے یا طلبا نے


‘احتجاج اور تشدد کے بارے میں اخبارات میں خبریں تو پڑھی تھیں لیکن جب یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھا تو روح کانپ اٹھی’

یہ الفاظ اونی کول کے ہیں، جو دِلی کی نیو فرینڈز کالونی میں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتی ہیں۔

شہریت کا قانون : انڈیا کے ہندو ہی ہندوؤں کے مخالف کیوں؟

انڈین ریاستیں شہریت کے قانون کو روک سکتی ہیں؟

شہریت کا متنازع ترمیمی بل، انڈیا بھر میں مظاہرے

12 دسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد، شمال مشرقی ہندوستان میں پھیلنے والے احتجاج کے طوفان نے پہلے اترپردیش میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اور پھر دلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی یعنی جے این یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کو اپنی لپیٹ میں لیا۔

اتوار کے روز جامعہ کے طلبہ کا احتجاجی مظاہرہ جامعہ کیمپس سے کچھ ہی دور پہنچا تھا کہ اس نے پرتشدد شکل اختیار کرلی۔ جب آس پاس کے رہنے والے لوگوں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھا تو انہیں یقین نہیں آیا کہ وہ ہندوستان کے دارالحکومت دِلی میں رہ رہے ہیں۔

بی بی سی نے دلی کے علاقے ماتا مندر روڈ کے قریب اور نیو فرینڈس کالونی میں رہنے والے لوگوں سے حقیقت جاننے کی کوشش کی۔

تقریباً پچاس مظاہرین ہمارے صحن میں گھس آئے

پُرتشدد مظاہرے پر طلباء کا الزام ہے کہ پولیس نے بغیر کسی اشتعال کے لاٹھیوں اور آنسو گیس کے گولوں کی بارش کی ، پولیس کا کہنا ہے کہ یہ قدم طلباء کی جانب سے پتھراؤ کرنے پر اٹھایا گیا تھا۔

اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر اونی کول نے بتایا کہ اتوار کی سہ پہر کو وہ اپنے کچھ مہمانوں کے گھر آنے کا انتظار کر رہی تھیں کہ قریب ڈھائی یا تین بجے انہوں نے نعروں کی آوازیں سنیں۔

اونی کا کہنا تھا کہ انکو لگا کہ یہ ایک عام سا مظاہرہ ہے اور نعرے بازی کچھ دیر میں بند ہو جائے گی۔

لیکن نعروں کا شور بڑھتا گیا اور انکے گھر کے قریب آگیا۔ پھر انہوں نے ہزاروں طلبا کو اپنے گھر کے سامنے سڑک پر دیکھا۔ وہ دنگ رہ گئں۔ تاہم، اونی کا کہنا ہے کہ تب تک یہ احتجاج پُر امن طریقے سے ہو رہا تھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ احتجاج کچھ عرصے کے بعد آگے بڑھے جائے گا اور ممکن ہے کہ جلد ہی ختم ہوجائے۔ وہ گھر کے اندر چلی گئیں۔

لیکن اس کے کچھ دیر بعد دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں۔

دھماکہ اتنا قریب تھا کہ آنسو گیس کے دھماکوں کی وجہ سے ان کا کا پورا مکان لرز اٹھا جب اونی اپنی بالکونی کی طرف گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ چاروں طرف افراتفری ہے۔ پولیس آنسو گیس کے گولے گرا رہی ہے اور جواب میں طلباء پتھراؤ کر رہے ہیں۔ وہ ابھی یہ منظر دیکھ ہی رہی تھی کہ قریب 50 مظاہرین اس کے صحن میں گھس آئے۔

اونی کا کہنا تھا کہ ان کے والدین پہلے تو سہم گئے اور انہوں نے اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کر لیا لیکن مظاہرین ان سے پانی مانگ رہے تھے۔

اونی نے بتایا کہ ان لوگوں کی آنکھوں میں جلن ہو رہی تھی اور کچھ لوگوں کو پیاس لگی تھی، لہذا وہ پانی مانگ رہے تھے۔ پھر اونی نے انہیں پانی دیا۔ ‘

وہ کہتی ہیں کہ ان کے گھر میں داخل ہونے والے کچھ لوگ احتجاج کا حصہ بھی نہیں تھے لیکن وہ غلطی سے وہاں پھنس گئے۔

