کوٹری کا تاریخی پل، مذہبی آزادی اور جوان بیٹے کی جھولتی ہوئی لاش


حیدرآباد سے براستہ سڑک کوٹری جامشورو جاتے ہوئے دریائے سندھ پر کوٹری کے مقام پر تاریخی پُل ایک صدی ہوئی تعمیر ہوا۔ راہگیروں کو خوش آمدید کہنے کو بڑی آن و شان سے اب بھی موجود ہے۔ ذرائع کے مطابق اِس پُل کا افتتاح 25 مئی 1900 کو ہوا۔ پُل کے بیچوں بیچ ریلوے ٹریک قائم کیا گیا ہے جبکہ پُل سے متصل دونوں جانب بھاری ٹریفک رواں دواں رہتی ہے۔ راقم کو درجنوں بار اِس سو سالہ پُل پر سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے اوراس پُل اور کوٹری کے باسیوں سے سینکڑوں حسین و خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔ پُل کی تاریخی اہمیت، انسانی ذہانت، پُل کی مضبوطی اور پائیداری، دریا کی روانی اور بل کھاتی لہریں، کناروں کی ہریالی، کشتیوں کے ہُلارے اور مانجھیوں کی پکاریں، بانسری کی مدھر دھنیں اور آس پاس کی جھونپڑیاں سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کا فن خوب جانتی ہیں۔

 22 اکتوبر 2019 کو اِس پُل پر سے ایک طویل عرصہ بعد غائبانہ گزر کا اتفاق اُس وقت ہوا جب ہربرٹ مسیح سے تعزیت کے لئے فون پر بات ہوئی۔ ہربرٹ مسیح پچاس برس کے آس پاس کا ایک غریب محنت کش ہے۔ جوانی میں ہجرت کر کے کوٹری جا بسا تو قسمت نے خاندان کی سربراہی بھی اُدھر ہی طے کر رکھی تھی۔ ہربرٹ اپنے کنبے کی نگہداشت کے لئے دن بھر ریت، پتھر اور سیمنٹ کی پوریاں اُٹھائے پھرتا ہے۔ شام کو گلی میں ہم عمر دوستوں کے ساتھ بیٹھے سیاسی حالات پر اپنے علم کے موافق تبادلہ خیال کرتا اور پھر رات کی آغوش میں مدہوشی اُس کا روز کا معمول ہے۔ نہ کبھی نفرتیں پالیں نہ کورٹ کچہریاں دیکھیں۔ دہایوں سے جی جان سے وقت گزارتا رہا مگر وہ بے خبر تھا کہ اب اُس کے کھاتے میں “جان کے اندر سے تلوار” گزرجانے کا تجربہ لکھا جا چکا ہے۔

ہربرٹ مسیح سے بات کرتے ہوئے اِس بار کوٹری پُل کی تاریخی حیثیت، وقار یا دریائی مناظر سب بے معنی لگے، اِن مناظر میں نہ کوئی چاشنی نظر آئی نہ پُروقار کشش۔ بلکہ سب کچھ اُسی طرح اُداسی اور ماتم میں مبتلا پایا جس طرح ہربرٹ مسیح غم سے نڈھال تھا۔

ہربرٹ کی دکھ بھری کھتا سُنتے ہوئے متعدد بار اِس پُرامن خطے سے متعلق مختلف سوالات ذہنن میں اُٹھنے لگے تو خیالات بھی بے ترتیبی سے اُلجھنے لگے۔ نہ ہربرٹ حوصلے اور ترتیب سے بات کر پا رہا تھا اور نہ ہی مجھ میں اُس کی بات سُننے کا اب حوصلہ باقی تھا۔ ہربرٹ مسیح وقفے وقفے سے سانس بحال کرکے بات کرتا تو دل چیر کے رکھ دیتا۔ کہنے لگتا، ” مجھ سا حوصلہ مند بھی بھلا کوئی اس جہاں میں ہو گا؟ میں نے اپنے بے قصور جوان بیٹے کو رَسے پر جھولتے دیکھا ہے۔ اپنے ہاتھوں اُس کی گردن کا پھندہ کھولا اور اپنے کندھوں پر اُس کا لاشہ اُٹھایا ہے۔ اب جینے کو میرے پاس بچا ہی کیا ہے؟ سوچتا ہوں کیا کوئی شخص اپنے اندر اتنی وحشت بھی پال سکتا ہے ؟ رحم اور قبولیت کا کوئی مقام نہیں رہا۔ ایسا ظلم ڈھاتے اُس کا اپنا ہی کلیجہ کیوں نہیں پھٹ گیا؟

