ہندوستانی مسلمانوں کو شہریت کے نئے قانون سے کیا خطرہ ہے؟


ارباب اقتدار کو پڑوسی ممالک افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کی اقلیتوں کی فکر ستارہی ہے مگر اپنے ہی ملک کے ہم وطن اقلیت کا انہیں خیال تک نہیں ہے۔

سی اے اے ہندوستانی مسلمانوں سے شہریت چھیننے کا مقدمہ اور غیر مسلم کے لئے انٹری کارڈ ہے۔

11 دسمبر کے بعد سے شہریت ترمیمی قانون 2019 کے تعلق سے تقریبا تقریبا تمام وہ باتیں سامنے آگئی ہیں جس کے خدشات سے بھارت کے باشندوں میں اضطراب پایا جارہا ہے بھارت کا ہر شہری جس میں اکثریتی اور اقلیتی طبقہ کے لوگ شامل ہیں وہ ملک اور خود اپنے ”وجود“ کے بقا کے لئے فکرمند نظر آرہا ہے مگر ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک ہر طرح سے ستائے گئے اور ظلم کی چکی میں پس جانے والے مسلمان کرب میں مبتلا ہیں۔ کرب و اضطراب کا یہ منظرنامہ ہے ہی ایسا کہ گزشتہ تمام منصوبہ بند، غیر منصوبہ بند مظالم، جور و جفا، ظلم و بربریت، تعصب و امتیاز کی خونچکاں داستانیں کم ہیں۔

بابری مسجد کی شہادت سے لے کر گجرات فسادات، دہشت گردی کے الزامات اور گھر واپسی و ماب لنچنگ کے ذریعہ اقلیتی فرقہ پر یہاں زمینں تنگ کردی گئیں باوجود اس کے اقلیتوں اور انصاف پسند لوگوں کو ہندوستان کے آئین و دستور پر بھروسہ تھا مگر گزشتہ چھ سالوں میں جس طرح مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے لوگوں کا بھروسہ متزلزل ہوتارہا ہے اور حکمراں جماعت ان اداروں کو چھیڑ چھاڑ کے ذریعہ بے اثر کرنے میں کامیاب رہے ہیں

اس سے ان کا حوصلہ بڑھا ہے اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ یہ ازخود طے کررہے ہیں کون ہندوستانی ہے کون غیر ملکی اور کون گھسپیٹھیا ہیں بلکہ آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے حساس مسائل پر پہ در پے قانون پہ قانون بنائے جارہے ہیں ایسا معلوم پڑتا ہے کہ یہ جلد بازی میں ہیں یا انہیں اپنے دور اقتدار میں ملک کو ہندو راشٹر بنا لینا ہے حالانکہ یہ ممکن نہیں ہے چونکہ ہندوستان کے سیکولر اسٹیٹ کا تانا بانا اور بنیاد موجود حکمراں جماعت کے سنگھی ایجنڈوں سے، نفرت کے پالیسیوں سے پھوٹ ڈالو اور حکمرانی کرو کے ہتھکنڈوں سے زیادہ توانا اور مضبوط ہے شہریت ترمیمی قانون 2019 جو سماج کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرے گا جب کہ ہمارا آئین کہتا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی تقسیم نہیں ہوگی بلکہ بلاتفریق ذات پات اور مذہب تمام شہریوں کو مساوی اور برابری کا حق حاصل ہے مگر مذکوہ متنازع قانون آئین اور ہندوستانی روایات کو توڑنے والا اور مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی شہریت کو قانونی حیثیت دیتا ہے جواز فراہم کرتا ہے حالانکہ پناہ گزیں یا مہاجر کوئی بھی ہندو، مسلمان، سکھ یا عیسائی ہوسکتا ہے اس قانون کا واحد مقصد ایک خاص مذہب کے پیروکاروں کو ہندوستان کی شہریت دینا نہیں ہے۔

باقی پڑوسی ملکوں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے اقلیتوں کے لئے شہریت کو یقینی بنائیں گے یہ پھر بھی گوارا تھا مگر تب تک جب کہ اس کے بعد این آر سی یا پھر آسام کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا اس نئے قانون کو لوگ ملک کے آئین پر شب خون مارے جانے کے مترادف سمجھ رہے ہیں لہذا ملک کے ٹاپ تعلیمی اداروں اور دانش گاہوں سے شروع ہونے والا احتجاج گاؤں گاؤں قریہ قریہ پہونچ چکا ہے اور اب عوامی تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

