مشرف کو پھانسی کون دے گا؟


مشرف کا دور حکومت بھی، ایوب، یحیٰ اور ضیا کی طرح شخصی آمریت کا دور تھا۔ آمریت ہمیشہ جمہوریت کو روند کر آتی ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے جیسے ضیا نے بھٹو کا تختہ الٹا اور مشرف نے نواز شریف کا، در حقیقت دونوں نے کروڑوں پاکستانیوں کی گردن پر چھری چلائی اور بنیادی حقوق پامال کئیے۔ ایک نے بھٹو کو پھانسی لگائی اور دوسرے نے نواز شریف کو عمر قید کی سزا سنائی۔ دونوں سزائیں معزز عدالتوں نے سنائیں۔ اسی معزز عدالت نے آج مشرف کا پھانسی کی سزا سنائی ہے۔

مشرف کو غدار کہنے کے لئے تاریخ اور سوشیالوجی کے طالب علم کو ہزار دفعہ سوچنا پڑے گا۔ عدالت صرف ایک زاویہ دیکھتی ہے اور وہ ہے الزام۔ مشرف پر الزام کیا لگایا گیا اور کس بنیاد پر لگایا گیا۔ کیا اس نے پاکستان کا آئین توڑا۔ آرٹیکل چھ کیا کہتا ہے۔ اور مشرف اس آرٹیکل کی پابندی کر سکا یا نہیں۔ مشرف کا جواب سنا گیا یا اس کے جواب کو نظر انداز کیا گیا۔ اس کیس کو قانون دان کس نظر سے دیکھتے ہیں، سیاستدانوں کی رائے کیا ہے اور فوج کے جذبات میں کتنی شدت ہے۔

کراچی کے لوگ اور ایم کیوایم کا نقطہ نظر کیا ہے۔ باجوڑ کے شہید بچوں کے والدین کیا سوچتے ہیں، اکبر بگتی کی اولاد اور بلوچستان کی اس بارے کیا رائے ہے اور جامعہ حفصہ کی شہید بچیوں کے والدین کتنے مغموم ہیں۔ مشرف کے جرائم اگر عوامی عدالت میں لے جائے جائیں تو مشرف اس سے بھی بڑا مجرم ثابت ہو جائے گا۔ عوامی عدالتیں پاکستان میں گھر کی چاردیواری، بیٹھک، ڈیرے یا چائے کے ہوٹلوں تک محدود ہوتی ہے۔ اخبارات، میڈیا چینلز اور ٹاک شوز بھی عدالتیں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں مگر وہ کنگرو کورٹس سے بھی بدتر فیصلے کر تے ہیں۔

پرویز مشرف کے کردار کا بغور جائزہ لیں تو وہ فرد واحد سے ہٹ کر ایک ادارے کی سوچ کو آگے بڑھاتا نظر آتا ہے۔ وہ یقیناً اس ادارے کا ہیرو ہے۔ ہیرو نہ بھی ہو تو بھی وہ ادارہ اپنی ساکھ کے لئے پرویز مشرف کی بد نامی قبول نہیں کر سکتا۔ یہی المیہ اسے نواز شریف دشمن بننے پر مجبور کرتا ہے۔ نوے کی دہائی میں نواز شریف کی سول سپر میسی کی جدوجہد کو فوج نواز شریف کی امیرالمومنین بننے کی خواہش سے تعبیر کرتی ہے اور اس میں کسی حد تک سچائی بھی ہے۔

یہی کشمکش ایک کمانڈو کو ٹیک اور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ بعض کے واقعات ان دونوں کے ذاتی مفاد کے گرد گھومتے ہیں۔ ایک کو ملک میں بلا شرکت غیرے حکومت کرنی تھی اور دوسرے کو جان بچانے کی جلدی۔ یہاں تک دونوں ہی عوام میں اپنی حمایت رکھتے ہیں۔ ایک کی مظلومیت اور عوامی مقبولیت اسے ہیرو بناتی ہے اور دوسرا نواز مخالف طبقات کا ہیرو بن جاتا ہے۔

مشرف کا اصل امتحان نائین الیون کے بعض شروع ہوتا ہے جس نے قوم کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش کو ”سب سے پہلے پاکستان“ کا خود ساختہ نعرہ دے کر ہزاروں بے گناہ شہریوں کی موت کا ذمہ دار، عوامی عدالت کے غیض وغضب سے بچ نہیں سکتا۔ جس بے دردی کے ساتھ اس نے باجوڑ کے معصوم بچوں اور جامعہ حفصہ کی حاظ قران بچیوں کو قتل کرایا، اسے معاف کرنا بہت ہی دل گردے کا کام ہے، جبکہ اس قتل عام کو جائیز قرار دینا بذات خود سفاکی کے زمرے میں آتا ہے۔ جو لوگ ان گناہوں پر مشرف کو معصوم سمجھتے ہیں انہیں بھی عوامی عدالت میں لانا ہوگا۔ جہاں تک اکبر بگتی کے قتل کا تعلق ہے تو اس پر سیاسی بحث کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح امریکہ کو پاکستانی اڈے دینے اور کارگل پر ایک علیحدہ کمیشن کی ضرورت ہے

اقتدار کو طول دینے کی خواہش اتنی ظالم ہوتی ہے کہ مشرف اپنے دشمنوں کو این آر او دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بے نظیر پوری سیاسی شان سے واپس آتی ہے اور ساتھ میں نواز شریف بھی۔ اسی مشرف کے دور حکومت میں ایک جلسہ عام میں بے نظیر کو قتل کر دیا جاتا ہے اور اس کے چھینٹے بھی پرویز مشرف کے دامن کو داغدار کرتے نظر آتے ہیں۔ حالات کا جبر اور مکافات عمل شروع ہوتا ہے تو نواز شریف کے ساتھیوں کو اقتدار کا حصہ بناتے ہوئے خود مشرف ان سے حلف لیتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب نواز شریف کی حکومت ہوتی ہے اور مشرف پر آئین توڑنے اور غداری کے الزام میں مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ وہی عدالتیں جنہیں مشرف پاوں تلے روند کر اور آئین کو ردی کا ٹکڑا کہ کر ڈسٹ بن میں پھینکنے کی بات کرتا تھا، آج اسی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی ہے۔

مشرف جس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اس کے چھوٹے سے چھوٹے سپاہی کو بھی یہ سول حکومت پھانسی کی سزا نہیں دے سکتی، مشرف کو پھانسی کون دیگا۔ فوج کے ساتھ ساتھ حکومت اسے بچانے کی سر توڑ کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ حکومت مشرف کو بچانے میں کامیاب بھی ہو جائے گی۔ لیکن یہ فیصلہ ہونا ضروری ہے کہ مشرف غدار ہے یا نہیں۔ دوددھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانا چاہیے۔ یہ ریکارڈ کی درستگی کے لئے ضروری ہے ورنہ ہماری نسلیں سکولوں میں مشرف کو ہیرو کے طور پر پڑھتی رہیں گی جس طرح ہم آج تک سقوط ڈھاکہ کو انڈیا اور مکتی باہنی کا شاخسانہ سمجھتے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).