24  سال کا نوید، ہربرٹ کا پہلوٹھی کا بیٹا تھا۔ قد کاٹھ میں لمبا تڑنگا جوان تو جرات، تربیت اور تہذیب میں مثالی۔ باپ کا سہارا بننے کے لئے اپنی تعلیم قربان کر دی۔ معاشی حالات نے ڈھنگ کا کوئی ہنر بھی ہاتھ نہ لگنے دیا تو باپ ہی کے نقشِ قدم پر چل کر اینٹ گارے میں اپنا روزگار تلاش کرنے لگا۔ یاروں دوستوں کے ساتھ مل کے زندگی کے سارے رنگ دیکھے مگر اہلِ خانہ کو کبھی افسردگی میں مبتلا نہ دیکھ سکا۔

ثقافتی رنگ میں رنگا، عزت و غیرت کا داعی اور مسیحی ایمان کا یہ محافظ ایک صبح درخت سے جھولتا ہوا پایا گیا۔ سورج کی پہلی کرنوں نے اُس کے بے جان بدن کی خبر دی۔ اُسے ایسی اذیت اور عبرت کا نشان بنایا گیا کہ اُس کی نعش خوف پھیلانے لگی۔ نفرت کا پیغام دینے لگی۔ انسانی وقار کی دھجیاں اُڑانے لگی۔ مذہبی رواداری پر سوالیہ نشان بن گئی۔ معاشرتی، سماجی و مذہبی ہم آہنگی کے نعروں کا منہ چڑانے لگی۔ اہلِ علاقہ جمع ہونے لگے، جب انسانیت شرمانے لگی تو جلد از جلد اُس کے کفن دفن کا انتظام کیا جانے لگا۔

اطلاعات ہیں کہ نوید مسیح ایک مذہبی گروہ کے راستے میں رکاوٹ تھا، جو نوید کی ایک شادی شدہ کزن کو جبراً مذہب تبدیلی کرنے اور کسی اور سے شادی کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ اُس لڑکی نے نوید سے مدد کی درخواست کی تو نوید نے ابھی اس کی ہر ممکن مدد کی ٹھان لی۔ اِس کوشش کے نتیجے میں اُسے اکثر دھمکیاں دی گئیں۔ چند ماہ قبل تو ایک گروہ نے نوید کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ توہین آمیز برتاؤ کے ساتھ ساتھ اہلِ خانہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

نوید مذہبی آزادی کا متلاشی تھا۔ جیو اور جینے دو کا فروغ چاہتا تھا۔ “دین میں جبر نہیں” کے اعلٰی فلسفے پر عمل درآمد کا خواہشمند تھا لہٰذا وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔ نتیجاً اُسے اپنی جان قربان کرنی پڑی۔

قتل سے ایک رات قبل اُسے بات چیت کی دعوت دی گئی۔ وہ کھلے دل اور صاف نیت کے ساتھ خوشگوار صورتحال کا منتمنی تھا۔ انسانی وقار اور شخصی آزادی کا بول بول رہا تھا۔ وہ اپنی کزن کے لئے کوئی “نوید” لانا چاہتا تھا، مگر اگلی صبح اُس کی نعش ایک درخت سے لٹکتی ہوئی ملی۔ اُس کے جسم پر مبینہ طور پر تشدد کے بے تحاشا نشان تھے۔ نوید کی نعش پیغام چھوڑ گئی۔ مذہبی عدم رواداری، زور زبردستی، تعصب، اذیت اور عدم مساوات کا پیغام۔

ایف آئی آر میں نامزد افراد کو ضمانتیں کروانے میں نہ شرمندگی ہوئی نا تاخیر۔ اطلاعات کے مطابق اب ہربرٹ اور خاندان کے دیگر افراد اُن کے نشانے پر ہیں۔

ہربرٹ مسیح غموں کی صلیب اُٹھائے زندہ لاشہ بنا پھرتا ہے۔ زندگی اُس کے لئے اپنے معنی و مفہوم کھو چکی ہے۔ وہ اب لمحہ لمحہ مر رہا ہے۔ ہربرٹ کے پاس کھونے کو اب بچا ہی کیا ہے؟ تبھی تو وہ کہتا پھرتا ہے کہ ” آگ لگے اِس جیون کو”۔ ویسے کہتا تو سچ ہی ہے ناں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).