ہر فرد بل کے مضمرات کے باعث اسے کا العدم قراد دینے کے لئے سراپا احتجاج نظر آرہا ہے شہریت ترمیمی قانون کے تعلق سے مختلف پارٹیوں کے لیڈران اور ضمیر فروش نام نہاد لیٹر پیڈ والے لوگ اب چبائے ہوئے لقمہ کو پھر سے چبانے کی طرح یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ اس سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہے یا اس سے خوف زدہ نہ ہو یہ دراصل غیر انسانی، غیر دستوری اور غیر اخلاقی بل کے خلاف ملک بھر میں زور پکڑ چکے عوامی تحریک کو کمزور کردینا چاہتے ہیں نیا شہریت ترمیمی قانون نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام ہندوستانیوں کے لئے وجہ اضطراب ہے چونکہ اس میں مذہبی بنیاد پر جو خطوط کھینچے گئے ہیں اور اس کو قبول کر لینے کی جو بیجا ضد ہے وہ حکومت کی منشا سے صاف صاف جھلک رہا ہے کہ ملک فاشزازم قوتوں کے نرغے میں ہے جہاں صرف بادشاہ سلامت کی دل بستگی عزیز تر ہے ماسوا کیڑے مکوڑوں کی طرح بے جان اشیاء کے حامل ہیں شہریت ترمیمی قانون عموما تمام ملک کے لئے خصوصا ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول قانون ہے۔

چونکہ اس قانون کے ذریعہ صرف پڑوسی ملکوں کے غیر مسلم کو شہریت نہیں مل رہی ہے۔ بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے شہریت چھین لینے کا جواز بھی ہے۔ بلکہ شہریت ترمیمی قانون ہندوستانی مسلمانوں کو حق شہریت سے محروم کردینے کا مقدمہ ہوگا۔ اس لئے یہ کہنا کہ این آرسی سے اس کا کوئی تعلق نہیں غلط ہے سبھی سمجھ رہے ہیں کہ این آرسی میں شہریت کے لئے مطلوب دستاویز نہیں جمع کرانے کی صورت میں مسلمانوں کے پاس گرفتار اور قید ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

جبکہ ہندو، سکھ، عیسائی اور جین کے لئے سی اے اے ممدو معاون ثابت ہوگی بھلے ہی وہ گھسپیٹھیاکیوں نہ ہو۔ چونکہ وہ غیر مسلم ہے اس لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ سی اے اے ہندوستانی مسلمانوں سے شہریت چھیننے کا مقدمہ اور غیر مسلم کے لئے انٹری کارڈ ہے۔ اس لئے یہ قانون وجود کے لئے خطرہ ہے اور لوگ باگ اپنے وجود کے بقا کے لئے تن تنہا میدان کار زار میں مقابلہ آرا ہیں۔ اور یہ دسمبر کی طویل راتوں میں جدو جہد کررہے ہزاروں لاکھوں شہریوں کی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی قابل فخر تاریخ، ثقافت اور تہذیب کے تحفظ کا جنگ ہے جس کے لئے ہر شخص قافلہ اور قافلہ سالار بن کر جوق درجوق احتجاج بلند کررہے ہیں۔

شہریت ترمیمی قانون میں شامل کئی باتیں مضحکہ خیز ہیں کہ پڑوسی ملکوں کے اقلیت جوکہ غیر مسلم ہیں ان کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کا کلیجہ پھٹا جارہا ہے۔ لہذا بغیر اس بات کی پرواہ کیے کہ مذکورہ ملکوں میں آباد لوگوں کی زندگی پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے اور ان پڑوسی ممالک سے رشتوں میں دراڑ پڑیں گی۔ قانون بنادیا گیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سی اے اے کے ذریعہ وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنے والے ارباب اقتدار کو پڑوسی ممالک افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے اقلیتوں کی فکر ستارہی ہے مگر اپنے ہی ملک کے ہم وطن اقلیت کا انہیں خیال تک نہیں ہے اس رحم دلی اور وسیع القلبی کا آپ کیا نام دیں گے؟

انہیں اس بات کی قطعی فکر نہیں ہے کہ سی اے اے کے بعد ہم وطن اقلیت پر قیامت صغرا برپا ہوگئی ہے۔ جو اب سوتے جاگتے صرف اور صرف وجود اور عدم وجود کے درمیان جھول رہے ہیں اور کسی بڑے ناگہانی مرگ انبوہ سے لرزاں ہیں اور کروڑوں کی آبادی پر مشتمل اقلیت کے نوجوان طلبا و طالبات روشن مستقبل کے بجائے تعلیم و تعلم کو چھوڑ مستقبل کی شہریت کی فکر لئے بیچ سمندر میں ہچکولے کھارہا ہے مگر عزم اور حوصلہ جوان ہے پابندیوں اور خوف کے سایوں کے باوجود اقلیت ایک موہوم امید کے ساتھ اپنی بقا کے لئے تگ و دو کررہے ہیں چونکہ ان کا ماننا ہے کہ بقول فیض احمد فیض دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے /

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).