‘جوتے سڑک پر بکھرے ہوئے دیکھے جاتے ہیں’

جب صورتحال قدرے پرسکون ہوگئی تو اس کے گھر والے گھر سے باہر نکلے۔ اونی نے بتایا کہ اس نے دو جلتی ہوئی ڈی ٹی سی بسیں دیکھیں۔ جب بی بی سی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اور کس نے آگ لگائی؟

اونی نے کہا کیونکہ وہ اندر تھیں لہذا اس نے نہیں دیکھا کہ کس طرح اور کس نے آگ لگائی۔

انہوں نے سڑک پر لوگوں کی چپل ، جوتے بکھرے دیکھے اور کچھ لوگوں کو اس وقت پولیس سے چھپتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ یہ سب شام کو ہو رہا تھا۔

مجھے کار چھوڑ کر گھر آنا پڑا

اسی دوران، نیو فرینڈس کالونی کے ڈی بلاک میں رہنے والے وائی ایس گپتا کا کہنا ہے کہ وہ شام چار بجے کے قریب اپنی کار کا پنکچر ٹائر ٹھیک کرنے کے بعد گھر واپس آ رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ جب متھرا روڈ پر احتجاج کی وجہ سے راستہ بند ہوا تو انہوں نے طلباء کی ایک بڑی تعداد کو مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا۔

تب انہوں نے پولیس اسٹیشن کے قریب گاڑی چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور پیدل ہی گھر جانے کے بارے میں سوچا۔ وائی ایس گپتا کا کہنا ہے کہ ایک طرح سے وہ مظاہرین کے ساتھ چل رہے تھے اور جب پرامن طور پر احتجاج جاری تھا انہیں مظاہرین سے کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔ لیکن جب وہ گھر پہنچے تو انہیں خبر ملی کہ بسوں میں آگ لگی ہے اور پولیس نے لاٹھی چارج کیا ہے۔

جگدیپ گپتا، جو پیشے سے وکیل ہیں اور کالونی کے اے بلاک میں رہتے ہیں، بازار سے اپنے گھر لوٹ رہے تھے انہوں نے ہجوم کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔

‘طلبا نے پہلے پتھر نہیں اٹھایا تھا پولیس نے لاٹھی چارج کی تھی’

ان مظاہروں میں شرکت کرنے کے لیے پہنچنے والے جامعہ میں بی اے کے طالب علم عالم کا کہنا ہے کہ احتجاج پر امن طریقے سے جاری تھا پتہ نہیں پولیس کو کیا ہوا کہ انہوں نے لاٹھی چارج شروع کر دیا اور آنسو گیس کے گولے پھینکنے لگے۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا طلبا نے پتھراؤ کیا تھا جواب میں عالم کا کہنا تھا کہ کسی نے پہلے پتھر نہیں اٹھایا تھا لیکن جب پولیس نے حملہ کیا تو کچھ لوگ بھاگ گئے اور کچھ لوگو ں نے اپنے دفاع میں پتھر مارنا شروع کر دیے۔

انکا یہ بھی کہنا ہے کہ جن لوگوں نے بس میں آگ لگائی وہ جامعہ کے طالبِ علم نہیں ہو سکتے۔

پولیس نے واقعے کے بارے میں کیا بیان دیا؟

جنوبی مشرقی دہلی کے ڈی سی پی نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا کہ پولیس پر پتھراؤ کرنے والے یا قریبی مکانوں پر پتھراؤ کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج استعمال کیا گیا تھا۔

کس نے کس کو پہلے مارا اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا جامعہ کے کیمپس میں گھس کر طلبا کو مارنا کہیں سے بھی جائز ہے۔

پولیس کے پی آر او این ایس رندھاوا نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جن لوگوں نے بس میں آگ لگائی تھی وہ بھاگ کر کیمپس میں گھس گئے تھے اس لیے پولیس جامعہ میں داخل ہوئی تھی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیو فرینڈس کالونی میں ہونے والے مظاہرے میں صرف طلبا ہی نہیں شریک تھے بلکہ جامعہ کے آس پاس کے علاقے کے لوگ بھی اس میں شامل تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp