کیاداود مسیح کا قصورغریب ہونا تھا؟


آنسوؤں اور سسکیوں میں داود مسیح مرحوم کی والدہ ایک ہی سوال پوچھ رہی تھی کیا ہمارا قصور یہی ہے کہ ہم غریب ہیں؟ اور کیا ہم غریبوں کو انصاف ملے گا؟ افسوس کی اس گھڑی میں ہم نے بڑے جذباتی ہو کر کہا جی ضرور باجی ہم ضرور آپ کا ساتھ دیں گے۔ مگر تنہائی میں آتے ہی صفیہ بی بی کے یہ سوال مجھے اندرہی اندر ویران کیے جارہے تھے کیونکہ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں اس میں ہم نے کسی بھی جان کا نعم البدل کچھ لاکھ روپوں اورایک آدھ جملوں کی صورت میں ڈھونڈ لیا ہے جیسے ”سزادلوانے سے آپ کا بیٹا کون سا واپس آ جائے گا۔ “ یا معاشرتی دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ آج اگر آپ ہماری مان کر صلح نہیں کرو گے تو کل کو آپ نے بھی یہاں ہی رہنا ہے۔ مزید یہ کہ ایک قاتل کو بچانے کے لیے ہمیں معافی اور انسانیت جیسے الفاظ کا درس یاد آجاتاہے۔

داود مسیح اپنے چار بہن بھائیوں میں سے دوسرے نمبر پر تھا عمر تیرہ چودہ سال تھی۔ سب بچوں کی طرح اپنے بہن بھائیوں سے کھیلنے اور لڑائی کا شوقین تھا۔ پہلے تو والدہ کی بیماری اور والد کی محدود آمدنی نے مجبور کیا اوربعد میں قاتلوں نے اس کی زندگی کو محدود کر کے داود کے ان شوقوں کو اس کی زندگی کے ساتھ ہی ختم کر دیا۔ داود مسیح اپنے بھائی اویس کے ساتھ قریب ایک ایمبرائیڈری فیکٹری میں 14000 ماہانہ تنخواہ 12 گھنٹے کے عوض ملازمت اختیار کرتا تھا۔

چودہ سال کی عمر میں چودہ ہزار تو بہت اچھے لگتے ہیں مگر داود مسیح اس معاشرے سے نابلد تھا جس میں چھوٹے بچوں کو کچھ درندہ صفت لوگ اپنی جنسی آسودگی کے لئے آسان شکار سمجھتے ہیں۔ اصل میں ہے بھی ایسا کیونکہ محرومیوں کا شکار بچہ لالچ کا شکار، ڈر کا شکار، آوارگی کا شکار اور مادی ضروریات کا شکار یقیناً اور جلدی ہو جاتا ہے۔ اور اسی کمزوریوں کا فائدہ صداقت اور رضوان نے بھی اٹھایا اور مورخہ 2019۔ 12۔ 14 کو صبح 2 بجے ملک پور فیصل آباد میں جب داود مسیح ان کے ساتھ رات کی ڈیوٹی کر رہا تھا موقع پاکر اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا اور اپنے جرم کو مٹانے کے لیے مصعوم داود کو ہی گلا دبا کر صفہ ہستی سے مٹا دیا۔ اور اس کی لعش چھپا کر فرار ہو گئے۔

داود مسیح کے دکھ اور کرب کے دوران داود کی اماں صفیہ بی بی کے سوالوں پر غور کرتے کرتے غربت کی تعریف اور اپنی معاشرتی حالت پر غور کیا تو ڈکشنری نے بتایا کہ غربت کا عام مفہوم کسی معاشرے یا انسان کی مادی ضروریات کی کمی سے تعلق رکھتا ہے۔ ”انسانی طور پر ہمارے معاشرے میں مجھے کوئی شخص آج تک نہیں ملا جو کہ مادی ضروریات کے لالچ سے آزاد ہو ما سوائے جس کی پہنچ سے مادی چیزیں دور ہوں۔ معاشرتی اعتبار سے محرومیوں کا شکار تو تھے ہی مگر کچھ چیزوں کو ہم نے ترقی، تہذیب، عزت اور کلچر کے نام پر افراد کی پہنچ سے اتنا دور کر دیا اورخطرے میں ڈال دیا کمزور طبقات جیسے عورت، بچہ/بچی اور صنف نازک کی زندگیوں کو۔

مزید غور کریں تو سمجھ آتا ہے کہ مادی و جسمانی ضروریات دنیاوی اور قدرتی دونوں ہوتی ہیں اور ہمارے انسانوں نے غیر قدرتی اور حیوانی طریقے سے مادی ضروریات کی تکمیل کے لیے شکار بنا یا معصوم بچوں کو اورشاید بہت سے بچے اس وقت بھی شکار ہو رہے ہوں۔ ان حیوانی عملوں کے سامنے آنے پربطور معاشرہ پہلے ہم روئے زینب کے دکھ میں پھرفرشتہ کے پھر بادل مسیح کے اور اب داود مسیح کے دکھ میں رو رہے ہیں۔ اوربہت سوں کا شاید ہم رو بھی نہیں سکے۔

کسی بھی معاشرے میں حیوانیت کو انسانیت میں بدلنے کے لئے دو عوامل مذہب اور قانون معاون ثابت ہوتے ہیں ان کے علاوہ ایک اور عمل ہے جس کا شاید ہم انسان سب سے زیادہ دباؤ محسوس کرتے ہیں اور وہ ہیں معاشرتی اقدار اور روایات۔ اس ضمن میں یہاں یاد آتا وہ قول کہ عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی جہنم بھی۔ اور کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم جہنم سے بری جگہ پر رہ رہے ہیں کیونکہ عین ممکن ہے جہنم میں بچوں بچیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا۔

معاف کر دیجیئے گا دکھ میں جذبات بہی جارہے ہیں۔ مذہب پر عمل کے بارے میں تو بزرگ اشفاق صاحب نے خوب کہا تھا کہ ہم اللہ کو تو مانتے ہیں مگر اس کی ایک بھی نہیں مانتے۔ اب قانون اور معاشرے کو دیکھیں تو دونوں ہی برابر زوال کا شکار ہیں۔ معاشرتی اعتبار سے جب ساٹھ ستر کی دہائی کا ذکر سنتے ہیں تو تنزلی کی وجوہات عیاں ہو جاتی اور قانون یا قوانین کو ہم شاید اپ گریڈ نہیں کرسکے اور نہ ہی اب کر رہے ہیں۔

اس سانحے میں قصور وار ٹھہرایا جائے تو لسٹ بڑی لمبی ہو جائے گی جس میں داود مسیح کے والدین، فیکٹری مالک، لیبر ڈیپارٹمنٹ، ریاستی قوانین، معاشرتی رویہ اور غربت شامل ہیں۔ اس میں ملزمان صداقت اوررضوان کو اس لیے شامل نہیں کروں گا کیونکہ مذکورہ عوامل ہی ہیں جن کی غفلت سے انسان حیوان بنتے ہیں اور شکار کرتے ہیں معصوموں کا۔ اور جب تک ہم ان سب کو بہتر نہیں کریں تو مائیں اپنے بیٹے بیٹیاں گنوانے کے بعد یہی سوال پوچھتی رہیں گی کہ کیا غریب کا قتل جائزہے؟ اور کیا ہمارا یہی قصور ہے کہ ہم غریب ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).