امرود کا کیڑا اور اقبال کا کوٹ


میں اپنے دوست پُھلی سے ملنے گیا۔ پھلی مجھے کہنے لگا ”باباجی“ ”بازارمیں امرود بہت اچھے ہیں آج کیا خیال ہے امرود ہوجائیں“ میں نے موبائل سکرین پہ ٹائم دیکھا۔ بچوں کو چھٹی ہونے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے پنجابی میں کہا۔ منگوا لو جناب۔ اس نے اپنے نوکر کو بھیج کر امرود منگوالیے۔ ہم امرود کھارہے تھے جب پھلی نے امرود کو دندی کاٹتے ہوئے کہا ”باباجی دھیان سے امرود کا کیڑا ہیضے کا سبب بن سکتا ہے اور امرود میں کیڑا عام پایا جاتا ہے جو نظر بھی نہیں آتا۔

” میں نے سرد آہ بھری اور کہا۔ یار پھلی امرود کا کیڑا تو نظر آسکتا ہے انسانی کیڑے کا کیا کریں۔ حرامی نظرتک نہیں آتا اور تباہی پہ تباہی مچائے ہوئے ہے۔ اب دیکھو نا۔ وکیلوں کے دماغ میں کیڑا۔ ڈاکٹروں کے دماغ میں کیڑا۔ اکثر دوستوں کے دماغ میں کیڑا۔ رشتوں میں کیڑا۔ خلوص میں کیڑا۔ کہیں ملاوٹ کا کیڑا۔ کہیں اقتدار کا کیڑا۔ کہیں اہل ایوان سے تعلق کا کیڑا۔ کہیں امارت کا کیڑا۔ کہیں تعلیم اور ڈگری کا کیڑا۔ کس کس کیڑے کو موردالزام ٹھہرائیں۔

اب خود بی دیکھو نا جس عورت نے رحیم یار خان میں اے ایس آئی کو شراب کے نشے میں دھت ہوکر تھپڑ مارے اس کے دماغ میں اپنے تعلقات کی سہولت کاری کا کیڑا تھا۔ جس عورت نے کراچی میں باوردی ٹریفک اہل کار کو برابھلا کہا بڈھا کھوسٹ کہا اس کے دماغ سیاسی کرتادھرتاٶں سے تعلقات کا کیڑا تھا۔ پھلی کہنے لگا ”بالکل باباجی آپ کی بات درست ہے“۔ ”وکیلوں والے معاملے میں۔ پہلی بات وکیل صاحب کو اپنی والدہ کی دوائی لائن میں لگ کر لینی چاہیے تھی۔

وکیل صاحب مہذب ہونے کا ثبوت دیتے۔ چلیں اگر وکیل صاحب کو کالے کوٹ کا کیڑا تھا ہی تو ڈاکٹر کو چاہیے تھا جب وکیل صاحب نے اپنی وکالت کے کیڑے کا حوالہ دیا تھا تو ڈاکٹر صاحب اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے۔ اور وکیل صاحب کے کیڑے کا احترام کر لیتے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کو بھی ڈاکٹری اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے کیڑے نے مشتعل کر دیا۔ پتہ نہیں اس وقت کتنی نرسیں اور لیڈیز سٹاف دیکھ رہا ہوگا۔ آخر اس کی عزت کا بھی کوئی کیڑا تھا یار۔

خیر وہ ڈاکٹر صاحب بھی تمام انسانی لسانی اور اخلاقی حدیں کراس کر گئے۔ ہسپتال میں موجود باقی عملے کو بھی یونین کا کیڑا تھا انھوں نے بھی بات ختم کرنے کی بجائے وکیل صاحب کا کیڑا مارنا شروع کردیا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں خوش فہمی کا کیڑا لتروں تھپڑوں سے کبھی نہیں مرا کرتا۔ اقتدار کے نشے کا خوش فہمی کا اور یونین کا کیڑا ہمیشہ ضمیر کی ضرب کاری سے ہی مرتا ہے۔ بیرونی چھترول ہمیشہ اس کیڑے کی نشوونما ہی کرتی ہے۔ اس کے بعد اس ڈاکٹر کو لیڈری کا کیڑا اسٹیج پہ لے آیا۔ بھئی لیڈری کا اتنا ہی شوق ہے تو سیاست میں جاکر اپنے کیڑے کوراضی کرو۔ بے ہودہ گفتگو الزام تراشی توہین آمیز کلمات شاعری سے وکلا کو بھڑکا کر کس کیڑے کو آپ نے راضی کیا۔ ”

میں نے کہا یار پھلی یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ پھلی کہنے لگا ”بابا جی ایک بات تو بتائیں“ یہ جو یونین اور تنظیمیں ہوتی ہیں کیا ایک بھی ایسا انسان ان میں نہیں ہوتا جو مل بیٹھ کرمعاملہ ختم کرنے کی بات کرے۔ اب دیکھیں نا وکیلوں نے جب ڈاکٹروں پہ حملہ کی منصوبہ بندی کی تو کس طرح ایک خاتون وکیل للکار للکار کر اور پکار پکار کر وکیلوں کو بھڑکانے میں مصروف ہے۔ ”میں نے کہا پھلی بھائی بتایا تو ہے انسانی سوچ دماغ اور گفتگو کا کیڑا نظر نہیں آتا بس اپنا کام کرجاتا ہے۔

اب اس کیڑے نے کتنا نقصان کیا۔ اقبال اور قائد کے کالے کوٹ کو داغدار کیا۔ چلیں جہاں تک معاملہ رہا ر،ہا۔ اب پاکستانی کے دوسرے شہروں کے وکلا اور ڈاکٹرز کا کیڑا بھی متحرک ہے۔ کہیں کچہریوں میں پولیس کا داخلہ بند ہے۔ کہیں ہسپتالوں میں وکلإ کے داخلہ پہ پابندی ہے۔ ڈاکٹرز آئے روز ہسپتالوں کی ایمرجنسی بند کردیتے ہیں۔ میں نے آج تک جہاں بھی دیکھا جہالت بے وقوفی اور ہٹ دھرمی کا کیڑا ہی زیادہ متحرک دیکھا۔

پھلی میری باتیں سن کر سر ہلاتا رہا۔ اچانک میری بیوی کا فون بجا۔ وقت دیکھا تو بچوں کو سکول سے چھٹی ہوئے سات منٹ ہو چکے تھے۔ میں نے کال اٹینڈ کی اور معصومیت سے کہا بس بچے سکول سے باہر آنے والے ہیں۔ میں نے کہا اچھا پھلی اب میں چلتا ہوں بچوں کو زیادہ دیر ہوگئی تو میری بیوی میرا تجزیہ کاری کا کیڑا مار دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).