میٹرک کا امتحان، ننانوے کا پھیر اور نقل کے منصوبے


ایک زمانہ تھا کہ ہم سکول اور درسی کتب کی محبت میں مبتلا نہ سہی پر ان سے گہری انسیت ضرور رکھتے تھے۔ امی اور ابو دونوں نے بچپن سے ذہن میں یہ خیال راسخ کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہمارے کاسۂ سر میں موجود دماغ لاکھوں میں نہ سہی، ہزاروں میں ایک ہے۔ خیال لوگوں کا آج بھی یہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے اس بنیاد پر ہمیں لوگ ذہین کہا کرتے تھے، اب دیوانہ سمجھتے ہیں۔ وہ بھی کمیابی کا معاملہ تھا، یہ بھی نایابی کا سلسلہ ہے۔ ہم ایسے سادہ تھے کہ تب بھی یقین کر لیا، اب بھی مان لیتے ہیں۔

تو بھی سادہ ہے، کبھی چال بدلتا ہی نہیں

ہم بھی سادہ ہیں، اسی چال میں آ جاتے ہیں

خیر، سکول کون سے دنیا کے منتخب تھے۔ جس ٹوٹی پھوٹی سرا میں ڈیرا لگایا، وہاں اندھوں میں کانا راجہ بنتے ہوئے نمبر بھی اچھے آ جاتے اور جماعت میں لگی دوڑ میں اکثر خود ہی اپنے حریف خرام ہوتے کہ دوسرے بہت دور کھڑے ہوتے تھے۔ دے پوزیشن پہ پوزیشن، انعام پہ انعام اور تھپکی پہ تھپکی پانچویں جماعت تک جا پہنچے۔ اس وقت پانچویں میں بھی بورڈ کے اختیاری امتحان ہوتے۔ بعد میں فیصلہ سازوں کو عقل آئی تو سلسلہ بند ہوا پر عقل کون سی ہمیشہ رہنے والی شے ہے، سنا ہے کہ کچھ برس پہلے یہ سلسلہ تجلیات پھر سے جاری کر دیا گیا ہے۔ خیر، جونئیر ماڈل سکول سمن آباد، لاہور کے رستم زماں یعنی اس نحیف جان کو بھی امتحان میں بیٹھنے کی نوید سنا دی گئی۔

اب یادداشت میں مٹے مٹے نقوش ہیں پر امتحانی مرکز کسی بڑے سے سکول میں تھا جہاں سینکڑوں نہیں، ہزاروں بچے ایک ساتھ امتحان دینے پہنچے ہوئے تھے۔ پہلے ہی پرچے میں یہ عالم دیکھ کر جو اوسان خطا ہوئے، ان کی تلاش آخری پرچے تک جاری رہی۔ نتیجہ آیا تو اوپر کی وہ پوزیشنیں جن پر ماں باپ اٹھلا کر اور اترا کر چلتے تھے، اس میں کہیں ہمارا نام نامی نہ تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ سکول میں الگ سے جو درجہ بندی ہوئی، اس میں بھی ایک موے نو دس سالہ پختہ کار دشمن نما دوست سلمان افضل نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے ہوئے پہلی پوزیشن ہتھیا لی۔ یہ دیکھیے، ابھی تک نام یاد ہے۔ ہائے، کیسے کیسے تیر اس سینے میں ترازو ہوئے ہیں۔ ابھی تو پرائمری سکول میں ایک سات آٹھ سالہ نازنین سے ہونے والا پہلا عشق بھی یاد آ گیا ہے جس کا کبھی اظہار نہ کر پائے۔ سات آٹھ سال پر برا منہ بنانے والوں کے لیے عرض ہے کہ یہ درویش بھی اس وقت آٹھ نو سال کا ہی تھا۔ اور عشق پر زور والے مصرع میں عمر کی کوئی حد بندی تو ہے نہیں۔ لیکن یہ قصہ پھر سہی۔ آج تو کسی اور راہ کی داستان سنانی ہے۔

