جانوروں کے حقوق: ہاتھی کی کھال کی بڑھتی طلب سے ان کی نسل کشی کا خطرہ


ہاتھی

ہاتھیوں کی تعداد میں کمی کے دو بنیادی عوامل ہیں، ایک تو غیر قانونی شکار اور دوسرا جنگلات کی کٹائی

انتباہ: اس مضمون میں چند ایسی تصاویر ہیں جو کچھ دیکھنے والوں کے لیے صدمےکے باعث ہوسکتی ہیں۔

میانمار میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے کنٹری ڈائریکٹر کرسٹی ولیمز کہتے ہیں کہ ’مجھے ایسے لگا جیسے کسی نے میرے پیٹ میں مکا مار دیا ہو۔ میں یہ تصاویر برداشت تک نہیں کر پا رہا تھا۔ مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ بے یار و مددگار ہونے کا احساس ہوا۔‘

وہ ایک ایسے ہاتھی کی تصاویر کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس کی کھال مکمل طور پر اتار دی گئی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’کھال مکمل طور پر اتار دی گئی تھی اور گلابی رنگ کا سڑتا ہوا گوشت واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

آخر ہاتھی اتنا کم کیوں سوتے ہیں؟

جےپور کے ’ہاتھی گاؤں‘ کے ویران ہونے کا خطرہ

چین میں ہاتھی کے دانتوں کی تجارت پر پابندی کا اعلان

’میں گذشتہ 20 سال سے ہاتھیوں کی نسل بچانے کے لیے ان پر تحقیق کر رہا ہوں۔ اس دوران میں نے کئی خوفناک چیزیں دیکھی ہیں مگر یہ اس سب سے بالکل ہی مختلف تھا۔’

ثبوت

ہاتھیوں کی تعداد میں کمی کے دو بنیادی عوامل ہیں، ایک تو غیر قانونی شکار اور دوسرا جنگلات کی کٹائی۔

مگر ایشیائی ہاتھیوں کے لیے ایک نیا خطرہ ان کی کھال کی بڑھتی ہوئی طلب کی صورت میں ابھر رہا ہے۔

ہاتھی

ہاتھی

اس تجارت کے ثبوت 1990 کی دہائی کے وسط میں چین میں سامنے آئے تھے مگر اب یہ واحد ملک نہیں ہے جہاں لوگ ہاتھی کی کھال سے بنی اشیا خرید رہے ہیں۔

’ایلیفینٹ فیملی‘ نامی برطانوی غیر سرکاری تنظیم میں نسل بچانے کے شعبے کی سربراہ ڈیوڈ ایم آگری کہتے ہیں کہ ہمیں پانچ ایشیائی ممالک چین، میانمار، لاگوس، ویتنام اور کمبوڈیا میں کھالوں کی تجارت کے ثبوت ملے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کھالوں کی تجارت اس خطے میں بڑھ رہی ہے۔

مگر طلب بڑھنے کی وجہ کیا ہے؟

ہاتھی کی کھال کو خشک کر کے پاؤڈر بنایا جاتا ہے جسے چین میں دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کھال سے بنائی گئی دواؤں کو السر، معدے میں جلن یہاں تک کہ معدے کے کینسر تک کا علاج بتا کر فروخت کیا جاتا ہے۔

سفوف بنائی گئی کھال کو ہاتھی کی چربی کے ساتھ ملا کر جلد کے انفیکشنز کے علاج کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔ فیشن انڈسٹری بھی زیورات کی تیاری کے لیے اسے خریدتی ہے۔

ہاتھی کی کھال کو کبھی کبھی دانوں کی صورت دے کر ان سے کنگن اور ہار بنائے جاتے ہیں جبکہ پالش کی گئی کھال کے مستطیل ٹکڑوں کو نگوں کی طرح بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

شکار

میانمار میں اب اس طلب کو پورا کرنے کے لیے ہاتھیوں کا بے دریغ شکار کیا جاتا ہے۔

ہاتھی

WWF Myanmar
میانمار میں اب اس طلب کو پورا کرنے کے لیے ہاتھیوں کا بے دریغ شکار کیا جاتا ہے

کرسٹی ولیمز بتاتے ہیں ’ہاتھیوں کو اکثر زہر آلود ڈارٹ سے نشانہ بنایا جاتا ہے اور ہاتھی ہلاک ہونے سے پہلے کئی دن تک تڑپتے رہتے ہیں۔ اس دوران زہر ان کے جسم کے ایک ایک انچ تک پہنچ جاتا ہے۔

’کچھ معاملات میں یوں بھی ہو سکتا ہے کہ کھال اتارے جانے کے وقت ہاتھی مفلوج ہو مگر مردہ نہ ہو۔ انتہائی مہارت اور عرق ریزی کے ساتھ ایک ایک انچ کھال اتار لی جاتی ہے۔’

ایلیفنٹ فیملی کا کہنا ہے کہ کچھ تاجر کھال کے سفوف کو گوہ کی کھال کے ساتھ ملا کر اسے روایتی دوا کے طور پر فروخت کرتے ہیں۔

خطرے کی شکار نوع

ہاتھی ایشیا کے 13 ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی جنگلی آبادی اب 50 ہزار سے بھی کم ہے اور ان کی تقریباً 60 فیصد آبادی انڈیا میں پائی جاتی ہے۔

قدرت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) نے ایشیائی ہاتھیوں کو خطرے کا شکار قرار دیا ہے۔

اپنے قد آور اور بڑے افریقی رشتے داروں کے برعکس مادہ ایشیائی ہاتھیوں کے دانت لمبے نہیں ہوتے۔ اس لیے ہاتھی دانت کے شکار سے مادہ اور بچے بچ جاتے ہیں۔

مگر سمتھسونین کنزرویشن بائیولوجی انسٹیٹوٹ کے سربراہ پیٹر لیمبروگر کہتے ہیں ’یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ کھال اور گوشت کے لیے شکار کیے جانے والے ہاتھیوں کی آبادی پر اثرات ہاتھی دانت کے لیے شکار سے زیادہ منفی ہوں گے۔’

طلب

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق میانمار میں سنہ 2010 سے سنہ 2018 کے درمیان کم از کم 207 ہاتھی مارے گئے ہیں۔

ہاتھی

WWF, Myanmar
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق میانمار میں سنہ 2010 سے سنہ 2018 کے درمیان کم از کم 207 ہاتھی مارے گئے ہیں

ایلیفینٹ فیملی کا اندازہ ہے کہ میانمار میں صرف دو ہزار جنگلی ہاتھی باقی بچے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔

میانمار کے محکمۂ جنگلات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نائی نائی کیاو کہتے ہیں ’ہاتھیوں کا غیر قانونی شکار سنہ 2010 سے ایک بڑھتا ہوا مسئلہ رہا ہے۔’

میانمار میں 1940 کی دہائی میں 10 ہزار جنگلی ہاتھی موجود تھے اور اب ان کا شکار ان کی کھال کے لیے کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر کیاو کہتے ہیں ’آج ہاتھی کے پورے جسم کی طلب ہے کیونکہ چین کے لوگ روایتی دوا بنانے کے لیے اس کی سونڈ خریدتے ہیں۔ کھال کو دانوں جیسے زیورات بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گوشت کو کئی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں اس طلب کے باعث ہاتھی غیر قانونی طور پر ہلاک کیے جاتے ہیں۔’

ہاتھی

WWF Myanmar
ہاتھیوں کی لاشوں کو کھال اتارے جاتے وقت یا جلائے جاتے وقت دیکھا گیا

ہاتھیوں کی لاشوں کو کھال اتارے جاتے وقت یا جلائے جاتے وقت دیکھا گیا۔

سمتھسونین انسٹیٹیوٹ کے محققین نے میانمار میں ہاتھیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے 19 ہاتھیوں پر ریڈیو ٹرانسمیٹر لگائے۔ مارچ سنہ 2015 سے جون سنسہ 2017 کے دوران انھوں معلوم ہوا کہ سات ہاتھی ہلاک جبکہ دو غائب ہو گئے۔

اس کے علاوہ مارچ سنہ 2017 میں محققین نے آیروادی ڈیلٹا کے علاقے میں ایک ہی جگہ پر 20 ہاتھیوں کی لاشیں دریافت کیں چنانچہ ہاتھیوں کی بقا کے لیے کام کرنے والوں کو خدشہ ہے کہ غیر قانونی شکار کے بارے میں درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔

ویتنام

سنہ 2013 میں وسطی ویتنام کے رینجرز منہ ہوا ڈسٹرکٹ میں ایک مکمل کھال والے ہاتھی کے پاس پہنچے جس سے یہ امکان بڑھا کہ وہاں کے جانور بھی غیر محفوظ ہو سکتے ہیں۔

ویتنام میں جنگلی ہاتھیوں کی آبادی صرف 100 ہاتھیوں پر مشتمل ہے۔

ہاتھی

چین جس پر پہلے الزام عائد کیا جاتا تھا کہ وہ جنگلی حیات کی مصنوعات کی غیر قانونی تجارت روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہا، نے اس عمل کو محدود کرنا شروع کر دیا ہے۔

لیکن تاجر آن منتقل ہو گئے۔

ڈیوڈ ایم ایجیری کہتے ہیں کہ ’کاؤنٹر پر جنگلی حیات کی مصنوعات کی فروخت میں کمی آئی ہے تاہم انٹرنیٹ مارکیٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ نگرانی اور کریک ڈاؤن بہت مشکل ہے۔‘

محققین کا کہنا ہے کہ اس کام کی ادائیگیاں بینک ٹرانسفر یا آن لائن ایپس سے کی جاتی ہیں۔

تجارت

ایشیائی ہاتھیوں کے پروگرام مینیجر سندیپ کمار تیواری کا کہنا ہے ’جلد ہاتھی دانت کی طرح قیمتی نہیں ہے لیکن فیشن کی دنیا کی اپنی ڈائنیمکس ہیں۔ اگر اس کی مانگ میں اچانک اضافہ ہو جائے تو یہ ہاتھیوں کے لیے نقصان دہ ہو گا۔‘

ہاتھی

ہانگ کانگ کے نزدیک چینی شہر گوانگجو میں ہاتھی کی ایک کلو جلد 200 ڈالر میں فروخت کی جا سکتی ہے

ایلیفنٹ فیملی کے محقیقین کو میانمار میں ایسے تاجروں کے بارے میں پتا چلا جو ہاتھی کی جلد کو 108 ڈالر فی کلو فروخت کر رہے تھے۔

ہانگ کانگ کے نزدیک چینی شہر گوانگجو میں ہاتھی کی ایک کلو جلد 200 ڈالر میں فروخت کی جا سکتی ہے تاہم آن لائن قیمتوں میں 285 ڈالر کی قیمت بہت زیادہ ہے۔

ہاتھی کی جلد سے بنی اعلیٰ معیار کے موتیوں کی مالا 32 ڈالر فی گرام میں فروخت ہوتی تھی۔

فوری تنبیہ

اس بات کے خدشات ہیں کہ بڑھتی ہوئی قیمتیں ہاتھیوں کی جلد کی مانگ کو بڑھا سکتی ہیں جو جانوروں کی آبادی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

اس حوالے سے کارروائی کی جا رہی ہے، میانمار نے چین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس بڑھتی ہوئی تجارت کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔

ہاتھی

پولیس نے حالیہ دنوں میں ہاتھیوں کا غیر قانونی شکار کرنے والے دس شکاریوں کو گرفتار کیا تھا اور ان کے قبضے سے ہاتھیوں کا گوشت ضبط کیا تھا۔

لیکن میانمار اور چین کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کے باوجود اس کے مہم گروپوں اور محافظ پسندوں کا مؤقف ہے کہ بہت کم ہے اور اس کے لیے فوری طور پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ایلیفنٹ فیملی کو یقین ہے کہ جلد کی تجارت پہلے سے نازک مقامی جانوروں کی آبادی کے لیے ایک شدید خطرہ ہے ’اگر یہ اور بڑھتی گئی تو جنگلی ایشیائی ہاتھی اپنی نصف حد میں ناپید ہو سکتے ہیں۔‘

اس کا خیال ہے کہ بین الاقوامی تحفظ اور قانون نافذ کرنے والی کمیونٹی کی جانب سے فوری ردعمل ہی بحران کو روک سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp