صحافت سے صحافت تک


کہنہ مشق صحافی اور ریڈیو پاکستان کے سابق کنٹرولر نیوز شبیر صدیقی کی کتاب۔ ، صحافت سے صحافت تک شائع ہوگئی ہے جو صدیقی صاحب کی زندگی اور شخصیت کی آئینہ دار ہے۔

شبیر صدیقی ایک مرنجان مرنج شخصیت ہیں۔ ظرافت ان کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ پہلی نظر میں دکھنے میں معقول آدمی نظر آتے ہیں اور جب آپ کے تعلقات دوستی میں تبدیل ہو جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ معقولیت کے بارے میں آپ کا گمان ایسا غلط بھی نہیں تھا۔

شبیر صدیقی بنیادی طور پر مجلسی آدمی ہیں۔ ہماری ان سے ملاقات کا سلسلہ تب شروع ہوا جب ریڈیو پاکستان کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل جناب انور محمود نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے شعبہ خبر کے چاروں صوبوں کے کنٹرولر صاحبان کو ریڈیو کی سالانہ کانفرنس میں بلانا شروع کیا۔ اس سے قبل اس میٹنگ میں صرف پروگرام ونگ کے لوگ ہی شرکت کیا کرتے تھے اور اپنی مرضی کے فیصلے کر کے دوسرے شعبہ جات پہ تھوپ دیتے تھے۔

بہرحال اس میٹنگ کے حوالے سے جب اسلام آباد کے ہوٹل میں دوستوں کی منڈلی جمتی تو لاہور سے خاکسار، پشاور سے گلزار صاحب کوئٹہ سے الیاس اورکراچی سے شبیر صدیقی شرکت کرتے۔ احباب میں ریڈیو کے زوال کے اسباب پہ گرما گرم بحث ہوتی۔ کوئی صاحب کسی ڈائریکٹر جنرل کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے تو کوئی وفاقی سیکرٹری تو کوئی وزیر اطلاعات و نشریات کو ریڈیو کی تباہی کا مجرم گردانتے۔ ایسے موقع پر شبیر صدیقی سر جھکائے مراقبے کی حالت میں ہاتھ کی انگلیوں سے زاویے بنا رہے ہوتے اور پھر اچانک کوئی ایسا جملہ بولتے جس سے محفل زعفران زار ہو جاتی۔

خصوصی طور پر سکھوں کے جتنے لطیفے انہیں یاد ہوتے، اس پر ہمیں رشک آتا تھا۔ پنجابی میں کہتے ہیں : رانجھا رانجھا کردی، میں آپے رانجھا ہوئی! ۔ شبیر صدیقی سے لگاتار سکھوں کے لطیفے سن کر احساس ہوتا کہ سکھ کوئی قوم نہیں بلکہ اک کیفیت کا نام ہے جو کسی پر بھی طاری ہو سکتی ہے اور شبیر صدیقی سے زیادہ اس کا شناسا کون ہوگا۔

شبیر صدیقی کی کتاب۔ : صحافت سے صحافت تک: دراصل گنجینہ ء معنی کا طلسم ہے۔ معلومات اور مشاہدات کا خزینہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب میں صحافت سے متعلق جن معتبر شخصیات کا ذکر ہے، وہ ہماری صحافتی تاریخ کا زریں اور درخشاں باب ہے۔ سیاست دانوں، حکمرانوں کی ہوس ناکیاں اور میرٹ کی اڑتی دھجیاں جس طرح صدیقی صاحب کے مشاہد ے میں رہیں، انہیں انہوں نے بڑے دردمندانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ جس میں حیرت بھی ہے۔ احتجاج بھی ہے۔ حزن و ملال بھی۔ بہت سے واقعات کو شبیر صاحب نے بہت لطیف پیرائے میں بیان کیاہے، جو انشا ء پردازی کا بہترین نمونہ ہے۔ زبان و بیان پہ قدرت، اختصار اور جامعیت ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔

صدیقی صاحب نے اپنی عملی زندگی کا ابتدائی حصہ اخبارات و جرائد کی ملازمت میں گزارا اور بہت قد آور شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ حاصل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ بڑے لوگوں کی چھوٹی حرکات اور چھوٹے لوگوں کی بڑی باتوں کا ذکر انہوں نے کیا ہے۔ جن سے انہیں انسانی نفسیات کو سمجھنے کا موقع ملا۔ اسی تجربے کو ساتھ لیتے ہوئے وہ ریڈیو میں ملازم ہوئے۔ سرکاری ادارے سے منسلک ہونے کے باوجود انہوں نے ہمیشہ خبر بناتے وقت خبر کی اہمیت کو مدنظر رکھا اور غلط بیانی، کاسہ لیسی، خوشامد اور ابہام سے پرہیز کیا۔ اس سلسلے میں افسران بالا سے ان کی نوک جھونک چلتی رہتی تھی جس کا تذکرہ انہوں نے زیر نظر کتاب میں کیا ہے۔

اس کتاب کا تسلسل انیس سو ستر کی دہائی سے شروع ہو کر دو ہزار کی دہائی تک پھیلاہوا ہے۔ ان واقعات اور مشاہدات کو صدیقی صاحب نے بہت سبھاؤ کے ساتھ نئے انداز میں پیش کیا ہے جسے پڑھتے وقت قاری کی دلچسپی بڑھتی جاتی ہے۔

ریڈیو پاکستان کے آٹھ بجے کے خبرنامے میں چاروں صوبوں کے نیوز کنٹرولزصاحبان کی صوتی رپورٹس نشر ہوتی تھیں۔ پشاور سے گلزار صاحب سرائیکی انداز میں اردو کی رپورٹ پیش کرتے۔ کوئٹہ سے الیاس صاحب سہمے سہمے انداز میں رپورٹس پڑھتے جبکہ کراچی سے شبیر صدیقی صاحب اپنی بھاری بھرکم آواز میں یوں رپورٹس دے رہے ہوتے جیسے کوئی طالع آزما ڈکٹیٹر محاذ جنگ کے اگلے مورچوں پر فوجیوں کو دشمن پر ٹوٹ پڑنے کی ترغیب دے رہا ہے۔

مختصر یہ کہ صدیقی صاحب کے اعلی درجے کے صحافی ریڈیو پاکستان کے بہترین ایڈیٹر اور براڈکاسٹر رہے۔ جہاں بھی رہے، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اپنی طبیعت کی شگفتگی کی وجہ سے لوگوں میں مقبول اور محبوب رہے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے بھولے بسرے لوگوں کو جس محبت سے یاد کیا ہے، اس نے کتاب کی مقبولیت میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).