نتیجے پر امی ابو دونوں کو دکھ تو بہت ہوا پر ابھی ہماری عمر اتنی نہیں تھی کہ ہم سے شکایت کا دفتر کھولا جا سکتا۔ اس لیے کمر پر تھپکی دے کر مزید محنت کی تلقین اور دل لگانے کی تاکید کر دی گئی۔ جی، پڑھائی میں دل لگانے کی۔ امی ابو دونوں پڑھے لکھے تھے، اچھے خاصے دانشور تھے۔ لاہور کی کتنی ہی ادبی محفلیں ہمارے گھر سجا کرتی تھیں۔ پر معاشرے میں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے جو چوہا دوڑ لگی تھی اس سے وہ بھی مبرا نہ تھے۔ ہم سے خاص توقع اس لیے بھی تھی کہ ہم سے چھوٹے دو جڑواں بھائی تھے جنہیں غالبا پیدائش پر کتابوں سے بے رغبتی اور پڑھنے لکھنے سے نفرت کی کوئی گھٹی چٹا گیا تھا۔ سو ان پر کی گئی ہر محنت اکارت جاتے دیکھ کر ساری توقعات کا دھارا بار بار ہماری سمت مڑ جاتا۔ یہ نہیں کہ امی ابو نے ان کے ساتھ محنت نہیں کی لیکن یہ محنت ایسی ہی تھی جیسے آپ کسی مچھلی کو درخت پر چڑھنے کی تربیت دیں۔ تو وقت کے ساتھ ساتھ امی ابو اس پر ہی مطمئن رہے کہ چلو پڑھ تو رہے ہیں۔ ایک جماعت سے دوسری جماعت میں کھسک بھی جاتے ہیں۔ کچھ سیکھ ہی رہے ہوں گے۔ یہ تقریبا ویسا ہی اطمینان تھا جیسا میری مادر نسبتی آج کل میرے عقیدے کی صحت کے بارے میں رکھتی ہیں۔ خیر صاحب، آخر میں تان اس پر ٹوٹی کہ تعلیمی میدان میں کامیابی کو ہماری زندگی کا لازمہ بنا دیا گیا۔

سیکنڈری سکول میں مدارج طے کرتے ہوئے معجزہ یہ ہوا کہ ہم نے ان ارمانوں پر اوس نہ پڑنے دی۔ سکول کمبخت میں سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ تنیوں امتحانوں کا الگ الگ نتیجہ بنتا یعنی چین اک پل نہیں، اور کوئی حل نہیں۔ بالائے ستم یہ کہ سالانہ امتحان میں آٹھ دس سیکشنز کا الگ الگ نتیجہ تو بنتا ہی تھا۔ ایک اجتماعی گوشوارہ بھی ترتیب دیا جاتا اور باقاعدہ اسمبلی میں اعلان ہوتا کہ فلاں ابن فلاں نے جماعت ششم کے سالانہ امتحان میں سکول میں ہونے والی جنگ میں کون سا تمغہ جیتا ہے۔ ایک ایک پرچے کے نمبر گھر جاتے۔ ماں باپ عینکیں لے کر ہر نتیجے پر جھکتے اوراعداد وشمار کے حساب سے جوتا، چپل، ڈنڈا یا پیار کے ساتھ اس نتیجے کے بحر سے برآمد ہوتے۔ ابھی ہر الٹے سیدھے موقعے پر تحائف کا رواج نہیں پڑا تھا۔ پیار کے بوسے کا لعاب تو فورا خشک ہو جاتا پر تھپڑ، ڈنڈے، جوتے اور چپل کی چوٹ کا نشان اتنی جلدی جاتا نہیں تھا۔ ابو سخت جلالی قسم کے تھے۔ ہزار دفعہ ان سے مار کھائی بس خوش قسمتی یہ رہی کہ کبھی پڑھائی کے معاملے میں یہ نوبت نہیں آنے پائی۔

سکول کے سنگی آج بھی دوست ہیں۔ ایک سے سے ایک کمال تھا ان میں۔ اس لیے اسی چوہا دوڑ میں کبھی میں آگے نکل جاتا کبھی کوئی اور پر فاصلہ کبھی بھی زیادہ نہ ہوتا۔ ساتویں جماعت میں یکے بعد دیگرے تینوں امتحانی جائزوں میں میں سکول میں سب سے آگے رہا تو امی ابو کی امیدوں کو نئے پر لگ گئے۔ آٹھویں جماعت میں قدم بعد میں دھرے اور ہشتم بورڈ امتحان کے کوہ ندا کی آواز کان میں پہلے پڑی۔ ہم تو سمجھے تھے کہ پانچویں جماعت کے شہر مدفون سے کوئی صدا نہ آتی ہو گی پر کہاں صاحب۔ بتا دیا گیا، جتلا دیا گیا کہ وقت آن پہنچا جب پچھلے قرض چکانے ہیں۔ اب کے بورڈ کے امتحان میں کفارہ ادا کرنا ہے۔ وہ نتیجہ لانا ہے جو چشم فلک نے پہلے نہ دیکھا ہو۔ سکول کی بات کوئی کرتا ہی نہیں تھا۔ اب آنکھیں بورڈ کی پوزیشن پر گڑی تھیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad