سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کو سزائے موت: سابق فوجی آمر کی سزا پر عمل درآمد کو روکا جا سکتا ہے؟


پرویز مشرف

سابق فوجی صدر کے چند وکلا نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے

سابق پاکستانی صدر اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں موت کی سزا سنائے جانے کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں جو کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر ہونے والے بحث مباحثوں میں سامنے آ رہے ہیں۔

سیاسی حلقے ہوں یا افواجِ پاکستان کے نمائندے سب ہی اس مقدمے کے فیصلے اور مستقبل میں اس کے نتائج کے حوالے سے بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

عدالت کی جانب سے پرویز مشرف کو مجرم قرار دیے جانے پر تحریکِ انصاف کی حکومت کا اگلا قدم کیا ہو گا اور پرویز مشرف کا دفاع کون کرے گا؟ اس پر بی بی سی نے چند قانونی ماہرین اور سرکاری اہلکاروں سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

غداری کیا ہے اور غدار کون ہے؟

’ملزم پرویز مشرف بنام سرکار حاضر ہوں‘

’مشرف فیصلے پر فوج میں شدید غم و غصہ‘

سابق فوجی آمر پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم

خصوصی عدالت کے فیصلے کے مطابق جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف تین نومبر 2007 کو آئین کی معطلی اور ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا مقدمہ ثابت ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت انھیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔

انور منصور خان

اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان (دائیں جانب) نے کہا ہے کہ حکومت اپیل کی صورت میں سابق فوجی صدر کا دفاع کرے گی

پرویز مشرف اور وفاقی حکومت کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے بیان دیا ہے کہ حکومت اپیل کی صورت میں سابق فوجی صدر کا عدالت میں دفاع کرے گی۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کسی عدالت کا فیصلہ اپنے حتمی مراحل طے کر جائے تو پارلیمان کے پاس اختیار ہے کہ اس پر عمل درآمد روکنے کے لیے اسے ’ایکٹ آف پارلیمنٹ‘ کے ذریعے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ خصوصی عدالت کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے لیے مجرم کو عدالت کے سامنے 30 دن کے اندر ’سرنڈر‘ کرنا ہو گا۔

آئینی امور اور فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل امجد شاہ کا کہنا ہے کہ آئین شکنی کے مقدمے میں مجرم پرویز مشرف کو خصوصی عدالت میں پیش نہ ہونے پر سنہ 2016 میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا، اس لیے ان حالات میں ایک عام مجرم اور پرویز مشرف میں بڑا فرق ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اشتہاری قرار دینے اور بارہا پیش ہونے کے عدالتی احکامات کے باوجود مجرم کے پیش نہ ہونے پر سپریم کورٹ سابق فوجی صدر کا حقِ دفاع ختم کر چکی تھی۔

امجد شاہ کا کہنا تھا کہ اگر پرویز مشرف تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد مقررہ 30 دنوں میں اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کرتے تو پھر خصوصی عدالت کے فیصلے کو ہی حتمی سمجھا جائے گا۔

وفاق کی طرف سے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے سے متعلق اُنھوں نے کہا کہ عدلیہ کی تاریخ میں ایسی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں کہ اگر کسی درخواست گزار کے حق میں فیصلہ آئے تو وہ اس فیصلے کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرے کہ فیصلہ اس کے حق میں کیوں دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں وفاق درخواست گزار تھی اور سیکرٹری داخلہ کے توسط سے یہ درخواست دائر کی گئی تھی اور خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں وفاق کے اس مؤقف کو تسلیم کیا ہے۔

پرویز مشرف

سپریم کورٹ چاہے تو پاکستانی سفارت خانے کو مجرم کی بیماری سے متعلق ایک مصدقہ رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے سکتی ہے

پرویز مشرف کی سزا پر عمل درآمد روکا جا سکتا ہے؟

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے وفاق جب چاہتی اس مقدمے کو واپس لے سکتی تھی کیونکہ قانون کے مطابق استغاثہ جب چاہے اپنی درخواست واپس لے سکتا ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ استغاثہ کا کام عدالتیں نہیں کر سکتیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ بھی پرویز مشرف کو ملنے والی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے اور اٹارنی جنرل حکومت کو یہ رائے دیں کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جائے تو وفاق اس پر عمل درآمد روک سکتی ہے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ جب وہ اٹارنی جنرل تھے تو اُنھوں نے قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او کے بارے میں اس وقت کے نیب کے چیئرمین فصیح بخاری کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے چند نکات پر عمل درآمد نہ کرنے کے بارے میں رائے دی تھی اور ان کی اس رائے کو من و عن تسلیم کیا گیا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ سابق فوجی صدر ان دنوں بیمار ہیں اور بیرون ملک زیر علاج ہیں اور اگر سپریم کورٹ چاہے تو پاکستانی سفارت خانے کو مجرم کی بیماری سے متعلق ایک مصدقہ رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے سکتی ہے جس کی بنیاد پر خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ اگر عدالتی فیصلے کے حتمی ہونے کے باوجود بھی اس میں خامیاں موجود رہیں تو پارلیمان اس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد روکنے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے۔

عرفان قادر کہتے ہیں کہ ’ایکٹ آف پارلیمنٹ‘ کے ذریعے عدالتی فیصلے کالعدم قرار دیے جا سکتے ہیں جبکہ جیورس پروڈنس اور قانون سازی کرنے والے آمنے سامنے ہوں تو پھر قانون سازی کرنے والوں کی رائے کو ہی اہمیت دی جاتی ہے۔

پرویز مشرف

اٹارنی جنرل انور منصور اب استعاثہ کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پاکستان کے بطور چیف لا افیسر پیش ہوں گے

آئین شکنی کرنے والا وطن کا غدار؟

پاکستان کے آئین کی شق نمبر چھ کے مطابق وہ شخص جس نے 23 مارچ 1956 کے بعد آئین توڑا ہو یا اس کے خلاف سازش کی ہو، اس کے عمل کو سنگین غداری قرار دیا جائے گا اور اس کو عمر قید یا سزائے موت سنائی جائے گی۔

تاہم عرفان قادر نے کہا کہ جب وہ اٹارنی جنرل تھے تو اس وقت اُنھوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی کارروائی شروع نہیں ہونے دی تھی۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم ایک تین رکنی بینچ کو بتایا تھا کہ سابق فوجی صدر نے آئین شکنی ضرور کی ہے لیکن آئین کی ہر خلاف ورزی غداری کے زمرے میں نہیں آتی۔

پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں اپیل دائر ہو سکتی ہے؟

یہ لازم ہے کہ فوجداری مقدمات میں مجرم 30 دن کے اندر خود سپریم کورٹ میں اپنی اپیل دائر کرے۔

لیکن پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل فیصل چوہدری نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو ان کی عدم موجودگی میں موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے تو پھر ان کی عدم موجودگی میں خصوصی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کیوں نہیں ہو سکتی۔

اُنھوں نے کہا کہ نیب کے مقدمات میں کسی ملزم کی عدم موجودگی میں فیصلے سنائے جاتے تھے لیکن اس اقدام کو بھی سپریم کورٹ نے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

دوسری جانب اٹارنی جنرل انور منصور نے خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے میں تمام آئینی ضروریات کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔

پرویز مشرف

سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کا دفاع کون کرے گا؟

اٹارنی جنرل انور منصور جو آئین شکنی کے مقدمے میں مجرم پرویز مشرف کے وکیل بھی رہے ہیں اور خصوصی عدالت میں ان کا دفاع بھی کرتے رہے ہیں، اب استعاثہ کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پاکستان کے بطور چیف لا افسر پیش ہوں گے۔

سابق فوجی صدر کے چند وکلا نے بھی اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان تو کیا ہے لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ وکیل سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے جنھیں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے دفاع کے لیے مقرر کیا تھا یا وہ وکلا جائیں گے جو آئین شکنی کے مقدمے میں سابق فوجی صدر کا دفاع کرتے رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل کی کارکردگی کو لے کر حکمراں جماعت کے کچھ افراد نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

تحریک انصاف کے ایک اہم رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو سپریم کورٹ میں بہتر انداز میں پیش نہ کرنے پر جماعت کے بعض رہنماؤں کو تحفظات ہیں۔

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’عدالت میں یہ معاملہ صحیح طریقے سے پیش نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔‘

اُنھوں نے کہا کہ یہ معاملہ پارٹی کے اجلاس میں بھی اُٹھایا گیا تھا۔

حکمراں جماعت کے اس رکن نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں فوج کے زیرِ انتظام چلنے والے حراستی مراکز کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل کی پیروی احسن طریقے سے نہ کرنے پر بھی کچھ پارٹی رہنماوں کو انور منصور پر تحفظات ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp