وکلا گردی کی اصطلاح کے استعمال پر ایک معترض وکیل


ریاست پاکستان کا ایک آئین ہے جس کے 20 آرٹیکلز (آرٹیکل 8 سے 28 ) میں ریاست شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی ضمانت بخشتی ہے۔ انہی 20 آرٹیکلز میں آرٹیکل 10 اور 10 (A ) بھی شامل ہیں جو ملزم کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے اس کو مکمل قانونی چارہ جوئی کا حق دیتے ہیں۔

لاھور کے امراض قلب اہسپتال میں جو غیر انسانی واقعہ رونما ہوا ’پاکستانی الیکٹرانک میڈیا نے چند گھنٹوں میں فقط وکیلوں کو قصوروار ٹھہرا کر سماجی ماحول میں وکیلوں کے خلاف جس طریقے سے نفرت کو ابھارا‘ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے پولیس وانتظامیہ اور ڈاکٹرز تو دودھ کے دھلے تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس واقعہ کی مذمت کی اور کہا کہ جو ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا اور معاملہ کو زیر عدالت قرار دیتے ہوئے مزید کچھ کہنے سے اجتناب کیا۔

اس وقت وکلا کے تین بڑے مطالبات ہیں :

ا) واقعہ کی منصفانہ عدالتی تحقیقات (جس کو مان لیا گیا)

ب) ملزمان کو آئین کے متعلقہ آرٹیکلز 10 اور 10 A سے استفادہ کرنے کا حق

د) واقعہ کے تمام ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاے۔

کسی بھی ذی شعور سماج و قانون کے طالب علم کے لئے یہ انتہائی قانونی آئینی اور منطقی مطالبات ہیں۔

ان پانچ دنوں میں مین سٹریم و سوشل میڈیا پر جس حجم میں ”وکلا گردی“ کی اصطلاح کا استعمال ہوا اتنا تو دہشت گردی کی اصطلاح کا استعمال دہشت گردی کے خلاف جنگ کرتے ہوئے بھی پچھلے 20 سالوں میں ہم نے شاید ہی کیا ہو۔ حالانکہ اس جنگ کے دوران اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں مارا جاتا ہے اور اے پی ایس جیسی کربلا پشاور میں برپا ہوتی ہے۔

وکلا گردی کی اصطلاح کا بارہا استعمال کر کے اسے دہشت گردی سے ملانے کی میڈیا کی جانب سے سنسںنی خیز کوشش کی جا رہی ہے جس پر میں بطور وکیل معترض ہوں۔

وکلا گردی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے سے پہلے ”میڈیا گردی“، ”پولیس گردی“، ”بیوروکریٹ و انتظامی گردی“ (جس کی سب سے چھوٹی شاخ ”پٹواری گردی“ ہے بڑی شاخیں تو پھر ”نیب گردی“ تک چلی جاتیں ہیں ) ملاں اور فوج گردی کے نام بھی قارئین نے تاریخ کے مختلف مواقع پر ضرور سن رکھے ہوں گے۔ یاد رہے جہاں سیاسی جماعتوں کو کھل کر کام نہ کرنے دیا جائے اور جمہوریت سے خوف کھایا جائے وہاں پر ”گردی نگر“ ہی آباد ہوا کرتے ہیں ’سو گھبرانے کی کوئی بات نہیں!

اب آتے ہیں مملکت خدا داد میں وکلا گردی کی سماجی نفسیات کے پہلووں کی جانب۔ اس نفسیات کو سمجھنے کے لئے دو حقائق کا جاننا بہت ہی ضروری ہے۔

ا) وکیل بہت سے دوسرے ”گردوں“ کی طرح سرکاری ملازم نہیں ہوتا اور قانون کو بھی بہتر جانتا ہے۔

ب) وکیل بطور سماجی و سیاسی کارکن بہت سے دوسرے ”گردوں“ کی نسبت وسیع عوامی تجربہ رکھتا ہے۔

پہلے نقطہ کی سماجی و نفسیاتی تشریح نہ صرف وکیل کو بلکہ طاقت کی سیاست کے پورے نظام کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ انتظامیہ بہت سارے کیسز میں قانون کا غلط استعمال کر کے سفارش و رشوت کلچر کو فروغ دیتی ہے۔ اس ماحول میں انتظامیہ سے منسلک کسی بھی مدعا میں فریق اگر وکیل ہو جاے تو انتظامیہ (پٹواری سے لے کر چیف سیکرٹری تک ) قانون کا غلط استعمال وکیل کے خلاف آسانی سے نہیں کر سکتی۔ اس لیے شعوری ’تحت الشعوری‘ اور لا شعوری طور پر انتظامیہ کالے کوٹ کو اپنے روز مرہ کے رشوت و سفارش کلچر میں کباب کی ہڈی سمجھتی ہے۔

اگر کوی سوشیالوجی کا طالب علم انتظامیہ و وکلا گردی کے درمیان اور انتظامیہ و دیگر گردیوں کے درمیان غیر قانونی کام نکلوانے کی شرح نکالے گا تو بڑے آرام سے اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ بہت ہی کم وکیل انتظامیہ سے غیر قانونی کاموں کا مطالبہ کریں جب کہ اس کے برعکس انتظامیہ کا افسر اپنے کسی سنیئر یا کسی دوسرے محکمہ کے ہم پلہ افسر کی خاطر غیر قانونی کام کرنے کے لئے اکٹر وبیشتر تیار رہتا ہے جبکہ وکیل کو یہی افسر قانونی فیور بھی با امر مجبوری دیتا ہے۔ وکیل کے اس قانونی فیور لینے کے عمل کو اگر ”وکلا گردی“ کہا جاے تو راقم بطور وکیل اس پر معترض ہے۔

اب اتے ہیں دوسرے نقطہ پر کہ اگر وکیل سماجی و سیاسی کارکن بھی ہے تو اس کا نہ صرف وسیع عوامی رابطہ ہوتا ہے بلکہ وہ انتظامیہ سے لے کر عدالت تک مختلف حکومتی شعبوں سے منسلک بھی رہتا ہے۔

وکیل کی اس صلاحیت کے درپردہ نہ تو کسی دولت کا مان ’نہ کسی نیک و پاک یا بڑے حسب و نسب کا گھمنڈ اور نہ کالونیل انتظامیہ ڈھانچے کا حصہ بننے کا ناز۔ لہذا ہر قسم کے غرور سے پاک یہ مرد مزدور فقط اپنی لاء کی ڈگری کی وجہ سے ہزاروں بے کس و بے آسرا لوگوں کا سہارا بنتا ہے اور ریاستی مشینری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بے کسوں کو بھی مکمل انصاف دے۔ کالونیل انتظامیہ ڈھانچے میں غریب اور کمزور کی سماجی امید ”وکیل“ بہت سے سٹیٹس کو کے رکھوالوں کو دو آنکھ نہیں بھاتی۔ اس امید کو اگر وکلا گردی کہا جاتا ہے تو راقم بطور وکیل اس پر معترض ہے۔

آمریتوں کے خلاف لڑتے لڑتے وکیل جمہوری جدوجہد کا استعارہ بن چکا۔ اس استعارہ کو وکلا گردی کا غلاف پہنا کر اگر کوئی وکیل کا سیاسی کردار محدود کرنا چاہے تو راقم بطور وکیل اس پر معترض ہے۔

انتطامیہ پر اگر کالا کوٹ کسی بھی جانب سے غیر قانونی کام کروانے کے لئے پریشر ڈالتا ہے تو بیشک وہ وکلا گردی کہلاے گی۔ لیکن اگر انتظامیہ سے قانونی حق لینے کو وکلا گردی کہا جاے تو راقم معترض!

وکلا سے اتنی گزارش ہے کہ کوئی وکیل اگر وکیلوں کی کسی بھی تنظیم سے غیر قانونی فیور کا مطالبہ کرے تو اس کی ممبر شپ کینسل کرنے کی تجویز بار کونسلز زیر غور لا کر اعلی مثال قائم کریں کیونکہ وکلا استعارہ ہیں اس ملک میں پولیس گردی ’فوج گردی و انتظامیہ گردی وغیرہ روکنے کا اور انہیں لگام ڈالنے کا۔

آخر میں میڈیا کے بابووں کو یہ اطلاع دیتا چلوں کہ ”وکیل بابو“ برصغیر کی مختلف زبانوں کے لوک گیتوں میں مثبت انداز میں شامل ہو چکا اور یہ شرف کالونیل انتظامیہ ڈھانچہ میں فقط وکیل کے پاس ہے۔ اس لئے چند دنوں کی میڈیا کمپئین وکیل کے امیج کو عارضی طور پر تو زک ضرور پہنچا سکتی ہے مگر مستقل بنیادوں پر ہر گز نہیں۔ یاد رہے وکیلوں کی بہت بڑی اکثریت پی آئی سی واقعہ میں ملوث تمام کرداروں کو جیوڈیشل انکوائری کے بعد کیفر کردار تک پہنچانے میں انتہائی سنجیدہ ہے ’شاید الیکٹرانک میڈیا کے جادوگروں سے کہیں زیادہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).