جتھوں کا دیس


وطنِ عزیز جتھوں کی آماجگاہ بن چکا ہے جہاں ہر شخص قانون کے بجائے اپنے گروہ میں تحفظ تلاش کر رہا ہے کیونکہ قانون انہیں تحفظ دینے میں بری طرح ناکام ہے۔ ہر شخص اپنی گروہی وابستگیوں کی بدولت اپنے جتھے کی غلطی ماننے اور اس کی مذمت کرنے کے بجائے اس کا بے جا دفاع کر رہا ہے۔ ایک صحت مند سماج کی بنیاد رکھنی ہے تو غلط کو غلط کہنا ہوگا گروہی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر حق سچ کی شناخت کرنی ہوگی۔

صد حیف کہ کوئی اشتعال انگیز ویڈیو میں اسپتال پر حملے کا جواز تلاش رہا ہے تو کوئی اپنے حلف کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے ہڑتال کے خنجر سے غریب مریضوں کو زبح کر رہا ہے۔ ایک کے ہاتھ میں اپنے بھائیوں کے پٹنے کی وجہ نے قلم چھین کر ڈنڈا تھما دیا ہے تو دوسرے کے ہاتھ محض اپنی گروہی بالادستی قائم رکھنے کے لیے کب سے سٹیتھو سکوپ پھینک کر راڈ اور سریا تھام چکے۔

ادھر پولیس ہے جس کا بنیادی فرض امن و امان کا قیام ہے۔ جی آپ بالکل ٹھیک سمجھے وہی امن و امان جسے سب سے زیادہ پولیس ہی سے خطرہ ہے جس کے انسانیت سوز مظالم سے ہلاکو اور چنگیز کی روحیں بھی کانپ اٹھتی ہیں۔

ایک جتھا عادلوں کا بھی ہے جو عرصہ دراز سے مسلسل چیختی چنگھاڑتی زنجیرِ عدل سے دانستاً بے خبر طاقتوروں کے بوٹوں تلے زوردار خراٹے لیتا سو رہا ہے اور صرف اور صرف اس وقت عارضی طور پر بیدار ہوتا ہے جب ان بوٹوں کی نوک سے کوئی حکم برآمد ہو یا اپنے گروہی مفادات پر ضرب لگے۔

اسی طرح صحافیوں کا جتھا ہے جو شعوری طور پر ایک مخصوص، مرغوب اور فقط گروہی منفعت کے زاویے سے حقائق پیش کرتا ہے جس سے سماج میں شعور کے بجائے فتور پھیل رہا ہے۔ دوسرے جتھوں پر دن رات فلمی انداز میں سنسنی خیز تنقید کرنے والے میڈیا نے پسِ پردہ افسردہ دھنیں لگا کر اپنی کتنی بے ضابطگیوں اور بد عنوانیوں کو عیاں کیا ہے اور یہی سوال میرا دیگر اداروں یعنی جتھوں سے ہے۔

ہر ایک کا اپنا خالصتاً ذاتی گروہ ہے۔ تاجروں کا جتھا، کلرکوں کا جتھا، حاکموں کا جتھا، علماء، وکلاء، ڈاکٹروں، میڈیا، افسرِ شاہی کے جتھے۔ اور پھر محافظوں کا جتھا جو سب جتھوں کی وجہ بھی ہیں اور باعثِ ترغیب بھی۔ اور یہی وہ جتھا ہے جس کے قانون اور آئین کی بالادستی عملی طور پر تسلیم کر لینے سے دوسرے جتھے بھی مضبوط اداروں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ جتھوں کے خاتمے سے اداروں کی تعمیر کا سفر جتنا جلدی طے ہوگا اتنی ہی سرعت سے ہم مہذب دنیا میں داخل ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).